رسول کریمﷺ نے ایمان کی بنیاد پر ایک عالم گیر معاشرے کا آغاز فرمایا اور اس کے لیے آپؐ نے عظیم راہ نما اصول عطا فرمائے۔ عالم گیر اسلامی معاشرے کا ایک اہم اصول بتاتے ہوئے آپؐ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو مشکل حالات میں چھوڑ دیتا ہے، جو بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں اس کی مدد فرماتا رہتا ہے۔ جو کسی مسلمان بھائی کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کی عیب پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی فرمائے گا۔‘‘ (بخاری، مسلم)
آپﷺ کا ارشاد ہے ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس سے حسد کرے، نہ اس کو دھوکا دے، نہ اس کے ساتھ بغض رکھے، نہ اس سے منہ پھیرے، نہ اس کا سودا خراب کرے، نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کو حقیر جانے، نہ اس کے ساتھ خیانت کرے، نہ اس کے آگے جھوٹ بولے۔‘‘
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لیے یہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت پامال کرنا حرام ہے۔’’ نہ آپس میں حسد کرو نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو، اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
اگر ہم ہادی اعظمﷺ کے ان احکامات پر عمل کرنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ جنت نظیر بن جائے اور ہر انسان سکون اور چین سے جیے۔ اللہ اور رسولؐ کے فرامین کے مطابق ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اس بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے کچھ بنیادی باتیں ایسی ہیں جن پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ ہم نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ بھوکے کو کھانا کھلائیں، کپڑا مہیا کریں، مریض کی جان بچانے کی کوشش کریں، ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ بھائی چارے کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہم ایک دوسرے کی غیبت سے پرہیز کریں کیوں کہ یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا ذکر ہمیشہ اچھے اور احسن الفاظ کے ساتھ کرنا چاہیے۔ بھائی چارے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کردیں اور اگر ہمارا کوئی بھائی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کو اس سے نجات دلانے کی کوشش کریں۔ یہ بھی بھائی چارے کا حصہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان بھائی چل کر آئے تو اس کو خوش آمدید کہیں۔ بات کرے تو توجہ سے سنیں۔ اس کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائیں۔ نیز ہر مسلمان بھائی کے ساتھ عدل و انصاف اور احسان کے ساتھ پیش آئیں ۔ دوستی دشمنی، رنگ نسل، اپنے پرائے اور امیری غریبی کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ظلم کرنا اسلامی بھائی چارے کے یکسر خلاف ہے۔ بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری بہت ضروری ہے۔ برادرانہ تعلقات کے لیے شفقت، ہم دردی اور ادب کی بہت اہمیت ہے۔ جو مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ اچھے اخلاق نہیں رکھتا اور اس کے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آتا اس کو نبی کریمﷺ نے اسلامی برادری سے خارج کر دیا ہے۔ بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے سادگی، بے تکلفی، عیب پوشی، مہمان نوازی اور ادب آداب کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ کہ بھائی چارے کے اس سارے عمل کی بنیاد کوئی دنیاوی طمع، لالچ یا ذاتی غرض نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف اللہ و رسولﷺ کی رضا ہونی چاہیے۔
حضور ﷺ کا غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورﷺ کی حیات مبارکہ کو دنیا کے ہر شخص کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ آپﷺ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ کل جہاں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپﷺ نے خود بھی غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور سب مسلمانوں کو بھی اس کا حکم ارشاد فرمایا:
ابوداؤد شریف میں آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے مسلمانوں کی امان میں رہنے والے غیر مسلم پر ظلم کیا یا اس کا حق کھایا یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی مرضی کے بغیر اس کی کوئی چیز زبردستی لی تو قیامت کے دن میں محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘
آپﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کے ساتھ رواداری، چشم پوشی اور معافی کو اختیار فرمایا۔ جہاد کے موقع پر بھی آپﷺ نے خاص طور پر تاکید فرمائی کہ غیر مسلموں پر بے جا تعدی نہ کی جائے۔ اگر وہ صلح پر راضی ہوں تو ان کے ساتھ صلح کی جائے، ان کے درختوں، زمینوں، فصلوں، جانوروں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور مریضوں کا خیال رکھا جائے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ ’’اگر کوئی مسلمان اپنے ملک کے کسی غیر مسلم باشندے کو قتل کردے تو بدلے میں اس مسلمان کو قتل کیا جائے اور اس کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی رعایت نہ کی جائے۔‘‘
ایک دفعہ حضرت اسماءؓ کی غیر مسلم ماں ان کو ملنے آئی اور ان سے مالی تعاون کا مطالبہ کیا تو حضرت اسماءؓ نے یہ معاملہ نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آپ کو اپنی ماں کی خدمت کرنی چاہیے۔‘‘ ایک دفعہ ایک یہودی نوجوان بیمار ہوگیا تو حضورﷺ اس کی عیادت کے لیے بہ ذات خود تشریف لے گئے۔ نجران کا عیسائی وفد حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے ان کو مسجد نبوی میں بیٹھنے کی جگہ دی، ان کی مہمان نوازی کی اور ان کو ان کے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی عطا فرمائی۔
نبی کریمﷺ نے حکم فرمایا کہ غیر مسلم غریبوں اور یتیموں سے بھی مالی تعاون کیا کرو اور ان کو فائدہ پہنچایا کرو۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے سے پہلے ایک دفعہ نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپﷺ نے مجھے اپنے پاس رہائش عطا فرمائی اور اپنی بکریوں کا دودھ پلایا اور خود بھوکے رہ گئے۔
یہ بات بھی ہر مسلمان جانتا ہے کہ غیر مسلم اپنی امانتیں نبی کریمﷺ کے پاس رکھواتے تھے اور حضورؐ پوری دیانت داری کے ساتھ ان کی امانتیں ان کے طلب کرنے پر واپس لوٹا دیتے تھے۔
سیرت اور حدیث کی کتابوں میں اسی طرح کے بے شمار واقعات موجود ہیں، جن میں حضورﷺ کی غیر مسلموں کے ساتھ ہم دردی، رواداری، عدل و انصاف اور حسن اخلاق کا تذکرہ موجود ہے۔
احترامِ آدمیت
اسلام ایک سچا اور کامل دین ہے۔ یہ دنیا کے سب انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔ یہ انسانوں کے ساتھ نفرت نہیں بلکہ محبت کا درس دیتا ہے۔ جو دین انسانوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لیے نازل ہوا ہے وہ کبھی بھی انسانوں کے ساتھ دشمنی کا سبق نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا: ’’ہم نے ہر انسان کو انتہائی حسین و جمیل سانچے میں پیدا فرمایا اور ہم نے سارے انسانوں کے سر پر کرامت کا تاج رکھا۔‘‘
نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا، سارے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔‘‘
قرآن حکیم کے مطابق اللہ تعالیٰ سارے انسانوں کا رب ہے، اس کے رسول سارے انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔ وہ سارے انسانوں کا خیر خواہ ہے۔ قرآن حکیم میں جہاں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا درس دیتا ہے وہاں غیر مسلموں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا حکم فرماتا ہے۔ حدیث شریف میں جہاں مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم آتا ہے وہاں یہ بھی آتا ہے: ’’مومن وہ ہے جس سے سب انسانوں کے جان و مال محفوظ ہوں۔‘‘
حضورﷺ سب انسانوں کے لیے مجسم رحمت ہیں۔ ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپﷺ اس کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔ کسی نے کہا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: ’’کوئی بات نہیں وہ انسان تو ہے۔‘‘ قرآن حکیم نے سب انسانوں کے لیے برابر ارشاد فرمایا: ’’جس نے بلا وجہ کسی جان کو قتل کر ڈالا اس نے گویا پورے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک جان کو بچایا اس نے گویا پوری انسانیت کو بچالیا۔‘‘
اسلام غیر مسلموں کے ساتھ بھی رواداری کا حکم دیتا ہے، ان کی مالی امداد کی اجازت عطا فرماتا ہے، پر امن غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے، غیر مسلم قیدیوں کا خیال رکھنے کا حکم دیتا اور ان کے ساتھ مہربانی کا حکم دیتا ہے۔ ان کے مریضوں کی عیادت کا حکم دیتا ہے۔ حتی کہ ان کے جھوٹے خداؤں کو بر اکہنے سے منع کرتا ہے، ان کے سفیروں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔
ایسا عالیشان دین کیسے قتل و غارت کا نقیب ہوسکتا ہے؟ ایسے لوگ جو دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خوگر ہوں، وہ کیسے انسانیت کے دشمن ہوسکتے ہیں؟ ہمیں دین اسلام کی اصل او رحقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اپنا عملی کردار ادا کرنا چاہیے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ اسلام تمام انسانیت کا خیرخواہ او رنجاب دہندہ ہے۔