اسلام میں عورتوں کے حقوق

عابدہ مہدی

اسلام ایک ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا ایک نقشہ دیتا ہے۔ اسلام کے ماننے والوں کے حقوق بھی وہ صاف صاف بتاتا ہے اور فرائض بھی۔ ان پر دو قسم کے حقوق ہیں۔ ایک تو اللہ کا حق ہے جس کا تعلق خدا کی عبادت سے ہے۔ جیسے نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوٰۃ، خیرات دینا، حج کرنا اور دوسری عبادتیں – دوسرے حقوق وہ ہیں جو ایک انسان پر دوسرے انسان کے ہیں۔ جن کو حقوق العباد کہا جاتا ہے اور ان کی اہمیت زیادہ بتائی ہے۔ یعنی ایک دوسرے سے میل محبت سے رہنا۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ انصاف کرنا رحم کرنا۔ خود ظلم و نا انصافی نہ کرنا اور جو لوگ ظلم و ناانصافی کررہے ہیں ان کے خلاف مظلوموں کی مدد کرنا۔

اللہ کی کتاب قرآن مجید جس طرح مردوں کی مخاطب کرتی ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہدایات دیتی اور ان سے مطالبات کرتی ہے۔ اسلام کی رو سے دین کے معاملہ میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں سوائے اس کے کہ تقویٰ میں جو آگے ہے وہی افضل ہے۔

رسول اللہﷺ نے پہلے تو قرآن کے حوالے سے ان لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ خدا نے دونوں کو پیداکیا ہے ان کے جوڑے بنائے ہیں کہ یہ دونوں مل کر خاندان بنائیں جسمانی اعتبار سے اگرچہ دونوں میں فرق ہے مگر بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں۔ عورت کو ماں بننے کی فضیلت دی اور اس کے قدموں کے نیچے جنت قرار دی۔

اسلام نے مختلف مذاہب میں عورتوں کی حیثیت کم کرنے کے لیے من گھڑت عقائد کی تردید کی جیسے۔ خدا نے عورت کو کم تر بنایا ہے، وہ فساد کی جڑ ہے، آدمؑ کو جنت سے نکلوانے والی حوا ہیں، وہ شیطان کے بہکانے میں آئیں اور انھوں نے حضرت آدم کو بہکایا وغیرہ۔

اسلام کیونکہ ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کرنا چاہتا ہے اس لیے اس نے اس کام میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق و فرائض واضح اور متعین طور پر بیان کردئیے ہیں۔ خاص طور پر خاندان کی تعمیر و تشکیل میں تو عورتوں کو کلیدی حیثیت دی گئی ہے۔ اسے گھر کی راعیہ (مالکن) قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ خاندانی نظام کو بہتر انداز میں چلانے اور اس کی اصلاح کرنے میں عورت کا کردار اہم ہے۔

آپﷺ نے فرمایا کہ ’’تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی اہل (بیوی) سے اچھا سلوک کرتا ہے۔‘‘ رسول ﷺ کی یہ حدیث بھی ہے کہ ’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو ادب اور سلیقہ سکھایا تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘

اسلام نے عورتوں کو ان کی حیثیت اور ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ ان میں علم کا شوق پیدا کیا۔ اس طرح سماج میں عورت کی حیثیت کو بلند کردیا۔ حضرت عمر کہا کرتے تھے کہ ’’زمانہ جاہلیت میں (اسلام سے پہلے) ہم عورتوں کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے۔ تب اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا تب کہیں جاکر ہمیں احساس ہوا کہ ہم پر عورتوں کا بھی کوئی حق ہوسکتا ہے۔‘‘

اسلام میں عورتوں کے حقوق:

اسلام نے حقوق دیتے ہوئے اس بات کا پورا لحاظ رکھا ہے کہ ان میں مردوں اور عورتوں کی ظاہری اور اوپری برابری نہ ہو کیو ںکہ ان دونوں کی صنف الگ ہے۔ صلاحیتیں بھی مختلف ہیں۔ ذمہ داریاں بھی۔ مگر اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کسی عورت کے ساتھ صرف عورت ہونے کی وجہ سے ناانصافی نہ ہو اور اس کی صلاحیتیں نہ کچلیں جائیں اس کی شخصیت کو نہ دبایا جائے اللہ کے رسول ﷺ نے قرآن کے حوالوں اور اپنے عمل سے عورتوں کی مساوات کا سبق معاشرے کو سکھایا۔ انھوں نے کوشش کی ان حقوق سے مرد بھی واقف ہوں اور عورتیں بھی دونوں ایک دوسرے سے اپنے حقوق حاصل کریں اور فرائض ادا کریں۔ حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں ’’عورتوں نے نبی ﷺ سے کہا کہ آپ کے دربار میں ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے اس طرح سے ہم خاطر خواہ آپ سے استفادہ نہیں کرپاتیں۔ چنانچہ آپﷺ ایک وقت متعین کرکے ان کے پاس تشریف لے گئے وعظ و نصیحت فرمائی اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیا۔ پھر آپ نے مسجد میں عورتوں کے لیے الگ وقت مقرر کیا جس میں عورتیں آپ سے آکر مختلف مسئلوں پر گفتگو کرتیں۔‘‘ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے ’’مسلمان عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو۔‘‘ اس لیے آج بھی عرب ممالک میں عورتوں نماز ادا کرنے مسجدوں میں جاتے ہیں۔قرآن شریف کی ایک آیت ہے:

’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست اور معاون ہیں اچھے کام کی تلقین کرتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں جن پر خدا رحم فرمائے گا بے شک خدا غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ (سورہ توبہ:۹)

اب جبکہ ہم لوگوں کے سامنے اسلام کے عائلی نظام کا تعارف اورمسلم معاشرے کو بے دینی سے نکالنا چاہتے ہیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق و فرائض کے ساتھ عائلی زندگی کے اہم امور سے واقف کرایا جائے تاکہ وہ انہیں جانیں اوروقت ضرورت انہیں استعمال کریں۔ اس لیے کہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں عورت کا شریعت اور احکامات کے سلسلہ میں علم محدود ہے اور شاید یہ لاعلمی ہی بہت سے عائلی مسائل کی جڑ اور خواتین کے استحصال کا سبب ہے۔

عورت کا جائیداد میں حق:

اسلام کی رو سے میت کے ترکے میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ قرآن شریف میں صاف صاف کہا گیا ہے۔ ماں باپ کی جائیداد خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ لڑکیوں کا بھی حصہ ہے۔ (سورئہ نساء:۴) اس طرح عورت میراث کی درج ذیل حیثیتوں میں حصہ دار ہے۔

۱- بیٹی کی حیثیت سے

۲- بیوہ (بیوی) کی حیثیت سے

۳- ماں کی حیثیت سے

۴- دادی / نانی کی حیثیت سے

قرآن نے بہت وضاحت کے ساتھ مختلف حالتوں اور صورتوں میں عورت کے حصہ کی وضاحت کردی ہے۔

اسی طرح اسلام میں عورتوں کو بھی جائیداد خریدنے اور بیچنے کا حق ہے۔ وہ خود اپنی جائیداد کی مالک ہوسکتی ہیں اور اس کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے اور پیسہ کمانے کا بھی حق ہے۔

شادی

اسلام میں خاندان کی شروعات مرد اور عورت کے جائز نکاح سے قائم ہوتی ہے۔ جس کی ایک دوسرے کو پسند کرنا ہے۔ قرآن شریف میں کہا گیا ہے کہ’’ ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں۔‘‘ (النساء:۳) اس پسند اور ناپسند میں عورت کی پسند اور مرضی بھی اتنی ہی اہم ہے، جتنی مرد کی۔ بہت سے واقعات ہیں کہ نزولِ اسلام کے بعد عورتیں رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ شکایت لے کر آئیں کہ ان کی شادی میں ان کی مرضی نہیں لی گئی۔ کچھ کا معاملہ یہ تھا کہ شادی میں مرضی تو ان کی تھی مگر ان کو شوہر کے ساتھ نبھانا ناممکن لگ رہا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم اس شادی کو توڑ دو کیوں کہ بغیر محبت کے شوہر کے ساتھ رہنا اپنے ساتھ بھی نا انصافی ہے اور شوہر کے ساتھ بھی۔ اسلام اس حد تک شادی میں مرضی، پسند، محبت اور مفاہمت کو اہمیت دیتا ہے۔ اور صحیح معنوں میں میاں بیوی کو رفیقِ زندگی اور شریکِ زندگی کا درجہ دیتا ہے۔

قرآن شریف میں کہیں عورتوں کو مردوں کی کھیتی کہا ہے کہیں کہا ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کا لباس ہو۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں کی ایک دوسرے کے لیے کیا اہمیت ہے۔ لباس تہذیب کی نشانی ہے ، گرمی، سردی سے بچاتا ہے، خوبصورت بناتا ہے، کھیتی اس لیے کہ دونوں مل کر بچے پیدا کرتے ہیں۔ کسان کو کھیتوں سے والہانہ عشق ہوتا ہے، وہ ان کی حفاظت کرتا ہے ، ان کو ہر آفتِ عرضی و سماوی سے بچاتا ہے۔ ہر وقت اس کا دل کھیتی اور اس سے متعلق کاروبار میں پڑا رہتا ہے۔ قرآن شریف میں بار بار اس کی تاکید ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا خیال کریں ایک دوسرے کے وفادار رہیں۔ اس لیے عورتوں سے کہا ہے : ’’جو نیک بیویاں ہیں وہ (خاوند کی) اطاعت شعار ہوتی ہیں۔ ان کی غیر حاضری میں بھی ان کے مفاد اور حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ (النساء: ۳۴) مردوں سے کہا (جن کی طرف سے عورتوں پر زیادتیاں ہوتی ہیں) ’’عورتوں کے ساتھ معاشرت (رہنے) میں نیکی اور انصاف کو ملحوظ رکھو۔‘‘ (النسا: ۱۹) دوسری جگہ یہ کہا گیا کہ تمہاری عورتیں تم سے مضبوط عہد کرچکی ہیں (النساء:۲۱) اور اس سے بڑی توقیر عورت کی کیا ہوگی کہ رسول ﷺ نے مردوں سے کہا کہ ’’عورتوں سے نیک سلوک کرو کیوں کہ تم نے انہیں اللہ تعالیٰ سے بطورِ امانت لیا ہے۔‘‘ یہی نہیں آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’تم میں سے سب سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی اور بچوں کے لیے اچھا ہے۔‘‘

مہر

شادی کے وقت شوہر بیوی کو ایک رقم مہر کے طور پر دیتا ہے یہ شوہر کی آمدنی کی مناسبت سے نقد بھی ہوتا ہے اور جائیداد کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے۔ قاعدہ کی رو سے مہر شادی کے وقت شوہر کو ادا کرنا چاہیے۔ اگر نہیں دے سکتا ہے یا نہیں دیتا ہے تو زندگی میں اسے ادا ضرور کرنا چاہیے۔ طلاق کی صورت میں عورت اپنی مرضی سے مہر معاف بھی کرسکتی ہے آدھا یا پورا۔ مگر اس پر زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ نہ طلاق کی یہ شرط ہونی چاہیے کہ عورت کو طلاق تب ملے گی جب وہ مہر معاف کرے گی۔

کم سنی کی شادی بھی جائز نہیں ہے قرآن شریف میں ہے کہ ’’ان سے اس وقت نکاح کرو، جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں۔ ‘‘ (النسا:۶)

طلاق

طلاق اس حیثیت سے ناپسندیدہ ہے کہ اسلام کے مزاج میں رشتوں کو جوڑنا اور رشتوں میں محبت اور مٹھاس پیدا کرنا ہے، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے اور شوہر بیوی کے ایک ساتھ رہنے میں زندگی اجیرن ہونے لگے تو طلاق ہی احسن بن جاتی ہے اور اسلام اس کے احسن طریقہ بیان کرتاہے، جو قرآن میں تفصیل سے سورہ طلاق میں موجود ہے۔

طلاق سے پہلے کوشش ہونی چاہیے کہ میاں بیوی خود ہی صلح کرلیں، جب وہ ناکام ہوجائیں تو پھر بیوی کی طرف کا ایک پنچ اور ایک میاں کی طرف کا، دونوں اپنے اپنے طرف کی پیروی کریں اور صلح کرانے کی کوشش کریں۔ وہ بھی ناکام ہوجائیں تو پھر الگ ہونے کا فیصلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کے بعد طلاق کا عمل تین مہینے میں پورا ہونا چاہیے۔ طلاق کا لفظ منہ سے شوہر کہے پھر ایک مہینے کے وقفہ سے اسے دہرائے پھر بھی اس کا ارادہ نہ بدلے تو ایک مہینے بعد پھر وہ طلاق کا اعلان کرے اور اس دوران میاں بیوی میں جسمانی تعلقات نہیں ہونا چاہیے یہ وقفہ اس لیے دیا گیا ہے کہ فیصلے وقتی غصے میں نہ ہوں اور رائے بدل جائے تو وہ بیوی سے بھر رجوع کرسکتا ہے۔ اگر عورت کو بچہ پیدا ہونے والا ہو تو اس حالت میں طلاق نہیں دی جاسکتی ہے۔ طلاق کے بعد عورت کو تین مہینے کی عدت کرنا ہے، یعنی باہر نہ نکلے نہ لوگوں سے ملے جلے نہ دوسری شادی کرے اور جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے طلاق دے دی ہوا نہیں چاہیے کہ وہ ماہواری کے ایام کے تین مہینوں تک اپنے آپ کو نکاح سے روکے رکھیں اور ان کو جائز نہیں ہے کہ جو چیز اللہ نے ان کے شکم میں پیدا کی ہے وہ اسے چھپائیں۔‘‘ (قرآن)

طلاق کی صورت میں قرآن شریف نے اس بات کی بھی صراحت کردی ہے کہ نہ تو ماں کو بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے نہ باپ کو۔ ’’جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور بیوی کی گود میں بچہ ہو اور وہ ماں سے دودھ پلوانا چاہے تو اس صورت میں چاہیے کہ پورے دو برس تک ماں بچے کو دودھ پلائے۔ اور جس کا بچہ ہے اس پر لازم ہے کہ ماں کے کھانے کپڑے کا انتظام کردے۔ اور یہ انتظام ہر شخص کی حالت اور حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ کسی شخص پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔‘‘ (البقرہ)

خلع

قرآن نے جس طرح مردوں کو طلاق کا حق دیا ہے اسی طرح عورتوں کو خلع کا حق دیا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی کو اندیشہ پیدا ہوجائے کہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے واجبات و حقوق ادا نہیں ہوسکیں گے تو باہمی رضا مندی سے ایسا ہوسکتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ قرآن کہتا ہے:

’’اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ دونوں اللہ کی حدوں پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت کچھ دے کر شوہر سے علیحدگی حاصل کرلے۔ یاد رکھو یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیاں ہیں۔ پس ان سے باہر قدم نہ نکالو اور اپنی حدوں کے اندر رہو۔ جو کوئی اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حد بندیوں سے نکل جائے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں۔ (البقرہ: ۲۲۹)

طلاق اور خلع دونوں کے لیے یہ ہے کہ یہ بحالت مجبوری لے یا دے۔ تین مہینے ایک ایک مہینے کے بعد طلاق کا فیصلہ کرے جب طلاق مکمل ہوجائے تو علیحدگی ہوجائے گی۔یہ سب احکام اس لیے ہیں کہ شادی، طلاق اور خلع کو مذاق نہ بنایا جائے اور معاشرے میں اسی سے افراتفری نہ پیدا ہو۔

طلاق تفویض

یہ حق عورت کو دیا گیا ہے کہ وہ اپنے نکاح نامے میں کچھ شرطیں رکھ سکتی ہے کہ ان کے پورے نہ ہونے کی صورت میں وہ شوہر سے طلاق لے سکتی ہے۔ مثلاً اگر شوہر دوسری شادی کرے گا یا چھپ کر دوسری عورت سے ناجائز تعلقات رکھے گا تو اسے طلاق کا حق ہوگا۔ اور ایسی دوسری شرطیں۔

قرآن شریف نے جس طرح قدم قدم پر عورت کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اس کو نظر میں رکھ کر ہندوستان میں فسخ نکاح (نکاح ختم کرنے والا) قانون ۱۹۳۹ء میں پاس کیا گیا ہے۔ ان صورتوں میں عورت عدالت کی مدد سے مرد سے طلاق لے سکی ہے۔

۱- مرد اس کو مارے پیٹے یا ذہنی طور پر تکلیف پہنچائے۔

۲- بیوی کی جائیداد اس کی مرضی کے بغیر بیچ دے یا اسے بے دخل کرکے خود اس پر قبضہ کرلے۔

۳- ایک سے زیادہ بیوی ہونے کی صورت میں دونوں یا تینوں یا چاروں سے ایک سا سلوک نہ کرے۔

۴- یا مرد بیوی کو کسی خاص مردسے ناجائز تعلقات رکھنے پر مجبور کرے یا اس سے پیشہ کرائے۔

۵- شوہر غائب ہوجائے اور چار سال تک اس کی خیر خبر نہ ملے تو بھی وہ عدالت سے رجوع کرکے طلاق لے سکتی ہے۔

۶- مرد کو کوئی جنسی بیماری ہو تب بھی وہ طلاق لے سکتی ہے۔

۷- اگر کسی لڑکی کی شادی اس کے ماں باپ یا سرپرست نے قبل از وقت کردی ہو تب بھی ۱۸ سال کی ہونے کے بعد وہ اپنی شادی ختم کرسکتی ہے اگر وہ اس شادی کو باقی نہیں رکھنا چاہتی ہے۔

نان و نفقہ (گزارہ)

قرآن شریف میں طلاق کی صورت میں اس مدت تک مرد کو نان ونفقہ (گزارہ) دینے کا حکم جو عدت کا پیریڈ کہا جاتا ہے۔ اس عدت کا مقصد یہ ہے کہ اگر عورت کے حمل ہو تو وہ معلوم ہوجائے اور تصدیق ہو کہ وہ بچہ اس کے شوہر ہی کا ہے اسی لیے بیوہ کے لیے بھی عدت کا حکم ہے۔

مسلمان عورت کے نجی قانون میں یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ اگر شوہر عدت کے دوران بیوی کا خرچ نہ اٹھائے تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔ عدت کے دوران اگر شوہر ختم ہوجائے تو عدالت ان لوگوں کو گزارہ دینے کا حکم دے سکتی ہے۔

۱- عورت کے والدین / شوہر کے والدین

۲- اگر وہ نہ ہوں تو اس کے بھائی

۳- وہ رشتہ دار جو عورت کے شوہر کے جائیداد کے وارث ہوں۔

۴- جس علاقے میں وہ عورت رہتی ہے وہاں کا وقف بورڈ

اسلام میں بیوہ کی حیثیت

اسلام میں بیوہ کی شادی کی اجازت ہے، بلکہ حکم ہے کہ ان کو شادی کرنے سے نہ روکو۔ عرب سماج میں بھی بیوہ کو نہ منحوس سمجھا جاتا نہ اچھوت اگر وہ شادی نہ بھی کرے تو بھی وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکتی تھی۔ مگر ہندوستان میں آکر یہاں کے رسم و رواج قدرتی طور پر مسلمانوں نے بھی اختیار کیے اور بیوہ کو منحوس سمجھا جانے لگا۔

اسلام پوری انسانیت کے لیے انصاف امن وآتشی کا پیام لے کر آیا ہے۔ خاص طور سے ان لوگوں کے لیے جو کمزور ہیں۔یہ وہ پہلا مذہب ہے جس نے کھول کھول کر انسانی زندگی کے لیے احکامات دیے ہیں۔ خاص طور سے عورت کی زندگی کے لیے ایسے احکامات ہیں جن سے ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ اور معاشرہ میں اس کا درجہ بلند ہو وہ اس میں آرام و سکون کی زندگی گزارسکے۔

اسلام نے ہر مسلمان پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ خود قرآن کا مطالعہ کرے، بار بار کرے اور اس کے معنی خودسمجھے اور دوسروں کو سمجھائے۔ عورت کی حیثیت معاشرہ اور خاندان کی معلمہ کی ہے۔ اگر وہ اسلام کی عائلی ہدایات اور قوانین سے خود واقف ہوگی تو پورے خاندان کی رہنما بھی ہوسکے گی اور ایک مضبوط و مستحکم خاندان تشکیل پاسکے گا۔ رشتوں ناطوں کا احترام رہے گا، حقوق ادا کیے جائیں گے اور ہر کام احسن انداز میں انجام پائے گا۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہماری خواتین قرآن وحدیث سے اسلام کی عائلی ہدایات اور اس کے احکام کا تفصیلی مطالعہ کریں اور پورے گھر اور خاندان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں جو معاشرتی اصلاح کی اہم اکائی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں