قبل از اسلام عورت کی زبوں حالی کی داستان تاریخ ہستی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ تمام قوموں میں عورت کی حالت ناقابل برداشت تھی۔ وہ جو روستم اور غلامی کے ایسے خطرناک مصائب برداشت کرتی تھی جو انسانیت کے قطعی منافی تھے۔ سماج میں عورت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔ وہ جانوروں اور تجارتی سامان کی طرح فروخت کی جاتی اور خریدی جاتی تھی بلکہ میراث میں ہی منتقل ہوتی تھی مگر خود کسی چیز کی وارث نہیں بنتی تھی۔ اسے بدکاری پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اس معاشرے میں حیوانوں سے بھی بدتر سلوک نے عورتوں کو سب سے مظلوم طبقہ بنا دیا تھا۔ اس سلسلے میں ہر قومیت کا اپنا معیار تھا مثلاً عربوں میں لڑکی کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ عیسائیت میں عورت کو گناہ کی محرک سمجھا جاتا تھا۔ ہندؤں کے نزدیک عورت بے وفا اور خائن تھی۔ رومیوں کے نزدیک عورت ناپاک حیوان تھی، جس کے اندر روح نہیں تھی۔
اس زمانے میں جب عورت کو بے زبان جانور یا شیطان سمجھا جاتا اور اسے انسانی جنس سے الگ خیال کیا جاتا تھا قرآن نے آکر یہ واضح کر دیا کہ عورت اور مرد ایک ہی جنس سے ہیں بلکہ انسانیت کی تکمیل ان دونوں کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ سورۃ النساء کی درج ذیل آیت مبارکہ میں اس پہلو کے بارے میں یوں بیان ہے کہ ’’مردوں کو اپنے کیے کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنے کیے کا حصہ ہے۔‘‘
حضور پاکﷺ نے عورتوں کو وہ مرتبہ و مقام دیا جو ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کا باعث بنا۔ آپﷺ نے عورتوں کے مقام کو بلند کیا، اسے کسمپرسی کے عالم سے نکالا، اور ذات کا شعور بخشا۔ اسلام کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ انسان خواہ مرد ہو یا عورت اس کی عظمت وعفت پامال ہو اور ان کے اخلاق و اعمال کی گندگی دنیا کو متعفن کر ڈالے۔
چناں چہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبائل میں اس لیے تقسیم کیا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ (ورنہ) در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے شریف ترین انسان وہی ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘
دوسری آیت میں مذکور ہے۔
’’اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس میں سے ان کا جوڑا بنایا اور ان دونوں میں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کا اضافہ کیا۔‘‘
حدیث میں بھی مذکور ہے کہ عورتیں مردوں کا لازمی حصہ ہیں۔ خود حضورﷺ نے پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ بیوہ خاتون سے شادی کر کے مظلوم زمانہ عورت کو بلند و بالا مقام پر فائز کیا۔ آپ نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے تمدنی زندگی کی تمام رحمتوں سے مالامال کر دیا اور اسے وہ شان و شوکت، عظمت وتمکنت اور عزت و وقار بخشا کہ اس کی قدر و منزلت کی انتہا کردی۔ اسے یہ حق عطا فرمایا کہ اگر عورت اپنی رضا مندی کا اظہار نہ کرے تو اس کی خوش نودی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے بعد اس صنف نازک کی عظمت کو تاجدار عرب و عجم نے یہ ارشاد فرماکر دوبالا کر دیا کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں کے تلے ہے۔‘‘
تربیت، اخلاق، عقیدے اور توحید پر مبنی معاشرے ایک کامیاب زندگی، روشن تاریخ اور تابندہ قوم جنم لیتی ہے، جس کی نقیب فاطمہؓ اور جس کی قائد زینبؓ ہیں۔ یہی معاشرہ مثالی ہے اور اسی معاشرے میں عورت ایسا گھر، ایسا خاندان اور ایسی قوم بناتی ہے جو نئے سے نئے انکشافات سے دنیا کو فیض یاب کرتے ہیں۔
اسلام نے عورت کو معاشرتی کاموں میں حصہ لینے کی اجازت دی ہے چناں چہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ وہ مومنوں کے ساتھ مل کر تبلیغ اسلام کریں نیک کام کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ مردوں کے ساتھ خیر کے کاموں میں تعاون کریں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیک کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں نیز اللہ اور اس کے رسولؒ کی اطاعت کرتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ عزت اور حکمت والا ہے۔‘‘
چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورتیںمذہبی شعائر اور اجتماعی عبادتوں میں مردوں کے ساتھ شریک ہوتی تھیں جیساکہ باجماعت نماز، جمعہ کی نماز اور عیدین کی نماز ہے۔ ہم دیکھتے ہیں وہ ہجرت بھی کرتی ہے، جہاد بھی کرتی ہے، تبلیغ بھی کرتی ہے اور ان تبلیغی احکام میں خلفائے راشدین، بادشاہوں اور حکام پر تنقید کرنا بھی شامل ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضٰ اللہ عنہ نے جب یہ مشاہدہ فرمایا کہ عورتوں کے مہر بہت زیادہ ہو رہے ہیں تو آپ کے دل میں یہ خیال آیا کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ اس لیے آپ نے منع کیا کہ چار سو درہم سے زیادہ مہر نہ بڑھایا جائے۔ اس پر قریش کی عورتوں نے اعتراض کیا او رکہنے لگیں کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ان میں سے کسی ایک کو خزانہ دے دو تو اس میں سے کوئی چیز واپس نہ لو۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا اے اللہ معاف فرما۔ ہر آدمی عمرؓ سے زیادہ سمجھ دار ہے۔ ایک روایت کے مطابق الفاظ یہ ہیں:
’’ایک عورت نے صحیح بات کہی اور عمر نے غلطی کی۔‘‘ یہ کہہ کر اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔
اسلام میں عورتوں کے معاشرتی کردار پر تاریخ اسلام کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ نے اپنے زمانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ او راپنے محاسن و فضائل کی بدولت ایسا نام چھوڑا جس کی آئندہ نسلوں نے عزت کی۔ حضرت امام حسینؓ کی بیٹی اور حضرت علی کی پوتی جناب سکینہ نے میدان کربلا میں جس طرح صبر و استقامت سے تکالیف جھیلیں وہ اپنی جگہ مستحسن۔ تاریخ میں ہے کہ جناب سکینہ اپنے زمانے کی باکمال اور ذہین بی بی تھیں اور آپؐ کو علماء کی مجلسوں میں شرکت بہت مرغوب تھی۔ رسول خداﷺ کی ازواج مطہرات اور خاندان نبوی کی دیگر خواتین بھی علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں برگزیدہ تھیں۔
خلیفہ مامون الرشید کی بیوی ان کی بہن ام الفضل اور مامون الرشید کی بیٹی اپنے زمانے میں علم و فضل میں یکتا تھیں۔
پانچویں صدی ہجری میں فخر النساء بغداد کی جامع مسجد میں بڑے بڑے مجمعوں سے خطاب کیا کرتی تھیں۔ ادب، بیان و بلاغت او رشاعری میں انہیں ممتاز ترین درجہ حاصل تھا۔ وہ کئی جنگوں میں شریک اور مردوں کے شانہ بشانہ تیغ آزما ہوئیں۔
اسلامی تعلیمات میں عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ علم سیکھا۔ یہاں تک کہ بہت سی خواتین احادیث اور آثار نبوی کی روایت بھی کرتی تھیں۔ بہت سی ادیبہ اور شاعرہ تھیں۔ نیز دیگر علوم و فنون میں بھی مسلم خواتین مشہور ہوئیں۔ بلکہ شرعی احکام کی پابندی سے احادیث اور شعر و ادب کے فنون میں بے شمار خواتین مردوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔ رسول کریمؐ کی ازواجِ مطہرات، خواتین کے لیے تعلیم و تبلیغ کے فرائض سر انجام دیتی تھیں بلکہ مرد بھی مشکل شرعی احکام معلوم کرنے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔ خواتین کی تعلیم و تربیت پر آں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زور دینے کا بڑا سبب ایک اچھے معاشرے کی تشکیل تھا۔ آپ لونڈیوں کو آزاد کرا کر تعلیم و تربیت کی طرف راغب کرتے تھے کہ ایک ماں سے بڑھ کر علم و ہنر کا سر چشمہ کوئی اور نہیں بن سکتا۔ آپ کے ارشادات میں کسی اور معلم کی تعلیمات سے زیادہ عورتوں کے بارے میں فیاضی اور بہادری کی روح رچی ہوئی ہے۔
حضرت فاطمہ الزہرا خاتون جنت ان تمام قدسی صفات کا مجموعہ تھیں جو خدا نے عورت کی ذات میں ودیعت کی ہیں، یعنی خلوص، صداقت اور پاکیزگی اور تمام صفات محمودہ جو انسان کے مثالی کمال کی آئینہ دار ہیں۔ ان سے ایسی خواتین کا سلسلہ شروع ہوا، جن کے محاسن و فضائل نے صنف اناث کو چار چاند لگا دیے۔ تاریخ جن کے شاندار کارناموں سے بھری پڑی ہے۔
عورتوں کے حقوق و معاملات میں اسلامی شریعت نے ہمہ گیر اصلاح کی۔ یہی وجہ ہے کہ جور و ستم اور جہالت کے بوجھ تلے دبی ہوئی عورت کی قدر و منزلت بڑھ گئی۔ اور نہ صرف وہ قوم کے جسم کا کارآمد عضو بن گئی بلکہ سماجی تعمیر کے لیے بھی مستحکم ستون ثابت ہوئی اور اس نے ایسے ایسے سپوت پیدا کیے جنہوں نے اسلامی معاشرے کو افضل ترین معاشرہ بنا دیا، جن کا اجر خدا کے پاس ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
’’اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بہشت کا وعدہ کیا ہے، جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور جنت میں ان کے لیے پاکیزہ گھر ہوں گے اور اللہ کی رضا مندی بھی حاصل ہوگی جو سب سے بڑی بات ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
معلوم ہو اکہ عورت نہ صرف دینی طور پر مرد کے برابر ہے بلکہ وہ ایسا مستحکم و معاون ستون ہے جس سے معاشرے میں دین کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو پنپنے کے لیے شادی کو ضروری عمل قرار دیا اس سلسلے میں عورت کو مکمل مذہبی اور معاشرتی آزادی دی ہے چناں چہ فرمایا گیا ہے:
’’اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تم میں سے تمہاری بیویاں تمہارے لیے پید اکیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کی۔‘‘
اسلام میں خواتین کو ان کے شوہروں کے گھروں کا محافظ بنایا گیا ہے جس میں انہیں ایک حاکم کے حقوق حاصل ہیں۔ جس میں ان پر فرائض و ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اس طرح انہیں ایسا درجہ ملا جس میں عزت و احترام اور قدردانی کے تمام معانی پوشیدہ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺکو کہتے سنا ہے کہ:
’’تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ داریا ہے… اور عورت بھی اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اپنی رعایا کی ذمہ دار ہے…‘‘
کوئی آسمانی یا انسانی شریعت قدیم یا جدید عہد کی ایسی نہیں جس نے خواتین کے معاملات کو اس قدر قابل اعتناء سمجھا ہو جس قدر اسلام نے اسے اہم سمجھا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں عورت کا معاشرتی کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہے جس کا کوئی مذہب اور کوئی معاشرہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔
آج جب ہم اکیسویں صدی میں سفر کر رہے ہیں تو آج کی عورت محض آزادی کی چکاچوند میں اپنی عزتوں کا جنازہ اٹھواتی نظر آتی ہے۔ وہ اپنا اصل بھول کر بھول بھلیوں میں کھو چکی ہے۔ جب کوئی شخص خواہ مرد ہو یا عورت اپنے اصل سے روگردانی کرتا ہے تو تباہی کے دہانے اسے ہڑپ کرلیتے ہیں