اسلام، اخلاق اور تہذیب نفس

حافظؔ کرناٹکی

شخص سے شخصیت بننے کے مرحلے میں انسان کو اعلیٰ تہذیبی اقدار، اعلیٰ اخلاق، بلند کرداری، فہم و ادراک اور فکر و دانش کے ساتھ ساتھ عمل صالح، حسن سلوک، خدمت خلق، صلہ رحمی، اور تفکر وغیرہ کو بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے۔ جب وہ اخلاقی تربیت کے مرحلے سے گذرتا ہے تو اس کی شخصیت سنور جاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت دونوں کے بہتر ہونے کی امید روشن ہوجاتی ہے۔ جب انسان کے اخلاق درست ہوجاتے ہیں تو دوسری مخلوقات سے بھی اس کے رشتے بہتر اور مضبوط ہوجاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث رسولؐ میں حسن اخلاق پر کافی زور دیا گیاہے اور برے اخلاق سے ہر حال میں بچنے کی تاکیدکی گئی ہے۔
اگر ذرا دیر غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جتنے فتنے اٹھتے ہیں، وہ سب کے سب برے اعمال و اخلاق کی دین ہوتے ہیں۔ اس طرح کی عادتیں انسان کی ظاہری وباطنی شخصیت کو داغ دار بنادیتی ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ بات بالکل پسند نہیں ہے اسی لیے اللہ نے خرابیوں سے بچنے کا حکم دیا ہے؛
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کااحسان کا اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتے ہیں۔ وہ کھلی برائی اور مطلق برائی اور ظلم سے منع فرماتے ہیں۔ وہ تم کو نصیحت فرماتے ہیں کہ تم نصیحت قبول کرو۔‘‘ (سورہ النحل)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے کہ’’ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں۔‘‘
حضورؓ کی بعثت کا مقصد حسن اخلاق کی تکمیل ہے۔ایک اور جگہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’مجھے بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اچھے اخلاق کو پورا کردوں‘‘ برے اخلاق اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ حضرت سہلؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے فرمایا؛ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بلند اخلاق کو پسند فرماتے ہیں اور رذائل کوناپسند کرتے ہیں۔‘‘
بہت مشہور واقعہ ہے کہ کسی نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا کہ حضورﷺ کے اخلاق کیسے تھے تو انہوں نے کہا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ گو یا قرآن کریم دنیا کے تمام علوم کا منبع ہونے کے باوجود حسن اخلاق کا حسین ترین گلدستہ ہے۔ قرآن کریم کی عظمت کے دواہم پہلو ہیں، ایک فکری و نظریاتی اور دوسرا ادبی و علمی، قرآن مجید کتاب ہدایت ہے۔ انسانوں کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر ہدایت کا راستہ بتاتی ہے۔ وحشت و درندگی، ظلم و سفاکیت کاقلع قمع کرکے انسانیت نوازی اور بشردوستی کا علم بلند کرتی ہے۔ اس دنیا میں زندگی گزارنے کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ جانداروں اور بے جانوں کے حقوق سے واقف کراتی ہے۔ کامیابی اور عروج حاصل کرنے کے زریں اسباق پڑھاتی ہے تو دوسری طرف موت کے بعد والی زندگی میں کامیابی کے لیے توشۂ آخرت فراہم کرنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ قرآن کریم کا یہ فکری پہلو ہے جس کا رشتہ اخلاق و افعال اور اعمال صالح سے براہ راست قائم ہوتا ہے۔ جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے سارے پہلو سموئے ہوئے ہیں۔
حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا ’’نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس پر لوگوں کے مطلع ہونے کو ناپسند کرے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے تو اہل ایمان کی بھلائی کے لیے اسے برے اخلاق سے حفاظت کی دعا بھی سکھادی ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا فرماتے؛
’’اے اللہ آپ ہی مالک ہیں، آپ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ ہی میرے رب ہیں۔ میں آپ کا بندہ ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، مجھے اپنے گناہوں کا اعتراف ہے۔ آپ میرے سب گناہوں کو بخش دیجئے، آپ کے سوا کوئی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔ اے اللہ مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرمائیے، آپ کے سوا کوئی اچھے اخلاق کی ہدایت نہیںدے سکتا۔اے اللہ برے اخلاق مجھ سے دور فرما دیجئے، آپ کے سوا برے اخلاق مجھ سے کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ
’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ آدمی ہے جس کے پاس مال و اسباب نہ ہوں، آپؐ نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا جو نماز، روزے، زکاۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا لیکن اس آدمی نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، اور کسی کو مارا ہوگا تو ان سارے لوگوں کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی اگر ان کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جائیں گے پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
حضرت ابودرداء ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
’’کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو روزے نماز اور صدقے سے افضل ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں؟ آپؐ نے فرمایا’’ آپس میں محبت اور میل جول‘‘ اس لیے کہ آپس کا بغض تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے دوسری روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا آپس کی پھوٹ مونڈدیتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرمونڈدیتی ہے بلکہ یہ تو دین کو مونڈدیتی ہے۔‘‘
ان باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہی انسان بہتر ہوتا ہے جو بری عادتوں اور بری خصلتوں سے خود کو بچاتا ہے۔ کیوں کہ ان برائیوں سے بچنے کے بعد وہ تہذیب نفس کے عمل سے گذرتا ہے اور اس کے اندر خیر کا ماحول پیدا ہوتاہے۔ اس طرح وہ معاشرے کے لیے مفید فرد بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس بری عادتوں، اور بری خصلتوں اور برے اخلاق والا انسان پورے سماج اور معاشرے کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی موجودگی سے معاشرے اور سماج میں بے اطمینانی پھیل جاتی ہے۔ معاشرہ غیر یقینی صورت حال کا شکار ہوجاتا ہے۔ عوام الناس تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تو جہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اسلام ہر قدم پر برے اخلاق سے روکتا اور اچھے اخلاق کی تاکید کرتا ہے۔ ذہن میں اچھائی اور برائی کا تصوّر جب واضح ہوجاتا ہے تو انسان برائیوں سے بچنے اور اچھائیوں کو اپنانے میں ناکام نہیں ہوتا ہے۔ اسی کو تہذیب نفس کہا جاتا ہے۔ اور جب نفس کی تہذیب ہوجاتی ہے۔ اس کی تربیت ہوجاتی ہے تو پھر اپنے آپ انسان میں اعلیٰ اور عمدہ اخلاق کے صفات پیدا ہوجاتے ہیں۔
رذائل سے اجتناب اور حسن اخلاق سے آراستہ ہونا ہی انسانیت اور آدمیت کے لیے بھی کمال کی بات ہے اور انسانی نفس کی معراج بھی۔ فطری استعداد کے ساتھ ساتھ تربیت اور جدّ و جہد سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ہم انہیں اپنے راستے ضرور کھول دیں گے، جس نے اپنے آپ کو رذائل سے بچانے کی کوشش کی، حفاظت کے راستے اپنائے،سعی مسلسل کرتا رہا اور برائیوں سے خود کو پاک رکھا وہی کامیاب ہے۔جس نے اس کی فکر نہیں کی بلکہ گندگیوں اور ناپاکیوں میں بھٹکنے کے لیے خود کو ڈھکیل دیا وہی ناکام و نامراد ہے، اسی لیے قرآن کریم میں شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے کی نسبت خود انسان کی طرف کی گئی ہے۔
قد افلح من زکھا وقد خاب من دسّھا۔
’’کامیاب وہ ہوا جس نے نفس کو سنوارلیا اور رذائل سے پاک کرلیا۔ نامراد وہ ہوا جس نے اسے دبادیا۔ ‘‘
اب فیصلہ کرنا انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس طرح خود کو رذائل سے برائیوں سے اور بداخلاقی سے بچاتا ہے اور اعلیٰ اخلاق کا پیکر بن کر رسول کریم ﷺ کے اس قول پر کہ میں معلّم بناکر بھیجا گیا ہوں تا کہ لوگوں کو اخلاق سکھاؤں کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146