اسلام اور امتِ مسلمہ کے حوالے سے مغربی دنیا کے تضادات کی نوعیت تاریخی ہے۔ مغربی دنیا آج مسلمانوں کو بنیاد پرست اور انتہا پسند کہتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ مغرب کا مسئلہ اسلام نہیں بلکہ مسلمانوں کی انتہا پسندی ہے۔ لیکن یہ مغربی دنیا کا ایک جھوٹ ہے۔
۱۰۹۵میں نہ کسی اسامہ بن لادن کا کوئی وجود تھا اور نہ اْس زمانے میں کوئی نائن الیون ہوا تھا۔ لیکن اْس وقت کے پوپ اْربن دوئم نے ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے۔ پوپ نے کہا کہ مجھ پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ اس شیطانی مذہب کو روئے زمین سے مٹادیں۔ چنانچہ پوپ نے پورے یورپ کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی تلقین کی۔ پوپ کی یہ تلقین صدا بہ صحرا ثابت نہ ہوئی۔ یورپی اقوام۱۰۹۹میں عملاً ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے اْن صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔
اس منظرنامے میں مغرب کا تضاد یہ تھا کہ اس نے کسی جواز کے بغیر اسلام اور عالم اسلام کو نشانہ بنایا اور اس کے باوجود خود کو حق و صداقت اور امن و انصاف کا عَلم بردار کہتا رہا۔ صلیبی جنگوں کے آغاز سے اس کی انسانیت پر کوئی حرف آیا اور نہ بیت المقدس میں خون کی ندیاں بہانے سے اس کا ’’مہذب پن‘‘ متاثر ہوا۔
مسلم دنیا میں نوآبادیاتی تجربے کا ذمے دار بھی مغرب ہے۔ نوآبادیاتی دور کے وقت مسلمان اپنے جغرافیوں میں محدود تھے اور ان کی جانب سے مغرب کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی تھی۔ اس کے باوجود یورپی طاقتیں اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ اس قبضے کا سبب واضح تھا۔ مغرب میں صنعتی انقلاب برپا ہوچکا تھا اور اس انقلاب کو خام مال اور نئی منڈیوں کی ضرورت تھی۔ لیکن اہلِ مغرب نے اپنی غرض کو تسلیم کرنے کے بجائے یہ فلسفہ گھڑا کہ اہلِ مغرب تہذیب یافتہ ہیں اور ان کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔
ظاہر ہے کہ یہ بھی اہلِ مغرب کا ایک جھوٹ تھا۔ اس لیے کہ امتِ مسلمہ اہلِ مغرب سے زیادہ مہذب تھی اور اسے اہلِ مغرب سے حق و صداقت اور معرفت و تہذیب کا کوئی سبق نہیں سیکھنا تھا۔ نوآبادیاتی تجربے کے ذریعے اہلِ مغرب نے ایک جانب مسلمانوں کو اپنا غلام بنایا، دوسری جانب ان کے وسائل کو لوٹا، تیسری جانب ان پر اپنا تصورِ حیات اور اپنے علوم ٹھونسے، اور چوتھی جانب انہوں نے مسلمانوں میں کالے یورپیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو آج بھی مغرب کا آلہ کار بن کر اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
نوآبادیاتی دور ختم ہوا اور مغربی طاقتیں اپنے علاقوں کو واپس لوٹیں تو اہلِ مغرب نے اسلام کے سلسلے میں ایک نیا فلسفہ ایجاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام ایک بڑا مذہب تو ہے مگر اسلام کا بیج اپنے تمام امکانات ظاہر کرچکا اور اب اس کے پاس انسانیت کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
مغرب نے اسلام کے خلاف ایک نیا شوشا چھوڑا۔ مغرب کے مفکرین نے کہا کہ اسلام ایک بڑا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، مگر اسلام اب صرف عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا مجموعہ ہے۔ اس کا کوئی تصورِ سیاست و ریاست نہیں، اس کا کوئی معاشی نظام نہیں، چنانچہ اسلام کا تعلق انفرادی زندگی سے ہے، اجتماعی زندگی کے سلسلے میں اسلام کے پاس کوئی منصوبہ اور کوئی پروگرام نہیں۔
لیکن جب بیسویں صدی کے اسلامی مفکرین نے دلائل و براہین کے ذریعے ثابت کیا کہ اسلام کا ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس کا ایک مخصوص تصورِ زندگی ہے، اس کا ایک مخصوص تصورِ ریاست و سیاست ہے، اس کا ایک مخصوص معاشی نظام ہے، اس کا ایک مخصوص سماجی بندوبست ہے۔ نتیجہ یہ کہ عالم اسلام میں اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی بحث ختم ہوگئی اور یہ بات تسلیم کرلی گئی کہ اب مسئلہ اسلام کے تصورات پر عمل کرکے دکھانے کا ہے۔ لیکن اسلام اور امتِ مسلمہ سے متعلق مغرب کے تضادات کا سلسلہ تاریخ کے اس مرحلے پر ختم نہیںہوا۔
مغربی دنیا میں انقلابِ فرانس کو تاریخ ساز اہمیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انقلاب قوت کے ذریعے آیا تھا لیکن اس کے باوجود اسے ’’جمہوری انقلاب‘‘ کہا اور ماناگیا۔ لیکن جب ۱۹۷۹میں ایران میں انقلاب آیا اور اس کی پشت پر مذہب کی کارفرمائی نظر آئی تو اہلِ مغرب چیخ اٹھے کہ اسلام اگرچہ ایک زندہ قوت ہے مگر مسلمان اپنے معاشروں میں طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لاسکتے ہیں اور اسلام کی بنیاد پر کام کرنے والی تحریکیں جمہوری طریقوں سے کبھی اقتدار میں نہیں آسکتیں۔ لیکن ایرانی انقلاب کے چند ہی برسوں بعد الجزائر میں اسلامی فرنٹ ایک بڑی عوامی قوت بن کر ابھرا اور اس نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ یہ تبدیلی مغرب کے معیار، اقدار اور طریقۂ کار کے عین مطابق تھی اور مغربی دنیا کو نہ صرف یہ کہ اس ’’جمہوری انقلاب‘‘ کا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا بلکہ اس کا فرض تھا کہ وہ جمہوری انقلاب کو تحفظ بھی فراہم کرے۔ لیکن اس کے برعکس پوری مغربی دنیا الجزائر کے جمہوری انقلاب سے لاتعلق بن کر کھڑی ہوگئی اور فرانس نے الجزائر کی فوج کے ذریعے اس جمہوری انقلاب کو سبوتاژ کردیا اور انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آسکی۔ لیکن یہ معاملہ الجزائر تک محدود نہ رہا۔ نجم الدین اربکان جمہوری طریقے سے اور ترکی کے سیکولر آئین کے تحت ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے، لیکن ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا گیا۔
اسرائیل اور مغربی دنیا حماس کو دہشت گرد اور جہادی تنظیم کہتے تھے، لیکن وقت آیا تو حماس نے خود کو ایک سیاسی جماعت بناکر دکھادیا اور اس نے جمہوری نظام کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور یورپ نے حماس کی حکومت کو تسلیم کرکے نہ دیا۔ چنانچہ حماس کے وزیراعظم اسماعیل ہانیہ بہ مشکل ایک سال فلسطین کے وزیراعظم رہ سکے۔
نائن الیون کے بعد امتِ مسلمہ اور مغرب کے تعلقات کشیدہ ہوئے تو مغرب نے کہا کہ اس کا ہدف اسلام نہیں بلکہ انتہا پسند ہیں، اس کو اسلامی تحریکوں سے نہیں القاعدہ اور طالبان سے تکلیف ہے۔ یہ مغرب کا ایک اور جھوٹ تھا۔ مغرب الجزائر میں اسلامی فرنٹ اور ترکی میں رفاہ پارٹی کے ساتھ جو کچھ کرچکا تھا وہ ریکارڈ پر تھا۔ رہی سہی کسر مصر میں صدر مرسی کے خلاف سازش اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے خلاف اقدامات نے پوری کردی۔ اخوان المسلمون پہلے دن سے ایک پرامن سیاسی اور جمہوری تحریک ہے، اس نے مصر کی فوج کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا اور51 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئی، لیکن صدر مرسی کو ایک سال میں گھیر کر اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ اس سلسلے میں امریکہ کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ اْس نے جنرل السیسی کی بغاوت کو ’’بغاوت‘‘ کہنے سے بھی انکار کردیا۔ اور اب برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روس اور چین کے ساتھ تنازعات میں نہ الجھے، اس لیے کہ اصل خطرہ روس یا چین نہیں، بلکہ اسلام اور اسلامی تحریکیں ہیں۔ انہوں نے کوئی لفظ چبائے بغیر صاف کہا ہے کہ مغرب کو مصر کے معاملات میں غیر جانب دار رہنے کے بجائے جانب داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اسے اسلام پسندوں کو کچلنے والی قوتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ بعض مبصرین نے ٹونی بلیئر کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹونی بلیئر کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے کیونکہ برطانیہ کے ۲۵فیصد لوگ انہیں جنگی جرائم میں ملوث سمجھتے ہیں۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا مصر کیا پورے عالم اسلام کے سلسلے میں پہلے ہی ٹونی بلیئرکے مشورے پر عمل کررہی ہے۔ شام پورا تباہ ہوچکا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں، محصور علاقوں میں لوگ کتے بلیاں مار کر کھا رہے ہیں مگر امریکہ اور یورپ بشارالاسد کی حکومت کو گرانے پر تیار نہیں، کیونکہ انہیں اندیشہ ہے کہ بشارالاسد کی حکومت گرے گی تو اس کی جگہ کوئی نہ کوئی اسلام پسند لے گا۔ مصر میں جنرل السیسی کو صرف امریکہ کی نہیں بلکہ پورے یورپ کی تائید حاصل ہے۔ بی بی سی اور سی این این مصر کی صورت حال پر تبصرہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو وہ بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ صدر مرسی کے خلاف لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جمہوریت انتخابات کا نام ہے یا سڑکوں پر مظاہروں کا؟ اگر سڑکوں پر ہونے والے مظاہرے ہی سب کچھ ہیں تو خود اہلِ مغرب ان مظاہروں سے ’’استفادہ‘‘ کیوں نہیں کرتے؟ اور ان مظاہروں کے ذریعے حکومت کیوں نہیں گراتے؟
مغرب اور عالم اسلام کے تعلق کی دو مثالیں اور بھی ہولناک ہیں۔ مہاتیر محمد اور ان کا ملک ملیشیا نہ جہادی تھا، نہ انتہا پسند تھا۔ یہاں تک کہ مہاتیر محمد کو مغرب کی اصطلاح میں ’’اسلامسٹ‘‘ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ مہاتیر محمد کا مسئلہ صرف مادی ترقی تھا، اور انہوں نے ۳۰ سال تک سر جھکا کر اسی ترقی پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس عرصے میں انہوں نے مغرب کے ساتھ تجارت کی اور اسلامی اصولوں کے تحت نہیں بلکہ مغربی اصولوں کے تحت۔ اس عرصے میں انہوں نے سودی بینکاری کی۔ انہوں نے جدید تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کو عام کیا، اور ان کے ملک میں کہیں بھی ’’مدرسے کی ذہنیت‘‘ موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود ایک مرحلہ آیا کہ مہاتیر محمد چیخ اٹھے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے جو ترقی پچاس سال میں کی ہے مغرب اسے چند ہفتوں میں تباہ کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے ملیشیا کے اسٹاک ایکسچینج میں بحران کا ذمے دار امریکی سرمایہ کاروں بالخصوص جارج سووس کو قرار دیا۔ چنانچہ چند ہفتوں میں خاموش طبع مہاتیر ’’مغرب مخالف‘‘ بن کر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اْن کا تعلق طالبان اور القاعدہ کیا اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی سے بھی نہ تھا۔ رجب طیب اردگان کی مثال اس سلسلے میں اور بھی نمایاں ہے۔ ترکی آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ملک ہے اور رجب طیب اردگان اس آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔ مہاتیر محمد کی طرح انہوں نے بھی معاشی ترقی کو ہدف بنایا۔ وہ دس سال سے مسلسل یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے کوشاں تھے، یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی فرمادیا کہ اسلام اور سیکولر ازم میں کوئی تضاد نہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو وہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ غیر ملکی طاقتیں انہیں گرانے کے لیے سازشیں کررہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں فتح اللہ گولن پر انگشت نمائی کی… اور سب جانتے ہیں کہ فتح اللہ گولن امریکہ میں مقیم ہیں اور فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی پر ان کا گہرا اثر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا مفہوم اس کے سوا کیا ہے کہ مغرب کا اصل مسئلہ اسلام اور اس کا عروج اور امتِ مسلمہ کی شوکت ہے، اور یہ دونوں باتیں مغرب کو گوارا نہیں، خواہ مہاتیر محمد اور رجب طیب ایردگان ہی ان میں کسی کا مظہر بن کر کیوں نہ ابھریں۔lll