اسلام میں تفریح کا مقام

علامہ یوسف القرضاوی

اسلام واقعیت پسندانہ دین ہے۔ وہ انسان کو وہم و خیال کے دائرے میں بند کرکے نہیں رکھتا بلکہ اسے زمین پر جو حقائق و واقعات کی زمین ہے، رہنا سکھاتا ہے۔ وہ لوگوں کو آسمان میں پرواز کرنے والے فرشتے سمجھ کر معاملہ نہیں کرتا بلکہ کھانا کھانے والے اور بازار میں چلنے پھرنے والا انسان سمجھ کر معاملہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لوگوں پر یہ فرض گراں عائد نہیں کیا کہ اس کی ہر بات ذکر اور خاموشی فکر ہو، سماعت وہ صرف قرآن کی کریں، اپنے تمام فارغ اوقات مسجد میں گزاریں بلکہ وہ ان کی فطرت اور ان کے طبائع کا پورا پورالحاظ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ہی اس طور سے فرمائی ہے کہ جس طرح کھانا اور پینا تقاضائے فطرت ہے، اسی طرح شاداں و فرحاں رہنا اور ہنسنا اور کھیلنا بھی اس کی سرشت میں داخل ہے۔

بعض صحابہؓ روحانیت کے غلبہ کے نتیجہ میں یہ خیال کرنے لگے تھے کہ انہیں ہمیشہ عبادات میں سرگرم رہنا چاہیے اور دنیا کے فوائد و لذائذ سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیے۔ کھیل اور تفریح سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں رکھنی چاہیے بلکہ تمام تر توجہ آخرت اور اس کے تقاضوں کی طرف مبذول ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ اسیدیؓ کا قصہ سننے کے قابل ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے کاتب تھے۔

موصوف فرماتے ہیں مجھ سے حضرت ابوبکرؓ ملے اور پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: حنظلہ منافق ہوگیا۔ فرمایا: سبحان اللہ، کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: جب ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں ہوتے ہیں اور آپﷺ جنت اور دوزخ کا ذکر فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم اپنی آنکھوں سے جنت و دوزخ کو دیکھ رہے ہیں لیکن جب آپﷺ کی صحبت میں نہیں رہتے تو عورتوں، بچوں اور کاروبار میں دل لگ جاتا ہے اور جنت و دوزخ کو ہم بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: قسم بخدا ہمارا بھی یہی حال ہے۔ حنظلہ کہتے ہیں کہ پھر میں اور حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! حنظلہ منافق ہوگیا۔ آپﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا :یا رسول اللہﷺ! جب ہم آپ کی خدمت میں رہتے ہیں اور آپ جنت و دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ رہے ہیں لیکن جب آپ ﷺ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو بیوی، بچوں اور کاربار میں دل لگ جاتا ہے اور جنت و دوزخ کو ہم بھول جاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میری صحبت میں تم جو کیفیت محسوس کرتے ہو، اگر اسی پر قائم رہتے اور جنت اور دوزخ کو اسی طرح یاد رکھتے تو فرشتے آکر تم سے بستروں اور راستوں میں مصافحہ کرتے لیکن اے حنظلہ! ہمیشہ یکساں کیفیت نہیں رہتی۔ (مسلم)

آپﷺ کی حیات طیبہ انسانی زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ ﷺ خلوت میں خشوع و خضوع کے ساتھ اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے کہ آپ کے قدموں پر ورم آجاتا۔ آپ ﷺ کا اسوہ حق کے معاملہ میں یہ تھا کہ اللہ کی خاطر کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ پاکیزہ چیزوں کو پسند فرماتے، خو ش ہونا، مسکرانا اور ہنسی، دل لگی کرنا آپ کے مزاج مبارک کی خصوصیات تھیں۔ البتہ آپ ﷺ کوئی ایسی بات نہ فرماتے جو خلافِ حق ہوتی۔

’’خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں پریشانی اور غم سے‘‘ (ابوداؤد)

آپ ﷺ جس طرح خوش طبعی فرماتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوگا کہ ایک بڑھیا حاضرِ خدمت ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ میرے لیے جنت کی دعا کیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جنت میں کوئی بڑھیا داخل نہیں ہوگی۔ یہ سن کر بڑھیا گھبراگئی اور رونے لگی۔ آپ ﷺ نے اس کا یہ حال دیکھ کر فرمایا: بڑھیا بڑھاپے کی حالت میں نہیں داخل ہوگی، بلکہ اللہ اسے نئی خلقت عطا فرمائے گا اور وہ نوجوان کنواری بن کر داخل ہوگی۔ آپ ﷺ نے اس کی تائید میں یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’ہم ان کو خاص طور پر نئی خلقت عطا کریں گے اور انہیں باکرہ بنائیں گے اپنے شوہروں کو محبوب رکھنے والیاں اور ہم عمر۔‘‘ (الواقعہ)

اسی طرح صحابہﷺ جیسے پاکیزہ نفوس ہنستے کھیلتے اور دل لگی کی باتیں کرتے تھے۔ وہ اپنی فطرت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے نفس کو محظوظ کرتے اور راحتِ قلب کا سامان کرتے تاکہ تازہ دم ہوکر سبک رفتاری کے ساتھ کام کرسکیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’جسم کی طرح دل کو بھی تکان لاحق ہوتی ہے لہٰذا تکان کو ہلکا کرنے کے لیے عجائب حکمت بیان کرو۔‘‘ نیز فرمایا: ’’دلوں کو وقفہ وقفہ سے آرام دو کیونکہ دل کی ناخوشگواری اسے اندھا کردیتی ہے۔‘‘

ابودرداءؓ فرماتے ہیں: ’’میں اپنے نفس کو کسی قدر باطل سے دل لگی کرنے دیتا ہوں تاکہ اس سے حق پر چلنے میں مدد ملے۔‘‘

غرض یہ کہ ہنسی مذاق کی باتیں کرنے میں جس سے انبساط کی کیفیت پیدا ہو کوئی حرج نہیں ہے،اور نہ اس بات میں کوئی حرج ہے کہ مباح کھیل کے ذریعے اپنے دل کو اور اپنے ساتھیوں کے دل کو بہلانے کا سامان کیا جائے بشرطیکہ اسے مستقل عادت نہ بنالیا جائے کہ صبح و شام کا مشغلہ یہی بن کر رہ جائے جس کے نتیجے میں آدمی اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتنے لگے، نیز جہاں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہو وہاں بھی ہنسی مذاق کرنے لگے اسی لیے کسی نے کہا ہے:

’’بات چیت میں ہنسی مذاق اسی قدر ہونا چاہیے، جس قدر کہ کھانے میں نمک۔‘‘

اسی طرح مسلمان کا یہ کام بھی نہیں کہ وہ لوگوں کی عزت اور ان کی قدرومنزلت کا خیال نہ کرے۔ اوران کا مذاق اڑانے لگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے ایمان والو! لوگ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘ (الحجرات)

اور نہ یہ بات روا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ سے کام لے۔ اس سے بچنے کی ہدایت کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا ہے:

’’تباہی ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹی باتیں کرتا ہے۔ اس کے لیے تباہی ہے، اس کے لیے تباہی ہے۔‘‘ (ترمذی)

کھیل کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو نفس کے لیے باعثِ سکون، دل کے لیے خوش کن اور سماعت میں رس گھولنے والی ہے اور وہ ہے گانا۔ اسلام نے اس کو مباح قرار دیا ہے۔ بشرطیکہ وہ فحش کلامی، بدکلامی یا گناہ پر ابھارنے والی باتوں پر مشتمل نہ ہو۔ اگر اس کے ساتھ ایسی موسیقی ہو، جس سے جذبات برانگیختہ نہ ہوتے ہوں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خوشی کے مواقع پر اظہارِ مسرت کے لیے یہ چیزیں پسندیدہ ہیں مثلا: عید، شادی، مہمان کی آمد، ولیمہ، عقیقہ اور بچوں کی ولادت وغیرہ کے موقع پر۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت کی انصار کے ایک شخص سے شادی ہوئی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:

’’اے عائشہ! ان کے ساتھ لھو (تفریح طبع کا کوئی سامان) نہیں ہے؟ کیونکہ انصار لھو پسند کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری)

ابن عباسؓ فرماتے ہیں : حضرت عائشہؓ نے اپنی ایک قرابت دار انصاریہ کی شادی کردی۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: دلہن کو تم نے روانہ کردیا۔ لوگوں نے کہا: جی ہاں! فرمایا: اس کے ساتھ کسی ایسی لڑکی کو نہیں بھیجا جو گائے۔ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: انصار کو گانے کا شوق ہے، اس لیے تم اس کے ساتھ کسی ایسی لڑکی کو بھیجتے جو یہ گاتی: ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے۔ اللہ ہمیں بھی زندہ رکھے اور تمہیں بھی، تو اچھا ہوتا۔‘‘ (ابن ماجہ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوبکرؓ ان کے پاس تشریف لائے تو دو لڑکیاں ایام منیٰ میں گا بجارہی تھیں اور نبی ﷺ کپڑا اوڑھے لیٹ گئے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں ڈانٹا تو نبی ﷺ نے اپنے چہرہ سے کپڑا ہٹا لیا اور فرمایا:

’’ابوبکرؓ، انہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ عید کے دن ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)

امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں مذکورہ حدیث اور حبشیوں کے مسجد میں کھیل والی حدیث نیز حضرت عائشہ کے اپنی سہیلیوں کے ساتھ گڑیوں کے کھیلنے کی حدیث بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ سب حدیثیں صحیحین کی ہیں اور اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ گانا اورکھیل حرام نہیں ہے اور یہ جواز پر دلالت کرتی ہیں۔

پہلی بات یہ کہ یہ کھیل اور حبشی رقص و لعب کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس فعل کا صدور مسجد میں ہوا۔تیسری بات یہ کہ نبی ﷺ نے فرمایا: راہِ خدا اپنا کھیل جاری رکھو۔‘‘ جب کھیل کو جاری رکھنے کا حکم دیا گیا تھا تو کس طرح حرام ہوگا؟چوتھی بات یہ کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو آپ ﷺ نے روکنے سے منع فرمایا اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ یہ عید کا دن ہے یعنی وقت سرور ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حبشیوں کے کھیل کا مشاہدہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ دیر تک کیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں اور بچوں کو کھیل دکھا کر ان کے دلوں کو خوش کرنا حسن اخلاق ہے اور زہد کی سختی اختیار کرکے اس سے رک جانے اور روکنے کے مقابلے میں بہتر ہے۔ چھٹی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے ابتدا میں یہ فرمایا: کیا تم اسے دیکھنا پسند کرتی ہو؟‘‘ ساتویں بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے گانا گانے اور دف بجانے کی لڑکیوں کو اجازت دی۔ امام غزالیؒ نے کتاب السماع میں ان تمام باتوں کا ذکر کیا ہے۔

بکثرت صحابہ و تابعین سے روایت ہے کہ وہ گانا سنتے تھے اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے۔ رہیں اس سلسلے کی احادیث تو وہ سب مجروح ہیں اور کوئی حدیث بھی ایسی نہیں ہے کہ علماء اور فقہائے حدیث نے اس پر کلام نہ کیا ہو۔ قاضی ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

گانے کی حرمت سے متعلق کوئی حدیث بھی صحیح نہیں ہے۔ ابن حزم کہتے ہیں: اس سلسلہ کی تمام روایتیں باطل اور موضوع ہیں۔

اکثر گانے اور موسیقی کا استعمال عیش و عشرت کے موقع پر، شراب کی محفلوں اور شب بیداری کی مجلسوں میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے علماء کہتے ہیں کہ گانا ’’لہو الحدیث‘‘ میں شامل ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے:

اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو ’’لہو الحدیث‘‘ خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے بغیر علم کے بھٹکا دیں اور اس راستہ کا مذاق اڑائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘

ابن حزم کہتے ہیں ’’جو شخص لہو الحدیث کا مرتکب ہو اس کا وصف آیت نے بیان کیا ہے کہ وہ کافر ہے، بلا اختلاف، جب کہ وہ اللہ کی راہ کا مذاق اڑائے تو وہ کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی مذمت کی ہے۔ اس شخص کی ہرگز مذمت نہیں کی ہے جو ’’لہوالحدیث‘‘ کو گمراہ کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ کھیلنے کی غرض سے خریدے اور اس سے خوش طبعی کا سامان کرے۔

ابن حزم نے ان لوگوں کی تردید میں جو کہتے ہیں کہ گانا جب حق نہیں ہے تو لازماً گمراہی ہے، لکھا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے، لہٰذا جس نے گانا اس نیت سے سنا کہ اس سے گناہ کے کام میں مدد ملے تو وہ فاسق ہے۔ جس نے خوش طبعی کی نیت سے سنا تاکہ اطاعت الٰہی کے کاموں سے دلچسپی پیدا ہو تو اس کا یہ فعل حق ہے اور جو شخص نہ اطاعت کی نیت سے سنے اور نہ معصیت کی نیت سے تو وہ لغو کے حکم میں ہے ، معاف ہے۔ ایسے شخص کا معاملہ اس شخص کا سا ہے جو تفریحاً باغ کی سیر کے لیے نکل پڑے یا اپنے دروازے پر تماش بین بن کر بیٹھ جائے۔ تاہم گانے کے معاملے میں درج ذیل قیود کو لازماً ملحوظ رکھنا چاہیے۔

۱- گانے کا موضوع اسلام کی تہذیب اور اس کی تعلیم کے خلاف نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر گانے میں شراب کی تعریف کی گئی ہو یا اس کے پینے کی ترغیب موجود ہو تو ایسے گانے کو گانا بھی حرام ہوگا اور سننا بھی۔

۲- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ گانے کا موضوع اسلام کی ہدایت کے خلاف نہیں ہوتا لیکن گانے کا طریقہ ایسا ہوتا ہے جو اس کو دائرہ حلّت سے نکال کر دائرہ حرمت میں لے آتا ہے۔ مثلاً ناز و ادا کے ساتھ گانا، غیر اخلاقی انداز اختیار کرنا،نیز جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والے فتنہ پرور اور شہوت انگیز طور طریقے اختیار کرنا وغیرہ۔

۳- جس طرح دین ہر چیز میں غلو اور زیادتی کا مخالف ہے حتی کہ عبادات کے معاملے میں بھی، اسی طرح لہو کے معاملے میں بھی زیادتی کا مخالف ہے۔ اس میں زیادہ وقت صرف کرنا صحیح نہیں ہے جبکہ وقت سرمایۂ حیات ہے۔

۴- بعض گانے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سننے والا خود اپنے نفس سے فتویٰ پوچھ سکتا ہے۔ اگر گانا ایسا ہو کہ اس سے اس کے جذبات برانگیختہ ہورہے ہوں اور اس کو فتنہ پر ابھارا جارہا ہو، نیز روحانیت کے مقابلے میں حیوانیت کا غلبہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس دروازہ کو بند کردینا چاہیے جس سے فتنہ کی ہوا اس کے دین و اخلاق کی طرف چلے۔

۵- اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ گانے کے ساتھ اگر کوئی حرام چیز شامل ہوجائے مثلاً محفل شراب یا عیاشی اور بداخلاقی کی قسم کی یا اور کوئی چیز تو ایسی صورت میں گانا حرام ہوگا۔ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ نے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں