مختلف زبانوں اور مختلف قوموں میں عورت کی حیثیت اور مقام مختلف رہا ہے۔ بعض نے اسے انتہائی کم درجہ کی مخلوق سمجھا اور اس کو بے عزت کیا اور بعض نے اس کا درجہ اتنا بڑھایا کہ دیوی بنا لیا، لیکن اسلام نے عورت کا حقیقی روپ پیش کیا جو اس سے پہلے کسی نے پیش نہیں کیا تھا۔
اسلام نے تعلیم دی لوگو! عورت اگر بیٹی اور بہن ہے تو تمہاری عزت و غیرت ہے۔ اگر یہ بیوی ہے تو تمہاری زندگی کی ساتھی، تمہاری ہم راز ہے۔ اور اگر ماں ہے تو تمہارے لیے اس کے قدموں میں جنت ہے۔‘‘ اسلام نے عورت کو عزت و قدر و منزلت کے صرف دعوے ہی نہیں کیے بلکہ عملاً اسے ثابت بھی کیا۔
بیٹیوں اور بہنوں کے تعلق سے اسلام کہتا ہے کہ وہ بے حیثیت اور کم قیمت نہیں ہیں جیسا کہ دنیا سمجھتی ہے۔ بلکہ وہ قدرت کا گراں مایہ عطیہ ہیں، ان کے اندر جو اُنس اور محبت ہوتی ہے وہ لڑکوں میں بھی نہیں ہوتی۔
آپﷺ نے فرمایاکہ لڑکیوں سے نفرت مت کرو، وہ تو غم خوار اور ’’بڑی قیمتی‘‘ ہوتی ہیں۔ ایک جگہ آپؐ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی دو بیٹیوں کی اچھی طرح پرورش کی اور ان کا خیال رکھا اور محبت سے پالا، وہ شخص جنت میں داخل ہوگا۔ بہنوں کے لیے بھی یہی خوش خبری ہے۔ حدیث میں ہے: ’’لڑکی کی پرورش والدین اور دوزخ کے درمیان پردہ ہے۔‘‘
اسلام بیٹیوں اور بیٹوں میں فرق روا رکھنے کے خلاف ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’ایک دفعہ نبیؐ کے سامنے ایک شخص نے اپنے بیٹے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا لیکن اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کیا، نبیؐ نے فوراً فرمایا کہ تو ظالم ہے، تجھے چاہیے تھا کہ اپنی بیٹی کو بھی پیار کرتا اور اسے بھی اپنی گود میں بٹھاتا۔‘‘
اب آئیے بحیثیت بیوی کے حقوق کی جانب۔ اسلام میں عورت کا تصور خاندان تشکیل دینے والی شخصیت کا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے وہ مکان کو گھر بناتی ہے۔
بیوی کی انہی خوبیوں کا ذکر انگلستان کے مشہور فلاسفر مارٹن لوتھر نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’سب سے بڑی نعمت جو انسان کو دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے وہ یہ ہے کہ نیک اور پاکباز بیوی ملے، جس کے ساتھ مرد امن و چین کے ساتھ زندگی بسر کرے۔‘‘
مغربی دنیا میں بیوی کے لیے “House wife” کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی ہی گھریلو خاتون ہیں۔ خاتون ہی اصل میں گھر ساز یا خاندان ساز ہے۔ جسے ہوم میکر کا لفظ یا خطاب دیا جانا چاہیے۔
جب کوئی ہماری گھریلو خواتین سے پوچھتا ہے کہ آپ کیا کرتی ہیں؟ تو ہماری گھریلو خواتین شرماتے ہوئے جھجکتے ہوئے کہتی ہیں کہ میں تو “House wife” ہوں۔ موجودہ زمانہ کا یہ ذہنی بگاڑ ہے کہ گھر سنبھالنے کو کم درجہ کا کام سمجھا جاتا ہے اور باہر کے کام کو زیادہ بڑا کام سمجھ لیا گیا ہے، مگر اسلام گھر سنبھالنے کے کام کو بھی اتنا ہی عزت کا درجہ دیتا ہے جتنا کہ باہر کیے گئے اچھے کام کو۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں، بلکہ گھر کا کام زیادہ اہمیت کے لائق ہے۔
عورت کے لیے عزت و وقار کا مقام اس کا گھر ہے نہ کہ بازار۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسے معاشرہ کا بہت حقیر کام تصور کیا جارہا ہے۔ حالاں کہ خاندان کسی بھی سوسائٹی کی بنیاد ہے اور گھر کی اہمیت بازار اور دفتر سے زیادہ ہے۔ عورت گھر کی تعمیر میں جو خدمت انجام دیتی ہے، وہ ان بہت سے کاموں سے زیادہ اہم ہے جو وہ گھر سے باہر انجام دیتی یا دے سکتی ہے۔ گھر کی تعمیر میں لگنے کی وجہ سے عورت کا عزت و احترام کم نہیں ہوتا بلکہ اس کو اور بڑا اونچا مقام حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے کسی فریق کو یہ حق نہیں کہ وہ باہر کام کرنے والوں میں شامل ہونے کی وجہ سے احساس برتری میں مبتلا ہو۔ اور نہ کسی فریق کو چاہیے کہ وہ گھر میں کام کرتی ہیں اس لیے احساس کمتری کا شکار ہوکر اپنی اہمیت خود اپنی نظر میں گھٹالے۔
اسلام میں بیوی سے حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اور اس سے برے سلوک کے تعلق سے مردوں کو ڈرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا سلوک اپنے بیوی بچوں (گھر والوں) کے ساتھ اچھا ہے۔‘‘ یعنی بیوی کے ساتھ بہترین سلوک ہی ایک انسان کی شرافت کی دلالت ہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو چاہے وہ دنیا کے سامنے کتنا ہی شریف کیوں نہ ہو وہ اسلام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے۔
اب آئیے ماں کی جانب مغربی معاشرہ میں ماں بننا اپنی جسمانی کشش کو کم کرنے کا سبب سمجھا جاتا ہے اور وہاں عورتوں کا ایک طبقہ ماں بننے کو معیوب سمجھتا ہے۔ لیکن اسلام ماں بننے کے عمل کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عورت کو اس کے ذریعے سے انتہائی اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے اور ماں بننے کی تکالیف کو عورت کی عظمت اور وقار میں اضافے کا سبب بتاتا ہے۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے ’’اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر اس کو جنا اور دو سال اس کا دودھ چھڑانے میں لگے۔حدیث میں ہے: ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘
حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ’’ایک شخص نے رسولؐ سے پوچھا کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تیری ماں کا‘‘ اس نے پوچھا اس کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تیری ماں کا‘‘ اس نے تیسری مرتبہ دریافت کیا، اس کے بعد؟ آپ نے پھر وہی جواب دیا: ’’تیری ماں کا۔‘‘ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپؐ نے فرمایا: ’’تیرے باپ کا۔‘‘
اسلام میں والدین کی نافرمانی کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے لیکن خصوصاً ماں کی نافرمانی سے بچنے کی الگ سے تاکید کی گئی ہے۔
حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’اللہ نے تم پر حرام ٹھہرائی ماؤں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا۔‘‘
اسلام کے نزدیک سب سے بہتر معاشرہ وہ ہے جس میں عورت کو سب سے زیادہ احترام ملے۔
رسولؐ کریم ایک بار سفر میں تھے۔ کچھ خواتین اونٹ پر بیٹھی ہوئی چل رہی تھیں۔ ساربان نے اونٹ کو تیز چلانا چاہا۔ جب اونٹ تیز چلنے لگا عورتیں ہلنے لگیں۔ آپؐ نے فرمایا : ’’اے انجشہؓ! یہ آبگینے ہیں، ذرا آہستہ چلاؤ۔‘‘ (آبگینہ قیمتی ہیرے، کانچ یا شیشہ کے لیے استعمال ہوتا ہے)۔
اسلام نے عورت کے لیے کتنی آسانیاں پیدا کیں اور انہیں عزت و وقار فراہم کیا۔ بیٹی ہے تو اس کا باپ اس کی پرورش، کفالت اور تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہے۔ شادی ہوئی تو یہ ذمہ داری شوہر کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ بوڑھی ہوئی تو یہ ذمہ داری اولاد کی طرف۔ میراث میں باپ کے ترکے میں حصہ، ماں مرے تو ماں کے ترکہ میں، شوہر مرے تو بیوی کا حق میراث، بیٹا، بیٹی مریں تو ماں حصہ پانے کی حق دار قرار دی گئی ہے۔
پرورش، تعلیم و تربیت، حق میراث کیا نہیں دیا شریعت نے عورت کو! ہر طرح کا حق، عزت و وقار بخشا۔ اب ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس کو برقرار رکھیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ زندگی کے لیے سب سے اہم چیز دولت ہے۔ مگر دولت سے زیادہ اہم وہ افکار و نظریات ہیں جن کو اپنا کر ایک عورت احترام کی زندگی بسر کرسکتی ہے۔ ہم یہ سمجھ جائیں تو ہم اپنی زندگی عزت ووقار کے ساتھ گزار سکتی ہیں۔ ہمیں اپنے خیالات کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھتے رہنا چاہیے، ورنہ اگر ہم صرف ذل کی سنیں تو ہمارے خیالات ہمیں آسانی سے گمراہی کی جانب بھی لے جاسکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں دنیا کے ذہین ترین افراد بھی یہ سمجھتے تھے کہ زمین چپٹی ہے لیکن بعد میں تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ در حقیقت یہ زمین گول ہے۔
اسی طرح آج ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کی آزادی، ترقی کے لیے بڑی بڑی آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے تعلق سے بڑے بڑے پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نعرے جو عورتوں کو آزادی دلانے کے لیے لگائے جا رہے ہیں، یہ بڑے بڑے پروگرام بڑی بڑی کانفرنسیں جو عورتوں کی ترقی کے لیے منعقد کیے جا رہے ہیں۔ وہ ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت تو کچھ اور ہے۔ کاش کہ ہم جان سکتے کہ آزادی، ترقی کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ در حقیقت عورت کے عزت و احترام اور اس کے وقار کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اس کے جسم کی نمائش ہے اس کے حسن اور خوبصورتی کا استعمال ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ مغربی دنیا کی عورت آزاد ہے اور وہ بہت مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی اور ناسمجھی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مغربی ملکوں نے عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی حد بندی نہیں رکھی اور تمام عورتوں کو سڑکوں اور بازاروں میں نکال کر کھڑا کر دیا۔ اب جن لڑکیوں میں نسوانی کشش زیادہ ہو، وہ فوراً لوگوں کی نظروں میں مقبولیت حاصل کرلیتی ہیں مگر یہ مقبولیت اس قیمت پر حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی گھریلو زندگی سے دور ہوجاتی ہیں۔ وہ گھر بنا کر، شادی کرکے گھر کی رونق بننے کے بجائے محفل کی رونق بننا پسند کرتی وہیں۔
مگر یہ بارونق لمحات بے حد وقتی ہوتے ہیں، جوانی کی خاص عمر تک ان عورتوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں چھلکے کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ مقبول شخصیت آخر اپنا وجود کھودیتی ہے کیوں کہ مغربی تہذیب میں صرف ’’جوان اور خوبصورت عورت کے لیے جگہ ہے۔ بوڑھی اور بد صورت کے لیے اولڈ ایج ہوم ہیں۔‘‘
اس کے برعکس اسلامی خاندان سے وابستہ ہوکر جو زندگی بنتی ہے، وہ اس سے الگ ہوتی ہے۔ خاندان میں ایک عورت ’’بیٹی‘‘ بن کر پیدا ہوتی ہے، جہاں اسے ماں باپ کا لاڈ و پیار ملتا ہے۔ ’’بہو‘‘ اور ’’بیوی‘‘ کی حیثیت سے دوسرے گھر میں زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ یہاں اس کو اپنے ہنر اپنے جوہر دکھانے اور اپنے کردار کو پروان چڑھانے کا بھرپور میدان ملتا ہے۔ اس کا گھر ایک پوری مملکت ہوتا ہے۔ جس کو وہ سنبھالتی ہے، اس کی کارکردگی سے اس کی تاریخ بنتی ہے، جو آخر وقت تک اس کا ساتھ دیتی ہے۔ ہر اگلا دن یہاں اس کی عزت و احترام میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ ماں بھی بنتی ہے دادی، نانی بھی اور اپنے شوہر کی نظر میں بھی بتدریج اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کی عمر بھی بڑھتی ہے اور ساتھ ساتھ اس کا وقار بھی خاندان میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ گھر کی مالکہ کی حیثیت حاصل کرلیتی ہے۔ غرض گھر اور خاندان عورت کی وہ دنیا ہے، جو شروع سے آخر تک عورت کا ساتھ دیتی ہے۔ جب کہ مغربی تہذیب میں زندگی کے چند سالوں میں جو جوانی کے ہوتے ہیں عورت قیمت پاتی ہے اور پھر گم نامی کے اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔
خدا نے انسان کو عزت و عظمت بخشی ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اس عزت کی قدر و قیمت کو پہچانے اور اسے کسی طرح مجروح نہ ہونے دے۔ عزتِ نفس کی مخافظت در حقیقت اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا ’’مومن کے لیے زیبا نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔‘‘
لوگوں نے عرض کیا کہ وہ خود کو کیسے ذلیل کرسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:’’ایسی آزمائش میں خود کو مبتلا کردے جس کو برداشت کرنے کی اس میں طاقت نہ ہو۔‘‘
یعنی ایسے کاموں میں ہاتھ ڈالنا جس کا انجام ذلت و رسوائی ہو انسان کی شان کے خلاف ہے۔ اسلام نے عزتِ نفس کی حفاظت کی تعلیم دی ہے۔
عورتوں اور لڑکیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مقام کا شعور حاصل کریں اور اسے برقرار رکھیں کیوں کہ کامیابی در حقیقت اپنے وجود کی پہچان ہے۔ دنیا میں کامیاب انسان وہی ہوتا ہے جو اپنی شخصیت کا صحیح شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اپنے وجود اپنی ذمہ داریوں، اپنے حقوق کی صحیح پہچان ہی کامیابی کا پہلا زینہ (سیڑھی) ہے۔
جس کا ذکر آپﷺ نے ان الفاظ میں کیا:
من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
آئیے ہم سب بڑھیں، اپنے حقوق صحیح معنوں میں حاصل کریں، اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور سماج میں اپنے عزت و وقار کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مغربی تہذیب کی جھوٹی چکاچوند سے بچیں اور اسلامی تعلیمات کی روح کو اختیار کریں۔lll