اسلام میں حیا کا تصور

سعدیہ اختر عندالیب

حیا اسلام کے ماننے والوں کی بنیادی صفت ہے۔ اسے اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اسے اسلام کا جز قرار دیا گیا ہے۔ یہ صفت اتنی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ اہلِ ایمان کی پوری زندگی کو اپنے گھیرے میں رکھتی ہے۔
عام طور سے شرم و حیا اس صفت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے انسان ہر برے، فحش اور ناپسندیدہ کام سے پرہیز کرے۔ صفتِ حیا اللہ تعالیٰ کو بہت ہی محبوب ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحب زادی کا ذکر فرمایا ہے کہ جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے لیے آئیں تو ان کی چال ڈھال میں ایک شرمیلا پن تھا، چنانچہ اسی وصف کو ذکر فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی۔‘‘ سوچنے کی بات ہے کہ جب باحیا انسان کی رفتار و گفتار اللہ کو اتنی پسند ہے تو اس کا کردار کتنا پسند ہوگا۔ اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حیا ایمان کا جز ہے۔‘‘ اور ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: ’’حیا خیر بھی لاتی ہے۔‘‘ یعنی انسان میں جس قدر حیا ہوگی اس کے اندر اتنا ہی خیر ہوگا۔ حیا کی وجہ سے انسان کے ہر عمل میں حسن و جمال پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد گرامی ہے: ’’جب تم کو شرم نہ آئے تو جو چاہو کرو۔‘‘ اس حدیث میں انسانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تم میں حیا جیسی قیمتی صفت موجود ہی نہیں ہے تو جو چاہے کرتے پھر، چاہے برائی کرو، چاہے بے لباس رہو۔ اسلام سے ایسے شخص کا کوئی واسطہ نہیں کیونکہ حیا مومن کی صفت لازمی ہے۔ جبکہ ایک بے حیا انسان اس صفت سے عاری ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان حیا کی وجہ سے ہی پاکیزگی اور پاکدامنی کی زندگی گزارتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حیا و پاکدامنی لازم و ملزوم ہیں۔
اس کی وضاحت عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت سے ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ عزوجل سے حیاء کرو جس طرح کہ حیا کرنے کا حق ہے۔ ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول الحمدللہ ہم سب حیا دار ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : اس طرح نہیں! حقیقت میں جو اللہ سے پوری طرح حیا کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے دماغ اور اس میں آنے والے افکار سے اس کی حفاظت کرے۔ اور وہ اپنے پیٹ اور اس میں جانے والی غذا کی (حرام غذا سے) حفاظت کرے، اور اسے چاہیے کہ وہ موت اور اس کی آزمائش کو یاد کرے۔ اور جو شخص آخرت کا طالب ہوتا ہے وہ دنیا کی زینت کو چھوڑ دیتا ہے۔ جس نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے ایسے حیا کی جیسے کرنے کا حق ہے۔‘‘ (مسند احمد)
حیا کوئی معمولی صفت نہیں ہے، اس کے بے شمار فائدے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔ حیاء و پاکدامنی اختیا کرنے والوں پر اللہ کا خاص کرم اور خاص رحمت ہوگی، حیاء و پاکدامنی کا بدلہ حیاء و پاکدامنی سے ہی ملے گا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ’’پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔‘‘ (النور) حیاء کی وجہ سے فتنہ فساد سے لوگ مامون و محفوظ رہیں گے۔ حیا کی وجہ چہرے پر نور آجاتا ہے اور اس کی زندگی میں برکت آجاتی ہے۔ باحیا اور پاکدامن لوگوں کو دنیا میں بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کا اکرام کیا جاتا ہے۔ حیا دار انسان گناہوں میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔ یہ تو صرف چند دنیاوی فائدے ہیں آخرت کے فائدے تو بے شمار ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ کس کس طرح ایک با حیا انسان کو اعزاز و اکرام سے نوازیں گے۔ اس کے برعکس ایک بے حیا انسان اللہ کے نزدیک بہت ہی ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ بے حیائی انسانی کو گناہوں پر ابھارتی ہے۔ سماج میں فتنہ و فساد اور بگاڑ کا سبب بنتی ہے، بے حیا انسان شیطان کا دوست ہوتا ہے۔ بے حیا انسان دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل وخوار ہوتا ہے اور بے حیائی کی وجہ سے انسان طرح طرح کی بیماریوں کا شکار بن جاتا ہے اور اس سے اچھے عمل کی توفیق چھن جاتی ہے۔
قرآن کریم میں بے حیائی کے لیے لفظ ’’فحش‘‘ استعمال ہوا ہے اور بے حیائی سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور اپنی نظروں کو نیچی رکھنے، ساتر لباس استعمال کرنے، مخلوط محفلوں میں جانے سے اجتناب کرنے، اپنے آپ کی نمائش کرنے اور بے جا زینت نہ اختیار کرنے اور غیر اسلامی رسم و رواج کو اختیار نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ہر اس ذریعے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے جو بے حیائی کی طرف مائل کرے۔
ہر دور کا کوئی نہ کوئی فتنہ ہوتا ہے آج کے دور کا فتنہ بے حیائی ہے۔ ہماری نوجوان نسل عریانی اور فحاشی کے سیلاب میں بہتی چلی جارہی ہے، آج سے نصف صدی پہلے جو عریانی اور فحاشی کا ایک سیلاب مغرب سے اٹھا تھا اس کے نتائج بہت ہی بھیانک روپ میں سامنے آرہے ہیں۔ مغربی تہذیب میں حیاء و پاکدامنی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، نہ ہی محرم اور نامحرم کی کوئی قید ہے، اس کے نتائج سامنے ہیں۔ ایڈس جیسے مہلک مرض میں سماج مبتلا ہے اور خاندانی نظام تباہ ہوگیا ہے۔ جرائم اور خود کشی کا فروغ طوفانی رفتار سے ہورہا ہے۔
اہلِ مغرب نے اسلام کے خلاف ایک غلط پروپیگنڈہ کیا ہے کہ اسلام عورتوں کو گھر میں بٹھا دیتا ہے اسے آزادی نہیں دی گئی لیکن وہ یہ نہیں جانتے کے اسلام ایسی آزادی کا قائل نہیں جو عورت کو اس کے مقام سے گراکر قعر مذلت میں ڈال دے بلکہ اسلام نے عورت کو حیا کی چادر دے کر اسے اونچی مسند پر بٹھایا ہے آج بھئی کئی مسلمان عورتیں ہیں جو حیا اور پردہ میں رہ کر جاب کررہی ہیں، دعوتی کام کررہی ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں ایسی ہی عورتوں اور لڑکیوں نے اسلام کی مشعل کو اپنے نیک اعمال سے روشن کررکھا ہے اور حقیقتاً ایک مسلمان عورت ایسی ہی ہوتی ہے بقول شاعر
حمیت کی تصویر، پتلی حیا کی
دلوں کا اجالا، گھروں کی تجلی
مجسم شرافت، سراپا محبت
مسلمان عورت، مسلمان عورت
اصل میں اسلام ہی سارے مسائل کا حل ہے لیکن ضرورت ہے اسے صحیح طریقے سے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں