اسرائیل کی ایک اور شکست

شمشاد حسین فلاحی

گذشتہ ایک ماہ سے لبنان پر جاری اسرائیلی بمباری عنقریب رک جائے گی کیونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی قرار داد کو دونوں ملکوں نے تسلیم کرلیا ہے۔ لبنان نے اس لیے تسلیم کیا کہ وہ زبردست خون ریزی اور تباہی و بربادی سے اپنے ملک اور شہریوں کو بچانا چاہتا ہے اور اسرائیل نے اس لیے قبول کرلیا کہ وہ اس کے عزائم کی تکمیل اور اس کے مفادات کے حصول میں عین معاون ہوسکتی ہے۔

لبنان پر اسرائیلی جارحیت نے مہذب اور ترقی یافتہ دنیا کی تاریخ میں ایک نئے سیاہ باب کا اضافہ کیا اور عرب مسلم دنیا کی دشمنی میں عالمی طاقتوں کی وحدت اور فکری ہم آہنگی کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے طشت از بام کردیا۔ دنیا کے داروغۂ اول نے اپنی تاریخی روایت کو قائم رکھتے ہوئے مسلم دشمنی کا نہ صرف عملاً ثبوت دیا بلکہ صدر بش نے زبانی بھی کھل کراپنی اسلام دشمنی کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا۔ ’’اسلامک فاشزم‘‘ کے الفاظ نہ صرف صدر بش کے دل و دماغ میں ابلتے اسلام دشمنی کے لاوے کی شدت کو واضح کرتے ہیں بلکہ اس بات کا بھی اشارہ دیتے ہیں کہ اسلام اور مسلم دشمنی میں آگے بڑھنے کی حدیں ابھی انھوں نے متعین نہیں کی ہیں اور وہ مختلف انداز میں اور مختلف راستوں سے اپنی دشمنی کو عمل کی راہ فراہم کرتے رہیں گے۔ لبنان پر اسرائیلی بمباری، امریکہ کی تائید، عالمی برادری کی خاموشی اور مسلم دنیا کی مجبوری وہ بڑے حقائق ہیں جن سے اس پورے سلسلہ ٔواقعات میں صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔

اسرائیل کے ذریعہ لبنان پر تھوپی گئی اس یک طرفہ جنگ میں اگرچہ اسرائیل مکمل طور پر ناکام رہا مگر اسی کے ساتھ یہ بھی بڑا سچ ہے کہ عالمی عدل و انصاف کوبھی زبردست شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔

اس پوری جنگ میں اسرائیل کا ایک کھلا ایجنڈا تھا اور ایک خفیہ ایجنڈا۔ کھلا ایجنڈا یہ تھا کہ ایک تو وہ حزب اللہ کے ذریعہ اغوا کیے گئے دو فوجیوں کی بلاشرط رہائی چاہتا تھا۔ دوسرے لبنان میں مقابل طاقتوں کی مکمل تباہی ا س کے نظام اور اس کی قیادت کو ختم کرکے مستقبل کے خطرات سے چھٹکارا چاہتا تھا۔ اور خفیہ ایجنڈے میں اول تو یہ بات تھی کہ لبنان کے وسائل اور اس کے نظام کو تباہ کرکے ملک کی شیعہ آبادی کو حزب اللہ کے خلاف کردیا جائے اور ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی جائے کہ یہ ملک کے لیے مصیبت ہیں اور اسرائیل کی آفت کو ہم پر مسلط کرنے کا ذریعہ ہیں۔ دوم وہ ایران کے ہمنواؤں کو اس قدر کمزور کرنا چاہتا تھا کہ امریکہ کے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کی صورت میں وہ کسی جوابی کارروائی کے لائق نہ رہیں۔

اور اسرائیل کو یقینا ماتم کرنا ہوگا کہ وہ نہ تو اپنے اعلانیہ ایجنڈے کے حصول میں کامیاب ہوسکا اور نہ خفیہ ایجنڈا ہی حاصل کرسکا۔ اس کے برخلاف اس پوری جنگی کارروائی نے اسے زبردست جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا اور معتبر ذرائع کے مطابق سو سے زیادہ اسرائیلی فوجی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح نفرت اورتقسیم کے بجائے لبنانی قوم میں اتحاد و یگانگت اور دشمن کا مل کر مقابلہ کرنے کی سوچ پیدا کرنے کا ذریعہ بنا۔ اس طرح ’’نئے مشرق وسطیٰ ‘‘ کی تشکیل کا خواب دیکھنے والوں کے سپنے چکنا چور ہوگئے۔ اور اسرائیلی جارحیت کی، خاص طور پر قنا کے قتل عام کے بعد، جس قدر مذمت عالمی سطح پر ہوئی وہ جارح قوتوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہے اور اسی وجہ سے اس کے حامیوں کو اپنی اسٹریٹجی تبدیل کرنی پڑی اور اس کے لیے اقوام متحدہ کو آلۂ کار بناکر اپنی شبیہ کو بچانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

اس طرح تمام تر خون خرابے اور جانی و مالی نقصان کے باوجود ایک مرتبہ پھر اسرائیل حزب اللہ کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہوا، اور جو کچھ اسرائیل کو اس جنگ سے حاصل ہوا وہ صرف اور صرف یہ ہے جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کی امن افواج کا تقرر ممکن ہوگیا جو مستقبل میں حزب اللہ کے خطرات سے کسی حد تک اس کی حفاظت کا ذریعہ ہوسکے گا۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد حسبِ سابق مظلوم کو انصاف دلانے کے بجائے ظالم اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کا ذریعہ بنی جو پوری دنیا کے لیے افسوسناک ہی نہیں مایوسی کا سبب بھی ہے۔

اس جنگ میں عالم اسلام اور عالم عرب کی بے چارگی بھی قابل دید اور حالت قابل ِ رحم تھی کہ وہ معصوم عرب مسلمانوں پر اسرائیلی بمباری دیکھتے رہے اور کچھ نہ کرسکے۔ اگرچہ بعض سربراہوں نے محتاط دھمکی آمیز بیانات بھی دیے مگر بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔

اب قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا میں تین درجن سے زیادہ مسلم مملکتیں اور دنیا کے مالدار ترین عرب ممالک کیا اپنی تباہی کے مناظر کو اسی طرح دیکھتے رہیں گے یا کسی ایسی سیاسی اسٹریٹجی پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوں گے جو اقوام متحدہ جیسے نام نہاد عالمی ادارے، جو حقیقت میں امریکی سیاست کا ہی ایک شعبہ بن کر رہ گیا ہے، سے ہٹ کرخود اپنے مسائل حل کرنے اور ہنگامی صورت حال میں کسی فیصلہ تک پہنچنے کے قابل بنائے اور عالم اسلام کے سر پر منڈلاتے جارح قوتوں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کا اہل بناسکے۔ اب وقت ہے کہ عالم اسلام کے سربراہ مل کر بیٹھیں اور طاقت کے عدم توازن کے اس ماحول میں کوئی ایسا وفاق بنائیں جو ان جارح قوتوں کے مقابلہ میں کھڑا ہوسکے۔

ایسے عالمی سیاسی ماحول میں جبکہ، سیاسی تجارتی اور دفاعی تعاون باہمی کی بنیاد پر الگ الگ جغرافیائی خطوںکی الگ الگ تنظیمیں بن رہی ہیں کیا مسلم ممالک بھی، خاص طور پر عرب اسلامی ممالک اپنا کوئی وفاق بنانے پر غور کریں گے۔ یہی وقت ہے کہ مظلومیت سے نکل کر ظالم کے مقابلہ کا منصوبہ بنایا جائے اور اپنی سیاسی آزادی کی حفاظت کی جائے جو ہر فرد اور قوم کا بنیادی حق ہے۔

………………

کچھ حجاب کے بارے میں

قارئین ہم معذرت خواہ ہیںکہ اپنے وعدہ کے مطابق اس ماہ خصوصی شمارہ ’’مسلم خاتون اور اس کی شخصیت کا ارتقاء‘‘ پیش نہ کرسکے۔ حالانکہ مواد اور مضامین تقریباً تیار تھے مگر مالی وسائل کی فراہمی راہ کا روڑا بنی۔ اس خصوصی شمارہ کی اشاعت میں جس کے منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے ہماری ٹیم نے بڑی محنت کی ہے نوے ہزار سے ایک لاکھ روپے کا خرچ متوقع ہے۔ اور اس بڑی رقم کی فراہمی کی صورت یہی ہے کہ مناسب تعداد میں اشتہارات حاصل کیے جائیں۔

اردو رسائل وہ بھی دینی اور فکری رسائل کے لیے تجارتی اشتہارات کا حصول لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ مگر ہم کوشش کررہے ہیں کہ کچھ وسائل فراہم ہوجائیں اور جلد از جلد یہ شمارہ منظر عام پر آجائے۔ اس ضمن میں قارئین سے درخواست ہے کہ وہ مالی وسائل کی فراہمی میں ہماری مدد کریں۔ اس کی شکل اشتہارات کی فراہمی اور اہلِ خیر سے خصوصی تعاون لے کر آپ ادارہ کو بھیج سکتے ہیں۔ اس طرح کارخیر میں تعاون کرکے آپ یقینا اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔

ایک خاص بات اپنے قارئین سے اور کہنی ہے کہ اس وقت ہمارے سامنے ’’مشرقی حجاب‘‘ نام کا ایک رسالہ ہے جس کے پورے صفحہ پر ایک خوبصورت عورت کی تصویر ہے اور اس کا ’’ماسٹ ہیڈ‘‘ یعنی نام بھی بالکل ’’حجاب اسلامی‘‘ کی طرح لکھا ہے۔ کئی مقامات سے یہ شکایت ملی ہے کہ مذکورہ رسالہ انہیں وی پی سے ملا اور انھوں نے حجاب اسلامی سمجھ کر وی پی چھڑالی۔ یہ ایک دھوکہ ہے جو حجاب اسلامی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر ہمارے قارئین کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم اپنے قارئین سے کہنا چاہیں گے کہ وہ ہوشیار ہوجائیں اور وی پی وصول کرتے وقت بہ غور دیکھ لیں کہ بنڈل ماہنامہ حجاب اسلامی ہی کا ہے یا نہیں۔ بہ الفاظ دیگر ’’نقلی حجاب سے ہوشیار!!!‘‘

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146