س: اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو قبولِ اسلام پر آمادہ کیا؟
ج: میں بدھ خاندان سے تھی، بدھ مت میری رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے۔ ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا۔ مطالعے کے دوران دبئی و قطر کا سفر بھی ہوا، وہاں کے اسلامی تہذیب و تمدن سے میں بہت متاثر ہوئی۔ اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا،وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔
س: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟
ج: اسلام کے خلاف پروپیگنڈے نے مجھے اسلام سے قریب کردیا۔اس لیے کہ مطالعے میں اس کے برعکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پرامن حل پیش کرتا ہے۔
س: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی اسکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا اور ایک مرتبہ آپ نے خود کشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟
ج: میں نہیں چاہتی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے، تبصرے شائع کرے، مجھے بدنام کرے۔ میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہوچکی ہیں۔ مختصر وقفے کے بعد سب سے علیحدگی ہوتی گئی۔ پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ انھی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نامناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی۔ لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لیے میں نے یہ سب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں بدحال تھی، خودکشی کرناچاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا، مذہبی کتابوں کے مطالعے پر اکسایا۔ پھرمیں نے اسلام قبول کیا۔ میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لیے کہ میں اب ایک پرسکون و باوقار زندگی بسر کررہی ہوں۔
س:پوجاجی! قبولِ اسلام کے بعد آپ کی طرزِ زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، آپ کے سر پر اسکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کرلی؟
ج:برائے مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ فاروق ہوں۔ قبولِ اسلام سے پہلے تناؤ بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔ میں ڈپریشن کا شکار ہوچکی تھی، میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبولِ اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے، شراب، سگریٹ سے توبہ کرلی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔
س:اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش، ناچ گانا اور سازوسرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟
ج:میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناتا توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میری نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لیے کبھی کبھار تھمبل (کٹھمنڈو کا پوش علاقہ)کے ایک ریستوران میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔
س:قبولِ اسلام کے محرکات کیا تھے؟
ج:چونکہ میرے کئی بدھ ساتھی اسلام قبول کرچکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے۔ میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہیے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
س:قبولِ اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا ردِ عمل رہا؟
ج:اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دارجلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انھوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں: ’’واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنی، تجھے خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے۔‘‘ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لیے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔
س:میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لیے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟
ج:یہ بالکل بے بنیاد خبر ہے۔ میرے کئی دوست مسلمان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لیے اسلام لائی ہوں۔ ہاں اب میں مسلمان ہوں، لہٰذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتا چل جائے گا۔
——