معاشرے میں انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لیے انسانوں کے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام اللہ تعالیٰ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت انسان معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے۔ اپنا گھر بناتا ہے اور پھر اس کا منتظم بن کر اس کے نظام کو احسن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظام کو خاندان کہا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کے قریبی اور خونی رشتے دار شامل ہیں اور اس میں دیگر افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر خاندان کی اکائی میں شوہر، بیوی، اولاد، والدین اور دیگر رشتہ دار ہیں اور رشتوں کے قیام کی بنیاد نکاح یا شادی ہے۔
اس خاندانی نظام پر اسلام بہت زور دیتا ہے اور اہلِ خاندان اور رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی کو عبادت قرار دیتا ہے ٹھیک اسی طرح عبادت جیسے ہم روزہ، نماز اور حج و زکوٰۃ کو تصور کرتے ہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے ان پر بھی فوقیت رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن ہمارے سامنے نیکی کا ایک بڑااو رہمہ گیرتصور پیش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرلیں بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی )کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے، یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جنگ کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔‘‘ (البقرۃ: 177)
اسلام ایک ایسے خاندان کا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض، خلوص ومحبت، ایثار اور قربانی کے اعلیٰ ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈور سے بندھا ہوا ہے۔ اسلام خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس حسنِ اخلاق اور تقویٰ بناتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان پیدا کیا اور اس جان سے تمہارا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔‘‘ (النساء)
سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہے: ’’اور تم کو مختلف قوموں اور مختلف خاندان بنایا تاکہ یہ ایک دوسرے کی پہچان ہو، اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
اسلام کے نزدیک معاشرے کا بنیادی ادارہ خاندان ہے جس کی بہتری، بھلائی ، بہبودی اور استحکام پر اسلام نے خصوصی توجہ دی ہے اور ایک مضبوط، صالح اور فلاحی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی خاطر ان انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض کو بھی واضح انداز میں بیان کیا ہے جو خاندان اور خاندانی نظام کو پاکیزہ اور مستحکم بناسکتے ہیں۔
انفرادی اور اجتماعی حقوق کی وضاحت کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بات والدین پر واضح کی ہے کہ اولاد کا یہ حق ہے کہ ا س کا اچھا نام رکھا جائے اور اس کی بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کی جائے۔ یہ ایک کا حق ہے تو دوسرے کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح والدین کے اولاد پر حقوق کو خوب بیان کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو والدین کا حق ہے وہ دراصل اولاد کا فرض اور ذمہ داری ہے۔
اسی طرح بعض اوقات ایسے حالات پیش آتے ہیں جہاں کسی ایک کا حق اہلِ خاندان کی اجتماعی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اس کی مثال کے طور پر ہم کسی بزرگ کو لے سکتے ہیں جو کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ اس بزرگ کی کفالت و خدمت خاندان کے تمام افراد کی ذمہ داری بن جاتی ہے اسی طرح خاندان کا کوئی یتیم بچہ یا بیوہ و مسکین عورت بھی پورے خاندان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
حقوق اور فرائض کا یہ تصور جہاں تقویٰ کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے وہیں احسان اور ایثار کی بنیاد پر عمل میں جاری ہوتا ہے اور احسان یہ ہے کہ انسان اپنے قریبی رشتے دار اور ملنے جلنے والے کے ساتھ بغیر کسی بدلے کی امید رکھے اچھا معاملہ کرے جبکہ ایثار یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات پر اور اپنی ضروریات پر دوسروں اور ان کی ضروریات کو ترجیح دے۔ احسان تقویٰ کا اعلیٰ ترین مظہر ہے اور ایثار اللہ کے محبوب بندوں کی انتہائی قابلِ قدر صفت ہے۔
معاملہ میاں بیوی کا ہو یا بھائی بھائی کا، والدین کا ہو یا بھائی بہن یا اولاد کا ان تمام معاملات میں احسان اور ایثار کو نقشِ راہ بناکر دیکھیں تو ہمیں ایک ایسا خاندانی اسٹرکچر نظر آئے گا جو دیوار کی اینٹوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہوگا۔ جہاں احسان اور ایثار کا سمنٹ نہ لگا ہو وہاں خاندان تو ہوگا لیکن اس قدر مضبوط اور ایک دوسرے سے وابستہ اور پیوستہ نہ ہوگا جو احسان اور ایثار کی صورت میں ہوتا ہے۔
احسان اور ایثار کا ایک پہلو اور ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا دین افراد خاندان کے حقوق و فرائض دونوں کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے مگر ساتھ ہی جو ہدایت دیتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق لینے میں شدت اختیار کرنے کے بجائے دوسروں کو ان کا حق دینے کی فکر کرے۔ اپنے حق سے دست بردار ہونا اور دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینا احسان ہے۔ اپنی ضرورت کو روک کر دوسرے کی ضرورت پوری کرنا اور خود تکلیف اٹھا کر دوسرے کو آرام فراہم کرنا ایثار ہے۔ اور یہی دونوں مضبوط خاندان کی مضبوط بنیادیں ہیں۔
اسلام کے نظامِ خاندان میں جن اخلاقی قدروں کو رائج اور جاری کیا جاتا ہے وہ احسان اور ایثار ہیں لیکن اس کا اثر یہ نہیں ہوتا کہ وہاں فرد اور اس کی ذات کی نفی کی گئی ہے اور اس کے حقوق کا تصور کمزور پڑ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جوخاندانی نظام کی اخلاقی قدریں ہیں وہ ہیں ہی اس نظریہ پر مبنی کہ یہاں فرد اور ذات کو اہمیت دی گئی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان اخلاقی قدروں میں حقوق کے لیے جنگ اور کشمکش نہیں ہوتی بلکہ یہاں کا ہر فرد اپنا حق لینے سے زیادہ دوسرے کا حق ادا کرنے کا خواہش مند ہی نہیں مشتاق ہوتا ہے۔ اور یہ ٹرینڈ جو سوسائٹی تشکیل دیتا ہے وہ نہایت اعلیٰ سطح کی ہوتی ہے اور اس میں کشمکش اور باہمی منافرت کے بجائے باہمی اخوت اور ایثار پایا جاتا ہے۔
اس نظام کی ایک اور اہم اور اعلیٰ قدر احساس ذمہ داری ہے۔ یہاں ہر فرد کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھ گچھ اور جواب دہی کا تصور پایا جاتا ہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے:’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیںکہ اللہ کے رسولؐ نے ارشادفرمایا کہ تم میں سے ہر شخص نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ز یرِ نگرانی افراد کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ حکمران نگراں ہے اور اس سے عوام کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا نگراں ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت نگراں ہے گھر کی اور اولاد کی، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
اسلام کی نظر میں خاندان کی تشکیل و تعمیر نہایت بلند مقاصد رکھتی ہے۔ انہی بلند مقاصد کے سبب نکاح کو جو تشکیل خاندان کی پہلی سیڑھی ہے ’’نصف دین‘‘ کہا گیا ہے۔ ان مقاصد میں بنیادی طور پر نسل انسانی کی بقا اور اس کا پھیلاؤ ہے۔ اور اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ دنیا میں ایسی نسل اور ایسے افراد اٹھائے جائیں جو اللہ کی بندگی کرنے والے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والے ہوں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن جگہ جگہ ہمیں ایسی ہدایات دیتا ہے جو خاندان کے افراد کی دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح پر ابھارتی ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:’’اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتے رہو اور خود بھی اس پر جمے رہو۔‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:’’خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
اسلام کے نظام خاندان کی بنیادی اخلاقیات میں یہ بات نہایت نمایاں طور پر ابھر کر آتی ہے کہ یہاں افراد خاندان کی اخروی زندگی کو سنوارنے اور جہنم کی آگ سے بچانے کا فریضہ سب سے نمایاں طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ خاندان کے ہر باشعور فرد کی ذمہ داری بنادی گئی ہے اور جو جتنا زیادہ باشعور ہے وہ اس سلسلے میں اتنا ہی زیادہ ذمہ دار اور حساس ہو یہ بھی مطلوب ہے۔