رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’اسلام کے ماننے والوں کو چاہیے کہ اپنے چھوٹوں سے بے پناہ شفقت کا اظہار کریں اور اپنے بزرگوں کا احترام کریں۔‘‘
ایک بار ایک دیہاتی عرب حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ اعتراف کیا کہ اس کے دس بچے ہیں لیکن اس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی کبھی پیار نہیں کیا تو آپؐ نے سخت سرزنش کی۔ مسلمان تعلیمات اسلامی کی وجہ سے نہ صرف اپنے خاندان کے افراد سے محبت و ہمدردی کرنے پر مجبور ہیں بلکہ ان کے لیے اپنے ہمسایوں اور دینی بھائیوں سے بھی ہمدردی اور حسن سلوک کا رویہ رکھنا ضروری ہے۔ یہی شدید جماعتی احساس جو اسلام پیدا کرتا ہے، ذہنی اور روحانی صحت کی بقا کا موجب ہوتا ہے۔ اسلام کے نزدیک زندگی کوئی تفریحی سفر نہیں بلکہ ایک کڑی آزمائش ہے۔ جس کے نتائج اس زندگی کے بعد ہمارے سامنے آنے والے ہیں۔ اس زندگی میں پیش آنے والے مصائب و آلام کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتے۔ بلکہ وہ لوگوں کے ایمان کی سچائی اور مضبوطی کا امتحان ہوتے ہیں۔ قرآن مجیدمیں ارشاد باری ہے کہ : ’’ہم یقینا تمہیں خوف و بھوک مالی نقصان اور کھیتی باڑی کے نقصان سے آزمائیں گے اور آپؐ صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ (۲:۱۵۵)
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ تم یوں ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے – حالانکہ تم ابھی ان حالات میں مبتلا نہیں ہوئے جن میں تمہارے پہلے کے لوگ مبتلا رہ چکے ہیں۔ مشکلات اورپریشانیوں نے انھیں اس قدر گھیرا کہ وہ ہلا ڈالے گئے۔ اور اللہ کا رسول اور ان پر ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ یقین رکھو اللہ کی مدد بہت قریب ہے۔‘‘ (۲:۱۶۴)
’’کیا یہ گمان کرتے ہیں کہ انھیں صرف اتنا کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور انھیں آزمائش میں نہ ڈالا جائے گا۔‘‘ (۲۹:۲)
قرآن مجید اور احادیث نبویؐ یہ بھی سبق دیتے ہیں کہ اس دنیا میں ایمان لانے والوں کو جو مصیبتیں اٹھانی پڑتی ہیں وہ ان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور اس طرح وہ اس دنیا کی زندگی کے بعد سزا سے بچ جاتے ہیں اور زیادہ جزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ خدا کے پیغمبر نے فرمایا: ’’اللہ جس کو نیکی دینا چاہتا ہے تو وہ اسے کسی تکلیف سے دوچار کردیتا ہے اور جب اللہ کسی کے حق میں برائی کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ اسے قیامت تک گناہ کرنے کی چھوٹ دے دیتا ہے۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخت اور بڑی آزمائش کے بعد انعام بھی بڑا ملتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر جن لوگوں کو پسند کرتا ہے انھیں ضرور آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
مصیبت اور تکلیف کو صبر و سکون سے برداشت کرنا ہر سچے مسلمان کی نشانی ہے۔
’’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (۲:۱۵۳)
’’اور ہم یقینا ان لوگوں کو اپنی بہترین نعمتوں سے نوازیں گے، جو صبر کرنے والے ہیں اور اپنے اعمال کا اچھا بدلہ پانے کی توقع رکھتے ہیں اور صبر و نماز کے ذریعہ اللہ کی مدد طلب کرتے ہیں۔ یہ بلاشبہ بہت مشکل چیز ہے مگر عاجزی کرنے والوں کے لیے نہیں۔‘‘ (۲:۴۵)
’’بلاشبہ انسان گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کی۔‘‘ (۳:۱۵۳)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ اس عورت نے کہا اس لیے کہ آپ پر ایسی مصیبت نہیں پڑی۔ اس عورت کو بتایا گیا کہ آپؐ اللہ کے رسولؐ ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ بلاشبہ مصیبت سب سے پہلے صبر پر حملہ آور ہوتی ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)
ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صبر نصف ایمان ہے۔‘‘ مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اپنے ساتھیوں کے حقوق پہچانیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور ثابت قدم رہیں حتی کہ اپنا مقصد پالیں۔ ان کا یہ ایمان ہو کہ ’’اللہ ہی ہمارا مدد گار ہے اور وہی بہترین نگران ہے۔‘‘ (۳: ۱۷۳)
ایک سچا مسلمان تو محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر نیک اعمال کرتا ہے۔ دنیوی شہرت حاصل کرنے کے لیے جو کام بھی کیے جائیں دینی نقطہ نظر سے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دوسرے اس کے کاموں کی تعریف نہیں کرتے تب بھی وہ قطعاً مایوس نہیں ہوتا۔ ’’اے محمدؐ آپ فرمادیجیے کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ہم تم سے کسی انعام یا شکریہ کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘ (قرآن)
وہ شخص جو اللہ پر کامل یقین رکھتا ہے۔ قرآن پاک اور سنت رسول اللہ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ وہ کبھی احساس ناکامی کاشکار نہیں ہوتا۔ خواہ اس کی زندگی میں تمام کوششیں ضائع ہوگئی ہوں۔ جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کے سپرد کردیتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے اس کا بدلہ اس کے خدا کے پاس ہے۔ (قرآن ۲:۱۲)
’’بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے۔ انھیں اس کے بدلے جنت ملے گی۔‘‘ (۱۸:۱۰۷)
’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔‘‘ (قرآن)
ایک صحیح حدیث میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس پر متنبہ کیا کہ وہ کسی شخص کی دنیاوی کامیابی اور خوشحالی پر رشک نہ کریں کیونکہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی موت کے بعد کیا ہوگا۔
حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہؐ کے پاس گیا۔ آپؐ اس وقت کھجور کے پتوں کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس پر کوئی بستر بچھا ہوا نہ تھا آپؐ کے پہلوئے مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ آپؐ پر ایمان لانے والوں پر رزق کی فراوانی کرے۔ ایرانیوں اور رومیوں کو دولت سے مالا مال کیا گیا ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’اے خطاب کے بیٹے! یہ وہ قومیں ہیں جن کے لیے دنیا کی مسرتیں اور آسائشیں لکھ دی گئی ہیں۔ کیا تم اس پر مطمئن نہیں کہ ان لوگوں کے لیے تو یہ دنیا ہو اور ہمارے لیے اس کے بعد کی دنیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ذہنی صحت کے لیے خوف و پریشانی دو زبردست دشمن ہیں انسان کے ذہنی توازن کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ فکر وپریشانی ہے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ پکے عقیدہ کے مسلمان قطعاً فکر مند نہیں ہوتے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اس کی ہمیں خبر نہیں، مستقبل کے متعلق تو خبر صرف اللہ کو ہے۔ اس لیے ہمارا یہ فیصلہ کرنا کہ کیا چیز ہمارے حق میں بہتر ہوگی، ممکن نہیں۔ ہوسکتا ہے تم جس سے نفرت کرتے ہو وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرتے وہ مضر ہو۔ اللہ بہتر جاننے والا ہے تم نہیں جانتے۔‘‘ (۲:۲۱۶)
فکر معاش انسانی مسائل میں سے ایک عالم گیر مسئلہ ہے یہاں ایک عجیب و غریب اور واضح مثال دیکھئے کہ جب کافر اس مشکل سے دوچار ہوتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے۔
سیبل ایک اٹھارہ سالہ بیوی ہے اور دو بچوں کی ماں اور تین سال میںاب تیسری مرتبہ حاملہ ہوگئی ہے۔ اس کا شوہر ٹیڈ جو ایک معمولی مزدور ہے وہ ہفتہ وار اپنی قلیل آمدنی کا چیک گھر لاتا ہے۔ افسردہ اور دل برداشتہ سیبل ٹیڈ سے کہتی ہے کہ وہ اپنے اس بچہ سے خلاصی پالے گی۔ خواہ اسے اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ مایوس مگر پُر عزم سیبل نے اپنے پڑوسی دوا ساز سے اس سلسلے میں مدد مانگی۔ اس نے کچھ گولیاں اس کو قیمتاً دے دیںجس سے وہ بیمار پڑگئی۔ پھر اس نے اپنی کسی سہیلی کے مشورہ پر حمل ضائع کرنے کے لیے ہنس کے پر کی چکنی نوک کو استعمال کیا مگر بے سود۔ اس نے اس طرح کی اور چیزیں بھی آزمائیں مگر سب کوششیں بیکار گئیں۔ سیبل نے اپنی اس دھمکی پر عمل نہ کیا جو اس نے بچے کو ضائع کرنے کی کوشش میں ناکامی کی صورت میں اپنی جان دے دینے کے لیے دی تھی۔ مدت حمل ہوئی اور اللہ کو جو جان دنیا میں لانی تھی وہ آکر رہی۔
جب کہ ایک مومن کا طرز فکر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی رزق دیں گے۔‘‘
مشکلات اور پریشانیاں زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ مگر ان کو برداشت کرنا اور خراب حالات کو اچھے حالات میں تبدیل کرنے کے لیے جہاں انسانی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے وہیں زبردست عزم، حوصلہ اور قوت ارادی بھی مدد گار ہوتی ہے۔ اور جہاں یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوں وہاں زندگی کا بوجھ اٹھانے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔
مائیکل ایک چالیس سالہ کامیاب تاجر تھا اور اس کی بیوی لارا اس کی دست بازو۔ دونوں مل کر اپنے بیٹے اور بیٹی کو خوشیوں کے پالنے میں جھلاتے تھے۔ اچانک حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور کاروبار جاتا رہا۔ قرض کے بوجھ اور مایوسی نے دونوں کو گھیر لیا اور زندگی سے تنگ آگئے۔ آخر کار دونوں نے زندگی تیاگ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ انہیں یہ بھی ڈر تھا کہ ان کے بعد ان کے دونوں بچوں کا کیا ہوگا اور وہ کیسے جی پائیں گے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے دونوں نے مل کر اپنے دونوں جگر گوشوں سے زندگی چھین لی اور پھر خود بھی ٹاور سے کود کر جان دے دی۔ یہ ان لوگوں کا طرز عمل ہے جو خدا کی کارسازی اور اس کے غلبہ و اقتدار کے منکر ہیں۔ ان کے لیے خراب حالات میں کوئی ایسی راہ نہیں رہ جاتی جس کو وہ اپنے لیے سہارا بنائیں اور نئی زندگی کی جدوجہد میں لگ جائیں۔ جبکہ اہل ایمان کے لیے ایک مطلق سہارا اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے : ’’آپ کہہ دیجیے کہ ہمیں کچھ نہیں ہوسکتا سوائے اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہی ہمارا کارساز اور ولی ہے۔ اور مومنوں کو تو اسی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘ (توبہ: ۵۱)
کچھ لوگ اپنے آپ کو ناگزیر مصائب سے بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور خود کو دھوکہ دیتے ہیں۔ جب وہ اپنے آپ کو مصائب و آلام سے عاجز پاتے ہیں تو اپنے آپ کو شراب میں غرق کرلیتے ہیں یا خود کشی کرلیتے ہیں۔ اس طرح ناگزیر مصیبت سے بچنے کی کوشش میں وہ اپنی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کو تباہ کرلیتے ہیں۔ جو لوگ اسلام پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے پاس تمام سامان مسرت موجود ہوتا ہے۔ عربی لغت میں اسلام کے معنی ہیں امن۔ خدا کے ساتھ امن۔ اپنی ذات اور تمام بنی نوع انسان کے ساتھ امن اور اس کے بعد آنے والی زندگی میں دائمی امن۔