اسلام ایک کامل اور جامع دین ہے اچھے عادات واطوار انسانی خوبیاں ہیں۔ اسلام تمام اچھائیوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اور برائیوں سے گریز سکھاتا ہے۔ رسول اللہؐ کامل انسان تھے۔ آپؐ کے کردار میں تمام خوبیاں موجود تھیں۔ امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ: مجھے اس لیے بھیجا گیا کہ اخلاق کی تمام خوبیوں کو پورا کرسکوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف انبیاء اس لیے بھیجے کہ وہ ان کے عقائد اور اعمال کی اصلاح کریں انھیں اچھے کاموں کی ترغیب دیں۔ اور برائیوں سے روکیں۔ اس کا نام تزکیہ ہے۔ رسول اللہؐ کے فرائض منصبی میں لوگوں کا تزکیہ کرنا بھی تھا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو حسن اخلاق کے ساتھ مزین کیا۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتا ہے۔ اس کے کردار عمل سے وحشیانہ پن خود غرضی اور لالچ جیسی بری عادت کو ختم کرنا ہے۔ اسلام کسی طور پر ظلم وجبر کی اجازت نہیں دیتا۔ سزا اور قصاص کے معاملے بھی انصاف کو مد نظر رکھا جانا، دشمن کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم اسلام کا طرہ امتیاز ہے۔ حکم ہے کہ اگر کسی ضدی اور ہٹ دھرم کے ساتھ واسطہ پڑجائے تو برے کلمات کے جواب میں غیر مہذب اور ناشائستہ الفاظ زبان سے نہ نکالے جائیں بلکہ جوابی انداز میں ہی بات کی جائے۔ وہاں یہ انداز، مخاطب کی ہدایت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اسلامی اخلاق اپنائے جائیں تو ایسا مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہان ظلم وزیادتی کی جگہ امن وسکون اور خوش حالی کا دور دورہ ہو۔ ایسے معاشرے میں شیطان کے بہکاوے میں آکر یا نفسیاتی شرارت کے باعث کسی فرد سے جرم کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے ایسی عبر تناک سزادی جاتی ہے کہ معاشرے کے دوسرے افراد کسی جرم کی جراء ت نہیں کرسکتے۔ اخلاقی تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔’’مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔
رسول اللہؐ کا فرمان ہے: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں لوگوں کو کوئی خوف وخطرہ نہ ہو۔(ترمذی۔نسائی)
ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائیوں کا خیرخواہ ہوتا ہے اس حدیث میں مسلمان اس کو کہا گیا ہے جس سے دوسرے مسلمان امن میں ہوں، لیکن مسلمانوں کو تو جانوروں کے ساتھ بھی ظلم و زیادتی کرنے سے منع کیا گیا ہے کسی جاندار، کتیا اور بلی کو بھی ستانے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بہت بڑا گناہ تصور کیا گیا ہے۔
ایک عورت اسی گناہ کی بدولت جہنم رسید ہوئی کہ اس نے ایک بلی کو بھوکا پیاسا رکھ کر مار دیا اس کے برعکس ایک گناہ گار اس نیکی کے طفیل بخشا گیا کہ اس نے ایک جاں بلب پیاسے کتے کو پانی پلا کر اس کی جان بچائی۔
حضرت ابوداؤدؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسولؐ کو فرماتے سنا: ’’(قیامت کے دن) ترازو میں جو چیزیں رکھی جائیں گی اس میں حسن واخلاق سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہ ہوگی اور اچھے اخلاق والا اپنے حسن اخلاق کے باعث روزہ دار اور نمازی کے درجے کو پالیتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
نماز روزے کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔ اللہ جس سے چاہے گا اپنے حقوق کا حساب لے گا اور جس سے چاہے گا درگزر فرمائے گا۔ اخلاق کا تمام تر تعلق حقوق العباد سے ہے۔ جس نے اللہ کے بندوں اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ پیار و محبت کا رویہ اختیار کیا اور دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتا رہا، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر اپنا نقصان برداشت کرلیا، ایثار کا جذبہ اپنا یا تو ایسے اخلاق والے انسان سے اللہ تعالیٰ خوش ہوجاتا ہے اور جس سے اللہ خوش ہوگیا اسے جنت میں داخل کردے گا۔
حضرت معا ذبن جبلؒ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمؐ سے افضل ایمان کے متعلق پوچھا، یعنی ایمان کا اعلیٰ اور افضل درجہ کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: بس اللہ ہی کے لیے کسی سے تمہاری محبت ہو اللہ ہی کے واسطے بغض وعداوت ہو اور دوسرے یہ کہ اپنی زبان کو تم اللہ کی یاد میں لگائے رکھو۔‘‘ حضرت معاذؒ نے عرض کیا: یارسول اللہؐ اور کیا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ اور یہ کہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی وہی چاہو اور وہی پسند کروجو اپنے لیے پسند کرتے ہو اور ان چیزوں کوناپسند کرو جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہو۔‘‘(مسند احمد)
اللہ تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ جو خدا پرست، نیک اور متقی ہو، اس کے ساتھ تمہاری الفت ہو وہ تمہیں اچھا لگے اور جو اللہ کا نافرمان برائیوں کا ارتکاب کرنے والا اور موذی ہو اس سے تمہیں نفرت ہو۔ اس نفرت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی ہے۔ دوسری بات جو آپؐ نے ایمان کے اعلیٰ درجے میں بیان فرمائی وہ یہ کہ زبان کو اللہ کے ذکر کے ساتھ تر رکھو۔ قرآن میں ہے۔ ترجمہ: اللہ کا ذکر سب سے اعلیٰ وظیفہ ہے۔ تیسری بات جو آپؐ نے ارشاد فرمائی کہ جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرو یہ بڑی جامع اخلاقی تعلیم ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا جو اپنا نقصان چاہتا ہوں پس اخلاق کی بلندی یہ ہے کہ دوسروں کے لیے خیرخواہی کے بھرپور جذبات ہوں۔
اسلامی تعلیمات میں اگر صرف پڑوسی کے حقوق کا باب پڑھ لیا جائے تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مسلمان پر اپنے ساتھیوں کے سلسلے میں کئی ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں۔