اسلام کے تمام احکام و فرامین، مرد و عورت کے دائرۂ کار کے اختصاص کے ساتھ، یکساں طور پر عائد ہوتے ہیں۔ قرآن میں یایہا الذین آمنوا کی مخاطب دونوں اصناف ہیں۔ پھر رب العزت نے سورئہ النساء میں وضاحت بھی فرمادی ہے۔ ’’للرجال نصیب مما اکستبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن‘‘ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے، اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اورجو کچھ عورتوں نے کمایا ہے، اس کے مطابق ان کا حصہ۔‘‘ اسی لیے گلستانِ دہر کو سنوارنے اور نکھارنے میں عورت کو نصف کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اگر اس نصفِ انسانیت نے، اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کیا تو اعلیٰ ترین ڈگریاں رکھنے کے باوجود اسے جہل و تاریکی کے سوا کچھ نہ مل سکے گا۔ نیز خدا کی گرفت سے اسے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ لہٰذا کنتم خیر امۃ کی ذمہ داری خواتین پر بھی اسی طرح عائد ہوتی ہے، جس طرح مردوں پر۔ کلمۃ اللہ کو غالب کرنے، اسے وسعت دینے، اقامتِ دین اور شہادتِ حق پہنچانے کا فریضہ ہر ایک پر عائد ہوتا ہے۔ اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ہی اہلِ ایمان کو باہم ایک جماعت بناتا ہے۔ سورہ الصف میں انہیں بنیان مرصوص سے تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہوں۔
ترمذی کی روایت ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
امرکم بخمس : بالجماعۃ والسمع والطاعۃ والہجرۃ و الجہاد فی سبیل اللّٰہ۔
’’میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں۔ جماعتی زندگی گزارنے کا، سمع و طاعت کا، ہجرت و جہاد کا۔‘‘
قرآنی آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس جماعتی زندگی کا حکم اسلام نے دیا ہے۔ وہ ایک متحد، منظم اور منضبط جماعتی زندگی ہے۔ اجتماعیت کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہنا ایک حکم ہی نہیں ہے بلکہ لازمی طور پر اس کی خلاف ورزی میں ایمان تک مشتبہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آپﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوگیا، اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے نکال پھینکا۔ اور جو امام المسلمین سے کنارہ کشی اختیار کرلے گا اور جماعت المسلمین سے الگ ہورہے گا، وہ اس حال میں مرے گا کہ اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘
یعنی اطاعتِ نظم کو ایمان کی ضروری علامت قرار دیا گیا۔ اور اصحابِ امر کی فرمانبرداری کو، اللہ و رسول کی اطاعت قرار دیا گیا۔
اللہ رب العزت کو اہلِ ایمان کے اندر اتحاد و اجتماعیت کی خصوصیات پیدا کرنا کس قدر محبوب تھا کہ عبادت میں ہمیں ہر جگہ شیرازہ بندی نظر آتی ہے۔ نماز جیسی عبادت جسے عماد الدین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اکٹھا مل کر ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ حتی کہ نماز باجماعت کو ستائیس گنا فضیلت دی گئی ہے، اس نماز سے جو تنہاپڑھ لی گئی ہو۔ یہ شانِ اجتماعیت ہی تو ہے کہ خواتین بھی اس سے بری نہیں ہیں کہ۔ ’’اللہ کی بندیو ںکو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں۔‘‘
پھر روزہ جو انفرادی عبادت بھی ہے۔ اس میں رب العزت نے مخصوص ماہ و ایام کا تعین کرکے اس میں اجتماعیت کا رنگ بھر دیا ہے تاکہ پورے ایک ماہ تک مسلم بستیوں کو تربیتی کیمپ میں تبدیل کرکے مسلمانوں کی ذہن سازی ہوتی رہے۔ کہ انما المؤمنون اخوۃ کے تحت تمام مؤمنین ایک ہی درخت کے برگ و بار ہیں۔ سب ایک ہی مشن کے علمبردار اور ایک ہی محاذ کے مشترکہ سپاہی ہیں۔ زکوٰۃ کو بھی باضابطہ طور پر بیت المال میں داخل کرکے اجتماعی طور پر غرباء پروری کا اجتماعی قانون بنایا گیا جو صالح اجتماعیت کی بڑی اہم کڑی ہے۔ جس کا مقصد تزکیہ نفس تو ہے ہی، مزید یہ کہ امت مسلمہ کو زرپرستی کے رجحان سے بچانا اور باہمی اخوت کو پروان چڑھانا بھی ہے۔
اسی طرح عبادت بھی ہر لحاظ سے اجتماعی پہلو لیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اجتماعیت کی روح اس میں جس حد تک اتار دی گئی ہے وہ تکمیل اجتماعیت کا عین مرقع پیش کرتی ہے۔ آخر اسلام میں اجتماعیت کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں اس سے بے خبر نہیں رکھا۔
آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے : ’’جماعت سے چمٹے رہو، کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے، جو اپنے گلے سے دور نکل جاتی ہے۔‘‘ اسی طرح ترمذی کی روایت ہے: ’’جماعت کا دامن مضبوطی سے تھامے رہو اور انتشار کے قریب نہ پھٹکو۔ کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ دوسے بہت دور ہوتا ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے خوشخبری بھی سنائی ہے۔ ید اللّٰہ علی الجماعۃ یعنی اجتماعی زندگی ہی دراصل وہ زندگی ہے، جس میں اہلِ ایمان خدا کی نصرتوں، برکتوں اور نوازشوں کے سزاوار بنتے ہیں۔
مسلمانوں کا آپسی تعلق کتنا مربوط، کتنا ہم رنگ اورکتنی ذہنی ہم آہنگی لیے ہوئے ہو، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے مستحکم عمارت کے مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے لیے تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ آپؐ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کرکے دکھائیں اور مزید فرمایا کہ ’’انسانی برادری کو ملانے کا پہلا قدم یہ ہوگا کہ مسلمان آپس میں مل جل کر ایک پختہ مکان بن کر دکھائیں۔ پھر آپؐ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو پیوست کرکے دکھایا کہ تمہیں آپس میں اسی طرح مل جل کر رہنا چاہیے۔ پھر دیکھو تمہارے اندر کتنی طاقت پیدا ہوتی ہے۔
انتشار و اختلاف اجتماعیت کے لیے کس قدر ضرر رساں ہے، آپؐ نے تنبیہ فرمائی: ’’شیطان بکریوں کے بھیڑیوں کی طرح انسان کا بھیڑیا ہے۔جو کہ جماعت سے الگ رہنے والوں اور ذاتی مفاد کی خاطر جماعتی کاموں سے دور رہنے والوں اور سستی کی وجہ سے جماعتی کاموں میں سرگرمی نہ دکھانے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ دیکھو! اپنے آپ کو گھاٹیوں میں پراگندہ نہ کرلینا۔ بلکہ جماعت اور اہلِ ایمان کے ساتھ لگے رہو۔‘‘ مسلم شریف میں تو اس سے سخت وعید آئی ہے۔ ’’جو جماعت سے علیحدگی اختیار کرکے مرتا ہے، وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘