اسلام اور خواتین

کہکشاں ترنم غزالیؔ سیتاپور

جب ہم خواتین کے حقیقی مسائل پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو ایک طرف مغربی مکتبۂ فکر اور اس سے متاثر طبقہ ہے، دوسری طرف خود مسلمانوں میں مذہب سے متعلق سرسری معلومات اور وقت کی تہذیبی و ثقافتی یلغار سے لرزہ براندام ہوجانے والی جماعت ہے، اور تیسرا گروہ ان مسلمانوں کا ہے جن کا مکمل دینداری کا دعویٰ ہے۔

کم و بیش ہر طبقہ، جماعت اور گروہ خواتین کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہے۔ مغرب اور اس سے متاثر طبقہ کا پیمانہ بدلتا رہتا ہے، اور اسلام سے متعلق سطحی معلومات رکھنے والی جماعت بھی مذکورہ طبقہ کی مانند ایک رخ پر قائم نہیں رہ پاتی، اور جن کو مکمل دینداری کا دعویٰ ہے، وہ بھی عورتوں کے معاملہ میں عملی اعتبار سے زبانی جمع خرچ کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام نے خواتین کو جو مقام و مرتبہ، عزت و وقار ، تعلیمی و تحریکی آزادی اور معاشرتی رول عطا کیا ہے، وہ اگر انھیں حاصل ہوجائیں تو سارے مسائل دور ہوجائیں گے۔ تعلیم سے متعلق اسلام کا حکم مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں ہے۔علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے۔ اس کے لیے تحدید نہیں ہے کہ وہ کہاں تک تعلیم حاصل کرے، اور نہ کسی خاص شعبہ کی قید ہے۔ بلکہ پوری آزادی ہے۔ رہی بات اس کے مواقع اور محفوظ وپرامن ماحول کی تو یہ پورے معاشرے اور قوم کی ذمہ داری ہے کہ یہ چیزیں فراہم کرے۔ دعوت دین کے لیے مردوں کے ساتھ عورتوں کو قرآن نے سرگرم رول ادا کرنے کے دعوت دی ہے:

اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ وَ الْمُوْمِنَاتُ اَوْلِیَائُ بَعْضُہُمْ بَعْضاً یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔

’’بے شک مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتے ہیں، اور برائیوں سے روکتے ہیں۔‘‘

ان امور کے ساتھ عورتوں سے متعلق وراثت کا مسئلہ ہندوستانی تناظر میں عملاً کالعدم ہے، اس شرعی حق کے بارے میں عموماً والدین یا دیگر ذمہ دار افراد کی طرف سے جہیز کی صورت میں ادا کرنے کی بات کہہ کر غلط بیانی کی جاتی ہے۔ اگر خواتین کو اس کا خاطر خواہ فائدہ ملنے لگے تو وہ بہت حد تک خود مختار ہوں گی۔

اس لیے میں اسلام کے ماننے والوں سے عرض کرنا چاہوں گی کہ اگر آپ انھیں صدق دلی سے ان کے حقوق دے دیں تو ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں یہ معاشرے کی تشکیل اور نسل نو کی بہتر پرورش و پرداخت میں دل کھول کر حصہ لے گی۔

جہاں تک مغرب زدہ طبقہ کی بات ہے تو خواتین کے حوالے سے ان کا مساوات کا نعرہ وہ میٹھا زہر ہے جو سوسائٹی کو قسطوں میں تباہ و برباد کررہا ہے۔ الفاظ کتنے ہی حسین استعمال کریں مگر عملاً وہ پست ذہنیت ہی کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ جگ ظاہر ہے کہ مغرب کی خواتین وہاں کے ماحول میں گھٹن محسوس کررہی ہیں۔ سروے رپورٹ ان کے نظریات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ لیکن یہ ماحول اور معاشرے کو ہی خطاوار گردان کر اڑیل رویہ اپنا رہے ہیں۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی

اس لیے مسلم خواتین کی یہ خصوصی ذمہ داری ہے کہ جب وہ اپنے حقوق کی بازیابی اور ظلم و زیادتی اور بے جا امتیازات برتنے کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کے ہاتھ سے اسلام کا دامن ہرگز نہ چھوٹنے پائے، ورنہ مغربی تہذیب و ثقافت کی گہری اور تباہ کن کھائی انہیں نگل جائے گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں