اسلامی نظام معیشت میں سود کی حرمت

سیدہ صائمہ عابدی صالحاتی

معاشی مسئلہ اور روزی روٹی کمانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے انسان ہمیشہ سرگرم عمل رہا ہے، چناںچہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں بھی اپنے بندوں کی مکمل رہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ کسبِ معاش کے لیے وہ کون سے ذرائع استعمال کرے اور کن راستوں سے دور رہے۔ اس کے لیے اس نے انسانوں کو ایک ایسا معاشی نظام عطا کیا ہے جو سراسر خیرو برکت پر مبنی ہے۔ جس میں فقر و فاقہ کا کوئی خوف نہیں ہے۔ جس میں طمانیت اور سکون ہے اور فلاح ہی فلاح ہے۔ اس نظام معیشت کی پہلی تعلیم یہ ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤ گے۔‘‘ (آل عمران: ۱۳۰)

اس معاشی نظام کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت پر قائم کی ہے۔ فرمایا: ’’اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا۔‘‘ (الروم: ۳۹)

وہ کہتے ہیں تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام، لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے حوالے اور جو اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کا اعادہ کرے وہ جہنمی ہے۔ جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۵)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سود کی حقیقت بتائی ہے کہ سود خیروبرکت کو مٹانے کا ذریعہ بنتا ہے اور معاشرے کی معیشت پر اس کے خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ اخلاقی و معاشی، سماجی و معاشرتی ترقی کے بجائے انحطاط کاذریعہ بنتا ہے۔ اس کے ذریعہ انسانوں میں بخل و تنگ دلی، خود غرضی و بے حسی، مادّہ پرستی و سنگ دلی جیسی بری صفات نشونما پاتی ہیں اور یہ چیزیں رشتوں اور انسانی تعلقات کو کاٹنے والی اور دلوں میں نفرت پیدا کرنے والی ہیں۔

اسلام کے معاشی نظام کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ انفاق، صدقات اور زکوٰۃ کی تعلیم دیتا ہے۔ اور انسانوں کے درمیان اس نظریہ کو فروغ دیتا ہے کہ دولت صرف چند ہاتھوں ہی میں گردش نہ کرتی رہے بلکہ تمام انسانوں کے درمیان وہ گھومتی رہے۔ اسلامی نظامِ معیشت میں دولت اہلِ دولت کی طرف سے سماج کے غریب، محتاج اور مساکین و حاجت مندوں کی طرف آتی ہے۔ جبکہ سودی نظامِ معیشت میں دولت غریبوں سے کھنچ کر مالداروں، مہاجنوں اور سود خوروں کی تجوریوں میں بھر جاتی ہے۔ ایک نظام سماج کے ہر طبقہ کی ضرورتوں کا خیال کرتا ہے اور انہیں معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ دوسرا غریبوں اور حاجت مندوں کا خون چوستا اور ان کااستحصال کرتا ہے۔

سود کے برعکس صدقات سے خیر بھی پروان چڑھتا ہے اور اس سے معاشرے کی معیشت پر خوشگوار اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان میں فیاضی و عالی ظرفی، ہمدردی و محبت،اخوت و بھائی چارگی، خدا ترسی و آخرت پرستی جیسے پاکیزہ جذبات پروان چڑھتے ہیں۔

صدقات کو اللہ تعالیٰ کس طرح پروان چڑھاتا ہے، معاشرے کی معیشت پر اس کے خوشگوار اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں، اس کی ایک حقیقی مثال ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارے علاقے میں ایک صاحب تھے جو تجارت کرتے تھے اور ماہر تاجر تھے۔ جب ان کی دکان پر کوئی غربت زدہ شخص کچھ لینے آتا یا کوئی غریب شخص انھیں ملتا تو وہ اسے کچھ پیسہ دے کر کچھ چیزیں منگواتے پھر اس سے کہتے کہ اس کو بیچو جب تمہارے پاس پیسہ ہوجائے تو لوٹا دینا بعد میں جب وہ پیسے دیتا تو اسے واپس کردیتے، اس طرح انھوں نے ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کو تاجر بنایا، یہی نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ دیگر علاقوں میں رہائش کے دوران بھی انھوں نے ایسے کام کیے۔ ذرا غور کریں ان کی کوششوں اور صدقات سے انسانوں کو کس حد تک استحکام اور معاشی تحفظ حاصل ہوا۔

’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو پروان چڑھاتا ہے۔‘‘ والی آیت کو اگر اس تناظر میں دیکھا اور سمجھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس معاشی نظام میں زکوٰۃ و صدقات جاری ہوں وہاں دولت کس طرح بڑھتی اور معیشت کس طرح ترقی کرتی ہے۔ اس کی مثال کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ایک صاحبِ خیر تاجر نے اپنے چند سو روپیوں کے ذریعہ کس طرح لوگوں کو تاجر بنادیا۔ اور دولت کس طرح بڑھ گئی اور سماج میں پھیل گئی۔ جبکہ ایک سود خور جب غریبوں سے سود لے کر اپنی تجوری میں جمع کرتا ہے تو گویا وہ دولت کی فطری گردش پر بھی روک لگاتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو ذیل کی آیت میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اس کو دینے والے درحقیقت اپنا مال بڑھا رہے ہیں۔‘‘ (الروم: ۳۹)

یعنی تمھیں جو مال بڑھتا نظر آرہا ہے وہ حقیقتاً نہ تو اللہ کے نزدیک ہی بڑھتا ہے اور نہ ہی سماجی اور معاشی پیمانوں کے مطابق ترقی پاتا ہے۔ سودی مال خود لینے والے کے حق میں بھی نقصان دہ ہے کہ وہ اگر اسے منافع میں استعمال کرے تو اس متعین فیصد سے کہیں زیادہ حاصل کرسکتا ہے۔ اور آج کل بینک عوام سے تو سود پر پیسہ لیتے ہیں مگر خود اسے منافع میں شرکت ہی کے لیے استعمال کرتے اور کئی گنا زیادہ منافع کماتے ہیں۔

سود کی حرمت کی ایک بنیادی وجہ اس کے سماج و معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات بھی ہیں اور ساتھ ہی سودلینے والے کے ذہن و فکر اور سوچ پر پڑنے والے خراب اثرات بھی۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ان کا حال اس شخص کے جیسا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کردیا ہو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۵) گویا سود خور شخص روپئے اور پیسے جمع کرنے کے پیچھے اس قدر دیوانہ ہوجاتا ہے کہ اپنی خود غرضی کے جنون میں کچھ پرواہ نہیں کرتا کہ اس سود خوری کے نتیجے میں کس کس طرح انسانی محبت، ہمدردی ورحمدلی، اخوت و بھائی چارگی کے جذبات کچلے جارہے ہیں۔ اس کی تباہ کاریاں معاشرے پر کس قدر اثر انداز ہورہی ہیں اور وہ کتنے لوگوں کی مفلسی و بدحالی سے اپنی عیش کوشی کا سامان کررہا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے، کھلانے اور اس کے معاملات سے تعلق رکھنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری و مسلم)

سود کی حرمت تمام شریعتوں میں مسلّم رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا یہ بکثرت اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، اور سود لیتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں۔ اس بناء پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان پر حلال تھیں۔

زبور میں ہے: ’’وہ جو اپنا روپیہ پیسہ سود پر نہیں دیتا اور بے گناہ کے خلاف رشوت نہیں لیتا ایسے کام کرنے والا کبھی جنبش نہ کھائے گا۔ (زبور، ۱۵-۵، بحوالہ دعوت القرآن)

تو اپنے بھائی کو سود پر قرض نہ دینا خواہ روپئے کا سود ہو یا اناج کا یا کسی ایسی چیز کا جو بیاج پر دی جاتی ہو۔ (استثناء ۲۳:۱۹ بحوالہ دعوت القرآن) حزقی ایل اور تورات میں بھی اسی جیسا حکم ملتا ہے۔

ان احکام سے سود کی حرمت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آخری سخت وارننگ دی: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم واقعی ایمان لائے ہو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے لیے اعلانِ جنگ ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۷۸)

اسلامی معاشی نظام کا ایک حصہ سود سے پرہیز پر مشتمل ہے۔ اور دوسرا حصہ صدقات کی ادائیگی پر۔ صدقات کے نتیجہ میں جو خوبیاں آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہیں وہ عظیم اور قابلِ تعریف ہونے کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے کی اصلاح اور ترقی کی ضامن بھی ہیں۔ یہاں استحصال کی جگہ تعاون اور مدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور غریب حاجت مند کے استحصال کے بجائے اسے معاشی اعتبار سے خود کفیل بنانے کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تمہارا قرض دار اگر تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو اور اگر صدقہ کردو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھو۔‘‘ (البقرۃ: ۲۷۹)

اگر کوئی شخص ایسا ہے جو لوگوں کو صدقہ دیتا ہے، قرض دیتا ہے ، اور قرض داروں کو مہلت بھی دیتا ہے، غریب ہے تو قرض معاف بھی کردیتا ہے تو کیا جب وہ مرجائے گا تو لوگ اس کے یتیم بچوں کو لاوراث چھوڑ دیں گے؟ کیا وہ اس کے بچوں کی نگہبانی و نگرانی اپنے ذمہ نے لیں گے؟ کیا وہ ان کی مدد کو آگے نہ بڑھیں گے؟ یقینا ہر احسان شناس شخص ایسا ہی کرے گا اور اسی طرح معاشرے میں اخوت و محبت، ہمدردی و رحمدلی، خدا خوفی اور آخرت پرستی پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ جذبات انسان کو آپس میں متحد رکھنے کے لیے ضروری بھی ہیں۔ اور جو معاشرہ متحد ہو وہ کبھی ذلت و رسوائی سے دوچار نہیں ہوسکتا۔ مومن کی یہی پہچان ہے کہ وہ بنیان مرصوص کے مانند ہوتے ہیں۔ غور کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقات کو کیسے بڑھاتا ہے اور اس کے فوائد کس قدر دور رس ثابت ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو ایک بار قرض دے گا تو اس کو اتنا ثواب ملے گا گویا اس نے اتنی رقم دو مرتبہ راہِ خدا میں دی۔‘‘ (ابن ماجہ)

موجودہ دور کی عالمی کساد بازاری جس سے پوری دنیا پریشان ہے، ماہرینِ معاشیات کی نظر میں اسی سودی نظام کے سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے معاشی ماہرین اب بلا سودی معاشی نظام کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ کل تک جو اسلام کے غیر سودی نظام معیشت کو ناممکن العمل گردانتے تھے اب اسے ضروری اور مفید قرار دے رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بلا سودی معاشی نظام ہی فطری اور انسانیت کی فلاح کا ضامن ہوسکتا ہے اور ہمارے لیے فخر کی بات یہ ہے کہ اسلام اسی نظامِ معیشت کی وکالت کرتا ہے جس کی لوگ ضرورت محسوس کررہے ہیں۔

لہٰذا اہلِ اسلام کی یہ فوری ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو اس نظام کے خدوخال بتاتے ہوئے اسے ممکن العمل بناکر پیش کریں تاکہ دنیا کے تمام انسانوں کو سودی جبر کے نظام سے نجات مل سکے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں