دور حاضر جن بڑی مصیبتوں سے دوچار ہے ان میں سے ایک ذہنی اوراعصابی انتشار کی وبا ہے ۔ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں میں جیسے جیسے معاشی ترقیا ں اور سائنسی کارنامے ظہور پذیر ہورہے ہیں ۔ اتنی ہی تیزی سے دماغی مریض اور دماغی امراض کے ہسپتال بڑھ رہے ہیں اور پھر بھی مریضوں کی ضرورت سے کم ہیں ۔ کثرت سے خودکشی کرنے کے واقعات رونماہورہے ہیں۔
دنیا بھر میں سنجیدگی سے سوچنے والوں پر یہ بات روشن ہوگئی ہے کہ یہ صورتحال بڑی حد تک عالمگیر طور پر مادہ پرستانہ نظریہ حیات کواپنانے کانتیجہ ہے۔
جدید مروجہ فلسفے کی رو سے تخلیق کائنات اور تمام ذی روح مخلوقات کی پیدائش ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ ان کاکہناہے کہ نسل انسانی … سالہا سال میں ایک قدرتی ارتقائی عمل کے ذریعہ نچلے درجہ کے حیوانات سے ترقی کرکے اس درجہ کو پہنچا ہے۔ چونکہ قدرت کے قانون کی حیثیت ایک قسم کی کی ہے۔ اس لئے اسے قانون اخلاقیات سے کوئی دلچسپی ہے نہ انفرادی ذات سے تعلق، چونکہ زندگی کاانحصار مادہ پر ہے۔ لہٰذا روح کا کوئی وجود نہیں ہوسکتا اور نہ احساس و شعور، ذہن ودماغ کے بغیر قائم رہ سکتے ہیں ۔ اس لئے یہ زندگی ہی بس زندگی ہے اور موت کے بعد زندگی کا تصور بے معنی بات ہے۔
انسان جو کہ عدم سے عالم وجود میں آیا ہے اس کو آخرکار عالم نیست ہی کو لوٹ جانا ہے اور جس طرح وہ اپنی پیدائش سے پہلے ناپید تھا ، اسی طرح موت کے بعد ناپیدو معدوم ہوجائے گا۔ لہٰذا عالم آخرت کاکوئی تصورمحض خوش فہمی ہے بنی نوع انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ بغیر کسی مافوق الفطرت قوت کی مدد سے زندگی میں ایسے حالات پیداکرے جو اس کی مسرتوں اور مادی آسودگی کے لئے سازگار ہوں۔
ذہنی صحت کے سلسلہ میں سگیمنڈ فرائڈ (۱۸۵۹۔۱۹۳۹ء) زمانہ جدید کی سب سے نمایاں شخصیت ہے۔ ذہنی اورنفس کی بیماریوں کا نفسیاتی طریقہ علاج آج بھی اسی کے نظریات کامرہون منت ہے۔
یونانی فلسفہ (میتھولوجی) کی بنیاد پر فرائڈ کا کہنایہ تھا کہ انسانی طرز عمل لاشعور کے فطری خواہشات کے دبائو کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جو اپنی اصل کے اعتبار سے شہوانی جذبات کا نتیجہ ہوتاہے۔ اس کے خیال میں ذہنی بیماریاں جنسی خواہشات کی تکمیل میں مایوسی کی وجہ سے پیداہوتی ہیں۔ جن کو مذہبی معاشرہ قبول نہیں کرتا۔ اپنے آغاز کے ابتدائی دور میں بھی فرائڈ کی تھیوری یہ رہی ہے کہ انسان کا ضمیر ایسے جذبات سے پر ہے جو اپنے اور دوسروں کے لئے تباہ کن ہوتے ہیں۔ فرائڈ کی رائے میں نسل انسانی کی تمام کامیابیاں اور کامرانیاں دراصل جنسی تحریک کی صحت مند بلندی کانتیجہ ہیں۔
فرائڈ لکھتا ہے: ’’یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کہ کائنات میں کوئی ایسی قوت موجود ہے جو ہر فرد کی فلاح وبہبود کی نگہداشت والدین کی طرح کرتی ہے۔یہ بات کسی طرح درست نہیں کہ نیکی کی کوئی جزا اور بدی کی کوئی سزا ہوتی ہے۔ ایسا تو اکثر ہوتا ہے کہ ظالم عیار اور بے اصول لوگ دنیا کی اچھی چیزوں پر قبضہ کرلیتے ہیں اور نیک جو ہیں وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ خدائی انصاف کا تصور جو مذہبی عقیدے کے مطابق اس دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ دراصل اس کا کوئی وجود نہیں۔ سائنس کی برتری (فوقیت) کو کم کرنے کی کوئی کوشش اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتی کہ سائنس ہماری ان حقیقی اور دنیاوی ضرورتوں کو ملحوظ رکھتی ہے جبکہ مذہب ہمیں محض بچوں کی طرح بھلاوادیتا ہے ۔
یہ اقتباس اس بات کی وضاحت کرتاہے کہ دہریے اور مادہ پرست مذہب کی تکذیب محض اپنے منفیانہ نظریات سے کرسکتے ہیں۔ مگر ان کی جگہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی متبادل جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ سگمنڈ فرائڈ کے نظریات نے انسانی مصیبتوں کو کم کرنے یا ان کا خاتمہ کرنے میں کوئی تعمیری حصہ لیا ہے۔ ان نظریات کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادہ پرستانہ فلسفہ کے اس رجحان کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ جس کی مدد سے انسانوں کو حیوانوں کی پست سطح پر لاکھڑا کیا جاتاہے ۔ نتیجتاً ایک ایسے شخص کے لئے جو بدنصیبی اور مصیبت کاشکار ہو اور جس نے اس ذہنی رجحان کو تسلیم بھی کرلیا ہو۔ اس کے لیء اس کے سوا اور کونسا راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ یا تو پاگل ہوجائے یا خودکشی کرلے؟۔
اگر مذہب واقعی بچوں کا بہلاوا ہے تو مادہ پرست اس کی وضاحت کرنے سے بالکل قاصر ہیں کہ نبی نوع انسان میں جبلی خواہشات کو تمام اوقات اور مقامات پر یکساں عالم گیر حیثیت کیسے حاصل ہوگئی ہے اور جن کی تسکین ہوش و حواس کی بقا کے لئے ضروری ہے۔
ذہنی بیماریوں کے بڑے اسباب یہ ہیں:
(۱) اپنے آپ سے نفرت
(۲) مصیبت جھیلنے کے ناقابل ہونا۔
(۳) دنیاوی کامیابی کے حصول میں ناکامی
(۴) مستقبل کے بارے میں خوف اور فکر
(۵) اس وہم میں مبتلا ہونا کہ آخر کار کسی کی زندگی بھی کوئی قدروقیمت نہیں رکھتی۔
ایک نامور ا مریکی مصنف جو اس مادہ پرست فلسفے کا مبلغ ہے ۔ لکھتا ہے:
’’موت بہ نفسہ اچھی ہے۔ اگر وہ اپنے وقت پر آئے ۔ نوجوان صحت مند، خوش وخرم اور قابل کار لوگوں کے لئے تو وہ کبھی کبھی اچھی ثابت ہوتی ہے۔ البتہ بوڑھوں ، بیماروں، دکھیوں اور زندگی سے ناامید ہوجانے والوں کے لئے بلاشبہ بہتر ہے۔ خودکشی جو بعض مخصوص حالات میں اپنے عمل میں آنے کا وقت انتخاب کرتی ہے ۔ ان ناگزیر حالات سے چھٹکاراپانے کا باوقار راستہ نکال دیتی ہے اس لئے وہ ہمارے رحم اور مذمت وملامت کے بجائے قابل تحسین اور مستحق احترام ہے۔ (مصنف ولیم دوگٹ شائع کردہ ہلمن بکس نیویارک ۱۹۶۱ء)
اس کے برعکس اسلام اپنی زندگی کی حفاظت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے چونکہ ہر مسلم فرد اسلام کو اپنی ذات میں نمایاں کرتا ہے اس لئے اسلام کی بقا کا انحصار اس کی ذات کی بقا پر ہے فرد کی بقا اس وقت ثانوی حیثیت اختیار کرتی ہے جب ایک مسلمان فرد کا مفاد اپنے معاشرے کے مفاد سے متصادم ہو ایسے موقع پر مسلم فرد کو معاشرے کے مفاد کو ترجیح دینا پڑتی ہے اس لئے کہ وہ اپنے معاشرے کا ایک حصہ ہے اور کل اپنے ایک حصہ سے زیادہ قیمتی اور عزیز ہوتا ہے۔ صرف جہاد فی سبیل اللہ میں ایک مسلمان کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرے۔
لیکن دیدہ ودانستہ اسے خود کو زخمی کرنے یا ہلاک کرنے کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو غلیظ چیزیں اور سور کاگوشت کھانے کی سخت ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ اس کی ذہنی اخلاقی صحت کو برباد کرتی ہیں۔ مسلمان کو زہریلے مشروبات ، شراب اور نشہ آور چیزوں کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ یہ سب جسم و دماغ کو برباد کرنے والی ہیں پھر مسلمان کو اس بات کی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کی بے اعتدالی میں مبتلا ہو۔ کیونکہ یہ بے اعتدالیاں ذاتی تباہی کا موجب ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمان کو کسی حالت میں بھی خودکشی کرنے کی اجازت نہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی اپنا گلا گھونٹ کر مر جاتا ہے وہ اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر دوزخ کی آگ میں ڈالتاہے اور جو کوئی اپنے خنجر بھونکتا ہے وہ اپنے آپ کو خنجر بھونک کر دوزخ کی آگ میں ڈالتاہے۔ (بخاری)
چونکہ زندگی اور موت حکم خداوندی کے تابع ہے اس لئے اسلام خودکشی کو بدترین گناہ تصور کرتا ہے۔ اپنی زندگی کواپنے ہاتھوں ختم کرلینا خدااور روزآخرت پر ایمان نہ ہونے کی دلیل ہے۔ اسی لئے اسلام کے سچے ماننے والے خودکشی کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔
سماجی انتشار جو کہ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں کی موجودہ سوسائٹی کی خصوصیات میں سے ہے اور مرد عورتوں سب کو باہمی محبت و اعانت سے محروم کرتا ہے دراصل وہی بے شمار ذہنی بیماریوں کا ذمہ دار ہے۔
آج کل کی سوسائٹی میں انفرادیت پر ضرورت سے زیادہ زور دیاجاتا ہے۔ اس سے خاندانی روابط ختم ہورہے ہیں۔ پڑوسیوں بلکہ دوستوں اور عزیزوں کے حالات سے لاتعلقی پیدا ہوگئی ہے۔ نتیجتاً زیادہ سے زیادہ لوگ تنہائی کا شکار ہیں۔ اور تو اور درمیانی عمر کی سکریٹری سول حکام، اساتذہ ، نرسیں اور ڈاکٹر تک تنہائی کے شکوہ سنج ہیں۔ حالانکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ جس میں ہروقت لوگوںسے واسطہ پڑتا رہتا ہے اور وہ فطرتاً بھی تنہائی پسند نہیں ہوتے۔
لیکن انہیں اتنا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ اپنے پاس پڑوس سے ذاتی تعلقات قائم کریں۔ جوان ہوں یا بوڑھے سب کی تنہائی کی جڑیں ایک ہی درد سے وابستہ ہیں۔ البتہ بوڑھوں کی حالت اور بھی خراب قابل رحم ہوتی ہے ۔ مثلاً وہ کسی کمرے یا فلیٹ میں معذور پڑے ہیں گٹھیا کے بیمار اکثر آنکھوں سے اندھے، کانوں سے بہرے، پیرانہ سالی اس خوف ووحشت میں مبتلا کہ اگر اور بیمار پڑگئے یا مرگئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔
گزشتہ بیس سال سے برطانیہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں بلکہ خود امریکہ میں جو کہ دنیا کا سب سے زیادہ مالدار ملک ہے اکیلے رہ جانے والے لوگوں کی تعداد میں بدستوراضافہ ہورہاہے ۔ اور یہ چیز عام ڈاکٹروں ، ماہرین نفسیات اور سماجی کام کرنے والوں کے لئے خاصا پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
انگلستان میں ذہنی امراض کے مریضوں کی تعداد کل مریضوں کی تعداد کاایک تہائی ہوتے ہیں اور سیکڑوں زندگی کی مشکلات کا تنہا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام شادی اور خوشگوار منابل زندگی کی اہمیت پر اس قدر زور دیتا ہے۔
(جاری)