’اسلامو فو بیا‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ بطور اصطلاح سب سے پہلے بر طانیہ میں استعمال کیا گیا۔کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’یہ اصطلاح ۱۹۹۱ء میں امریکی رسالہ Insightمیں معرض وجو د میںآئی۔
کسی بھی چیز یا عمل سے خوف کھانے کو ’فوبیا‘ کہا جاتا ہے۔اس کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال ہو تی ہیں، مثلاً وہ شخص جس کو پانی سے ڈر لگتا ہو،اس کے لیے ’ہایڈروفوبیا‘ کی اصطلاح استعمال ہو تی ہے۔اسی طرح سے ایک اصطلاح ’فوبوفوبیا‘ ہے۔ اس مرض کامر یض کسی حادثے کو دیکھ کر خوف زدہ رہتا ہے۔کچھ لو گوںکواْونچائی سے ڈر لگتا ہے وہ ’ایکروفوبیک‘ کے مریض ہو تے ہیں، جب کہ ’مونوفوبیک‘ بھی ایک نفسیاتی بیماری کا نام ہے جس کا مریض تنہا ئی سے ڈر تا ہے۔
’فوبیا‘ (phobia)خوف، ڈر اور نفرت رکھنے کو کہتے ہیں۔یہ ذہن کی اس مریضانہ کیفیت کا نام ہے، جو کسی کی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہو تی ہے۔
جب لفظ ’فوبیا‘ کو اسلام کے ساتھ جوڑا جائے تو اس کے معنی و مفہوم: ’’اسلام سے خوف،ڈر یا نفرت‘‘ کے ہوتے ہیں، جو مخالفین اسلام اور معترضین کے دل و دماغ میں رچ بس گیا ہے ۔
’اسلامو فوبیا‘ سے مراد، اسلام، مسلمان اور اسلامی تہذ یب و ثقافت سے نفرت اور خوف کا اظہار اور عمل ہے۔’اسلامو فوبیا‘ ایک ایسا نظر یہ ہے جس کے مطابق دنیا کے تمام یا اکثر مسلمان جنونی ہو تے ہیں جو غیر مسلموں کے بارے میں متشددانہ نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
’اسلامو فوبیا‘ اور مغر بی میڈ یا
میڈیا ’اسلامو فوبیا‘کی جڑ مضبوط کر نے اور پھیلانے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زبردست کردار ادا کر رہا ہے۔مسلمانوں کو متشدد، گمراہ ،جاہل ،انتہا پسند اور جنو نی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مغر ب اور یورپ کا کو ئی ایسا اخبار اور رسالہ نہ ہو گا، جس میںآئے دن اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی نہ کی گئی ہو۔برطانیہ کے قومی اخبارات ہر ماہ اوسطاً پانچ سو سے زیادہ تحریریں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق شائع کرتے ہیں۔ان میں سے ۹۱ فی صد مضامین میں منفی تصویر پیش کی گئی، جب کہ صرف ۴فی صد نے کسی حد تک مثبت خیالات کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ ۶۰ فی صد میں اسلام کو مسیحی اور مغر بی دنیا کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور زبان بھی اس کے لیے بازاری قسم کی استعمال کی جاتی ہے،مثلاً پیغمبراسلامؐ کے لیے وہ جان بوجھ کر ذومعنی اور ناشائستہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح جب مسلم دنیا میں کو ئی شخص یا عورت اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کی شبیہہ بگاڑنے کی کو شش کرتا یاکر تی ہے تو مغر بی اور یورپی میڈیا اس کو امت مسلمہ کے لیے ’رول ماڈل‘ کی حیثیت سے پیش کر تا ہے۔جس کی مثال سلمان رشدی، بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین،پاکستان کی ملالہ یوسف اور صومالیہ کی ایان حرثی علی کی ہے۔ اس رویے پر کیرن آرم اسٹرانگ نے لکھا ہے:
مغر بی اسکا لرز نے اسلام کو کھلے عام گستاخانہ اور ہتک انگیز مذہب قرار دیا اور پیغمبر اسلامؐ پر جھوٹ کہنے اور تلوار پر مبنی پْرتشدد مذہب کی بنیاد ڈالنے کا الزام دہرایا۔
مغر بی میڈ یا کی یہ سب زہر افشانیاں،جنھیں وہ آزادیِ راے ‘کہتے ہیں ،صرف اسلام، پیغمبرؐ اسلام اور مسلمانوں تک ہی محدود ہیں۔لیکن جب بھی کو ئی ان کی فکر و تہذیب، ثقافت، سیاست اور اخلاقیات پر کسی قسم کی تنقید کر تا ہے،تو اسے وہ آزادیِ اظہارِ راے کی آزادی پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
’اسلاموفوبیا‘ اور حجاب
مغر بی اور یو رپی ممالک میں مسلسل نہ صر ف اسلام اور پیغمبرؐ اسلام بلکہ مساجد اوراسلامی مراکز اس نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں، بلکہ روز مرہ کاموں ،سفر اور دفاتر میں مسلم خواتین کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔
۲۰۱۳ء کی اسی رپورٹ میں ایک ۲۱ سالہ حاملہ خاتون کی مثال پیش کی گئی، جب اس پر حملہ کیا گیا تو اس وقت وہ حجاب پہنے ہو ئی تھیں۔ د و مردوں نے اس کا اسکارف چھین لیا۔پھراس کے بال کٹوا ئے، اس کے بعد اس کے پیٹ پر لاتیں ماریں، جس کی وجہ سے اس کا حمل ضا ئع ہوگیا۔ اسی طر ح سے بہت سی خواتین نے اپنے ساتھ کی گئی زیادتی کی داستان الم سنائی۔ لندن میں حال ہی میں ایک شر م ناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک باحجا ب مسلم لڑ کی کو بھر ی ٹر ین میں نسلی تعصب کی بنیاد پر حملے کا نشانہ بنا یا گیا۔
’اسلاموفوبیا‘ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے درج ذیل اْمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اقدامات اْٹھانے کی ضرورت ہے:
فر یضۂ دعوت کی ادایگی
تمام انبیاے کرامؑ کو دعوت الی اللہ کا حکم دیا گیا۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ حکم ملا:
اے نبیؐ! ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بناکر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بناکر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔ (احزاب۴۵-۴۶)
اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے ہر فرد کو اس ذمہ داری کا مکلف ٹھیرایا گیا :
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(آل عمران:۱۱۰)
اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ امت مسلمہ امر بالمعروف نہی عن المنکر کی بنیاد پر ہی خیر امت ہے۔اور ہر مسلمان دعوت الی اللہ کے فریضے کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار بنایا گیاہے۔یہ صرف چند مخصوص، تنظیموں ،اداروں اور علما کا کام نہیںبلکہ امت مسلمہ سے وابستہ ہر فرد کا کام ہے:
تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’میراراستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خودبھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوںاور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘‘۔ (یوسف :۱۰۸)
آج دعوت الی اللہ کی اہمیت اور افادیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیوںکہ مشرق و مغرب میں متلاشیانِ حق حقیقی راہ اختیار کر نے کے لیے ترستے رہتے ہیں، لیکن ان تک یہ پیغام حق پہچانے والا کوئی نہیں ہے۔مسلمانوں نے دعوت الی اللہ کے فریضے کے ساتھ بے حدغفلت برتی ہے، اب وہ وقت آگیاہے کہ تمام مسلمان اس کا رخیر کی انجام دہی میں تن من دھن سے لگ جائیں۔
ذرائع ابلاغ کا مفید استعمال
اسلام کی حقیقی تصویر کو بگا ڑنے میں میڈیا زبردست کردار ادا کرر ہا ہے۔اسلام دشمن میڈیا اور معترضین زہرآتالود مکا لمے اور بیانات دینے کا کو ئی مو قع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔مغربی اور یورپی لو گوں کو میڈیا نے اسلام کے تئیں جاہل اور گمراہ قراردیاہے۔ دوسری جانب وہاں کے لوگوںکی اسلام کے متعلق جو معلومات ہیں وہ یا تو اخبارات سے حاصل کر تے ہیں یا ٹی وی کے ذریعے سے ،جو اسلام کی انتہائی مسخ شدہ تصویر لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں امت مسلمہ کو میڈ یا کے تئیں حساس اور سنجیدہ ہونا چاہیے، اور مسلم حکومتوں کو میڈیا پر اچھی خاصی رقم خرچ کر کے میڈیا میں نہ صرف نمایندگی بلکہ کارِ دعوت کے لیے استعمال میں لانا وقت کی اہم ترین ضرور ت ہے۔
علمی اور فکری تیاری
ہم اہلِ مغرب سے یہ نہیں کہتے کہ آپ اسلام، حضرت محمدؐ، قرآن اور تہذیب ِ اسلامی پر علمی اور دیانت داری سے تنقید نہ کر یں، بلکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بازاری زبان استعمال کرکے بے بنیاد اعتراضات ،پروپیگنڈا اور جھوٹے الزامات نہ لگائیں۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں:
اسلام کو پیش کر نے میں انھوں نے بالعموم تعصب، جانب داری اور غیر سائنٹی فک اسلوب اختیار کیا ہے۔اسلام کے متعلق ان کی معلومات غلط، ناقص اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کو پورا حق ہے کہ وہ اسلام پر تنقید کریں لیکن پسندیدہ ، معتبر،سنجیدہ اور متوازن طر یقے سے۔
لیکن مسلمانوں کو بھی جواب دینے کے لیے روایتی طریقے سے ہٹ کر ایک نئے بیانیے کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ ان کے اعتراضات ،الزامات اور پیغمبرؐاسلام کی زند گی پر حملے کے جواب میں محض احتجاج اور مظاہر ے کر نا کو ئی حل نہیں ہے، اور نہ جذبات میں بہہ کر اور مشتعل ہو کر جارجیت کا جواب جارجیت سے دینے میں اسلام کا کچھ فائدہ۔ علمی اور فکری میدان میں کود کر احسن طریقے سے جواب دینے کی ضرورت ہے۔
اسلام کی روشن تعلیمات کو عام کرنا
عالم اسلام کے سا منے اسلامی تعلیمات کو عام کر نے کے سلسلے میں کانفرنسوں، کارگاہوں [ورکشاپس] دعوتی مہمات،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ،اداروں ، کتابوں، مضامین اور اس کے علاوہ ہرممکن طریقے سے مغربی اور یو رپی سازشوں اور کارستانیوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اسلام کی روشن تعلیمات کو اس طر ح پیش کیا جائے کہ ہر ایک ان تعلیمات سے متا ثر ہو۔
اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے ، خصوصاً خاندان کا تصور،بنی آدم،تصورِ عدل، تصورِ رحمت اور امن وغیرہ پراسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جائے۔ اس طرح سود،جوا،نسل پرستی، حرص مال وغیرہ کے خلاف تحریکات چلائی جائیں تاکہ ’اسلامو فوبیا‘ کے اصل محرکات پر ضرب لگے اور اسلام اور اْمت مسلمہ کے لیے راہ ہموار ہو جائے‘‘۔اس سلسلے میں باہمی اور مسلکی اختلافات اور فروعی مسائل کو بالاے طاق رکھ کر امت کے مفاد عامہ کے لیے پالیسیاں اور اہداف طے کیے جائیں۔
اسلام کا دوسرا نام ہی امن وامان ہے اور یہ عدل و انصاف قائم کر نے کے ساتھ ساتھ قیام امن کی بے حد تاکید کرتا ہے۔اسلام کا بنیادی نظر یہ قیام امن و عدل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ظلم، تشدد، فسطائیت ، فساد، جنگ،قتل و غارت گری وغیرہ بڑے پیمانے پر ہو رہی ہیں۔اس سلسلے میں اسلام اور اس کی بنیادی تعلیمات کو عام کر نے کا بھی ایک سنہرا موقع ہے۔ کیوں کہ دنیا اس وقت امن اور اس کی برکتوں کے لیے ترس رہی ہے۔مغر بی دنیاآج بھی اسلام اور پیغمبرؐ اسلام اور ان کی تعلیمات سے نہ صرف غلط فہمیوں کی شکار ہے، بلکہ لا علم بھی ہے۔ایک سر وے کے مطابق مغرب میں ۶۰ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کے متعلق واقفیت نہیں رکھتے ہیں، جب کہ ۱۷ فی صد لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کو سرے سے جانتے ہی نہیں۔
’اسلاموفوبیا‘ کی صورت میں اسلام کو درپیش چیلنج کا اْمت مسلمہ کو نہ صرف ادراک کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اسلام کو دنیا ئے انسانیت تک پہنچانے کی بھر پو ر جدو جہد کر نے کی بھی اشد ضرورت ہے، تاکہ دنیا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ ہو جائے، اور اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کی یہ چال خود مغرب میں اسلام کے تعارف کا ذریعہ بن جائے۔lll
[ترجمان القرآن لاہورسے ماخوذ تلخیص: ادارہ]