اسلام اور صحتِ جسمانی

حکیم محمد سعیدؒ

ہم سب اس حقیقت کو جانتے اور مانتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ توجہ کے لائق جو چیز ہے وہ ہے مقصدِ حیات۔ اگر ہم انسانی تاریخ کا جائزہ لیں اور انسانی فطرت کو سمجھیں تو یہ بات ہم پر واضح ہوگی کہ تمام انسانی مساعی اور کوششوں اور حیات انسانی کی ساری کشمکشوں اور زندگی کی تمام معرکہ آرائیوں کی تہ میں کسی مقصدِ حیات کا وجود اور تحفظ کارفرمارہا ہے۔ تحفظ مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی ہر موجود و مفروض بلکہ ہر موہوم رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے انسان ہمیشہ اور ہردور میں جان کی بازی لگاتا رہا ہے۔ میں اس وقت حیات اقوام و ملل کے مختلف تاریخی ادوار میں متعین کیے جانے والے مقاصدِ حیات کے درست یا نادرست ہونے کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کروں گا، لیکن یہ وضاحت اور اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم مومن اور مسلمان کی حیثیت سے اپنا جو مقصدِ حیات قرار دیتے ہیں، اس کی اساس، خالق کائنات اور ناظم کون و مکاں کی وحی پر قائم ہے، وہ وحی کہ جو اس نے اپنے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمائی اور جو آج ہمارے پاس اللہ کی آخری کتاب یعنی قرآنِ مجید و فرقان حمید کی صورت میں موجود ہے۔
میں آپ کی توجہ جس بات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا خاکہ قطعی طور پر اس طرح مرتب اور تیار کیا گیا ہے کہ یہاں بسنے والے ہر انسان کو نہ صرف اپنے مقصدِ حیات کے تحفظ کے لیے بلکہ اس کے ساتھ خود اپنی زندگی کے قیام و بقا کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ جہت کوشش جاری رکھنی ضروری ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے انسان کو مشقت میں گھرا ہوا پیدا کیا ہے۔‘‘ (البلد:۴)
اس بلیغ بنیادی اور اساسی نکتے کو جن افراد اور جن اقوام نے سمجھ لیا، انھوں نے اس کوشش اور کشمکش کی راہ کو ہی عافیت جانا اور بقائے حیات اور تحفظِ مقصد کی جدوجہد ہی کو اپنے لیے باعث امن و اطمینان خیال کیا اور اس کی تائید میں اپنی حیات کو پیہم جدوجہد اور سعیِ مسلسل سے عبارت کردیا۔
تاریخ بتاتی ہے اور ہماری تاریخ کا ہر دور اور ہر دور کا ہر واقعہ بتاتا ہے کہ امتِ مسلمہ اور اس کے ہر فرد کے ذہن میں جب تک یہ نظر افروز نکتہ روشن و تابندہ رہا، یہ امت ترقی کی منازل پر گامزن رہی۔ ہم جانتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ ترقی و تقدم اور عظمت و رفعت کی راہوں کا یہ سفر ایک دشوار سفر ہے اور یہ سفر مخصوص، معین اور متعین زادِ راہ کا متقاضی ہے۔ اس زادِ راہ کے بعض عناصر معنوی اور اعتقادی ہیں اور بعض مادی اور جسمانی، اگر امعان نظر سے جائزہ لیا جائے اور فکر و نظر کی گہرائیوں کے ساتھ بات کو سمجھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جہاں تک عالم اسباب کا تعلق ہے، ان میں سے جسمانی عنصر کہ جو درحقیقت صحت جسمانی ہے، ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ نورِ مجسم، رحمتِ عالم حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد عالی ہے کہ ’’کم زور مومن سے طاقت ور مومن بہتر ہے۔‘‘
یہ ارشاد گرامی ہمیں صحت جسمانی کی حقیقت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ اللہ کا عطا کردہ ہے۔ اس طرح انسان کے لیے اللہ کے تمام عطیات امانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نیز اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ امانت کی حفاظت ایمان و اسلام کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ صحت بھی ان نعمتوں میں شامل ہے اور اس طرح صحت کی حفاظت اور صحت کو خطرات سے بچانے کی جدوجہد کا شمار مومن کی اساسی اور بنیادی ذمے داریوں میں ہوتا ہے۔
صحت کو خطرات اسی صورت میں لاحق ہوتے ہیں کہ انسان فطرت سے بغاوت کرے، اصولِ فطرت اور قدرت کو صریحاً نظر انداز کرکے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے۔ فطرت متقاضی ہے کہ انسان تمام دن محنت و مشقت کے بعد رات کو آرام کرے اور نیند کا حق ادا کرے۔ مگر آج کا انسان ہے کہ باغی فطرت ہے۔ وہ راتوں کو جاگتا ہے اور نیند کی فطری ضرورت کو نظر انداز کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی اس بغاوت نے اسے ابتلائے آلام کردیا ہے اور اس کے دل ودماغ اس کے لیے مسئلہ بن گئے ہیں۔
ذرا اپنے ماحول پر نگاہ ڈالیے۔ انسان نے ورزش کو ترک کردیا ہے اور حرکت سے لاپروا ہوکر جمود کو اس نے خوش آمدید کہا ہے۔ اس جمود نے اس کے سارے نظام جسم کو خفتہ کردیا ہے، سلادیا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی صلاحیت فکر و عمل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ تازہ ہوا اور صاف پانی اس کے لیے بے معنی الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔
ہر مسلمان جانتا ہے اور اس کا یقین و ایمان ہے کہ صحت اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے اور صحت کی حفاظت اس کا تقاضائے ایمان ہے۔ پھر وہ اس حقیقت سے بھی بہ خوبی واقف ہے اور آگاہ ہے کہ صحت بکاؤ مال نہیں ہے کہ بازار گئے اور پیسے دے کر خرید لائے۔ لاریب دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ جو صحت خرید سکے۔ صحت جسم انسانی کی لازمی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے، جس کی حفاظت دائرہ فطرت میں رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔
صحت اور صفائی میں بڑا گہرا رشتہ ہے۔ اسلام نے اپنی تعلیمات میں صفائی پر انتہائی زور دیا ہے۔ بلکہ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’طہارت ایمان کا حصہ ہے۔‘‘
گندگی میں صحت کا قیام ممکن نہیں ہے۔ ماحول کی غلاظت اور گندگی دشمنِ صحت ہے۔ جسم اور اعضائے جسم کی صفائی نہ کرنے سے صحت بگڑ جاتی ہے۔ معاملات کی صفائی نہ ہو تو بھی صحت خراب ہوجاتی ہے اور فکر ضعیف۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ اسلام صحتِ جسمانی کو لازمۂ حیات قرار دیتا ہے اور صحت کی حفاظت کو جزوِ ایمان ٹھہراتا ہے۔ صحتِ جسمانی اور صحت فکری لازم و ملزوم ہیں اور تعمیر و ترقی، تحریک و تبلیغ، تہذیب و تمدن، انفرادیت اور اجتماعیت، امانت و عدالت اور سیاست و دیانت کے لیے صحت اور طہارت لازمی ہیں۔
اس میدان میں اسلام ہر مسلمان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ وہ دعوت دیتا ہے امتِ مسلمہ کے ہر فرد کو کہ وہ اپنی صحت کی حفاظت کرے اور صحتِ جسمانی و صحت فکری کے ساتھ خدمتِ اسلام میں برسرِ عمل ہوجائے۔ اسلام دعوت دیتا ہے ہیئتِ اقتدار کو کہ وہ پوری ملت کے لیے فکر ونظرکی پوری توانائیوں کے ساتھ اسبابِ صحت فراہم کرے اور حق و توازن کی برقراری کے ساتھ میدانِ عمل میں گامزن ہو۔
——

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146