عالم انسانیت نے آج تک کوئی دین یا تہذیب ایسی نہیں دیکھی جس نے عورت کے معاملے میں اتنی دلچسپی لی اور اہتمام کیا ہو جتنا کہ دین اسلام نے کیا ہے۔ اسلام نے عورت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے۔ اسے سربلند کیا ہے، اعلیٰ مقام دیا ہے اور اس کی قدر و منزلت بڑھائی ہے۔ قابلِ احترام شخصیت قرار دیا ہے، اس کے حقوق متعین کیے ہیں اس کے فرائض و واجبات طے کیے ہیں۔
اسلام نے بتایا ہے کہ وہ دونوں ایک ہی اصل سے پیدا کیے گئے ہیں تاکہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے سے انس و محبت پائیں اور خیر و صلاح کے سایۂ سعادت و خوشی سے سرفراز ہوں۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
النساء شقائق الرجال۔‘‘
اسلامی تعلیمات کی رو سے شرعی احکام میں عورت بھی مرد کی طرح ہے۔ جو مطالبہ مردوں سے ہے وہی عورت سے ہے۔ اور جن افعال کے کرنے یا نہ کرنے پر جوسزا مرد کو ہے وہی عورت کو بھی ہے چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور جو نیک کام کرے گا، مرد ہو یا عورت، اور وہ صاحبِ ایمان ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔‘‘
(النساء: ۱۴۴)
عورت زندگی کے تمام معاملات میں یہاں تک کہ امانتیں سنبھالنے میں بھی مردوں کی طرح ہے۔ سوائے ان معاملات کے جن میں مرد و زن میں فرق کرنے کا مطالبہ کوئی بشری ضرورت یا فطرت و جبلت کریں، اور اسلام میں بنی آدم کی عزت و تکریم کے اصول و قواعد کا یہی تقاضہ ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۷۰)
اسلام نے عورت کی فضیلت اس کا مقام و مرتبہ اور رفعت و شان بیان کرتے ہوئے اسے ایک عظیم نعمت اور اللہ کا ایک قیمتی تحفہ قرار دیا ہے اور اس کی عزت و تکریم اور رعایت و نگرانی یا خاص خیال رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے، بچیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹوں (اولادِ نرینہ) سے نوازتا ہے اور کسی کو نرینہ و مادہ دونوں طرح کی ملی جلی اولاد عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے۔‘‘ (الشوریٰ:۵۰)
مسند احمد میں ہے:
’’جس کے یہاں بچی پیدا ہوئی، اس نے اس کو زندہ درگور نہیں کیا، اس کی اہانت و تحقیر نہیں کی اور نہ ہی لڑکے کو اس پر ترجیح دی، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ عورت اسلامی معاشرے میں پوری عزت و تکریم سے زندگی گزارتی ہے۔ اور یہ عزت و تکریم اسے اس دنیا میں قدم رکھنے سے لے کر زندگی کے تمام حالات سے گزرتے ہوئے حاصل رہتی ہے۔ اسلام نے عورت کے بچپن کی بڑی رعایت کی ہے اور اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور اس پر احسان و حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشادِ نبوی ہے:
’’جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائیں، وہ قیامت کے دن یوں میرے ساتھ (جنت میں) ہوگا اور آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کیا۔‘‘
صحیح مسلم ہی میں ہی ایک اور حدیث میں ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جس کی تین بیٹیاں ہیں اور وہ ان کے معاملہ میں صبر کرے اور اپنی کمائی سے انھیں کپڑا پہنائے (کھلائے پلائے) وہ اس کے لیے جہنم کی راہ میں دیوار بن جائیں گی۔‘‘
اسلام نے عورت کو ماں ہونے کی صورت میں ایک خاص درجہ کے اکرام و احترام سے نوازا ہے اور اس کا خصوصی خیال رکھنے اور خدمت و حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’تیرے رب کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت ہرگز نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۳)
بلکہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کو والد سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ
’’ نبی ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں کس کے ساتھ نیکی و حسنِ سلوک کروں؟‘‘ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ اپنی ماں کے ساتھ۔ اس صحابی (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ۔ اس نے عرض کیا: اس کے بعد؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ پھر اس نے کہا: اس کے بعد؟ تب آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ۔‘‘
اسلام میں بیوی کا درجہ
اسلام نے عورت کے بیوی ہونے کی حیثیت سے بھی بڑے حقوق بیان کیے ہیں اور شوہر پر ان کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا ہے جن میں اس کے ساتھ اچھے طریق، حسن سلوک، نرمی اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی شامل ہے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’خبردار عورتوں سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرو۔ وہ (اللہ کی طر ف سے) تمہارے زیر دست کنزیں ہیں۔‘‘
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اورتم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کے لیے اچھا ہے۔
اسلام نے عورت کے بہن، پھوپھی، اور خالہ ہونے کی صورت میں بھی ان کے حقوق کا بڑا خیال رکھا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا رہا تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (ابوداؤد، ترمذی)
عورت چاہے کوئی بھی ہو
عورت کے اجنبی ہونے کی شکل میں بھی اسلام نے اسکی مدد و تعاون کرنے اور اس کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے۔ چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے:
’’کسی بیوہ و مسکین کی مدد کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ کوئی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو، یا پھر وہ ایسا ہے جیسے کوئی بلاناغہ راتوں کو تہجد پڑھنے والا ہو، یا پھر کوئی مسلسل روزے رکھنے والا ہو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسلام میں عورت کی معاشرتی حیثیت اور اس کا مقام و مرتبہ بڑا بلند اور محفوظ ہے۔ اسے تمام حقوق حاصل ہیں اور اسلام نے ان کے دفاع و تحفظ کی ذمہ داری لی ہے اور اگر کسی طرف سے لاپرواہی یا حقوق کی پامالی ہورہی ہو تو اسے اپنے حقوق طلب کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’صاحب حق کو مطالبہ کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
حق خود ارادی
اسلام نے عورت کو اپنی زندگی میں حق اختیار و خود ارادی عطا کیا ہے وہ اپنی زندگی کے معاملات میں تصرف کا حق رکھتی ہے۔ شرعی قواعد میں سے ہی ایک قاعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’انھیں (نکاح کرنے سے) مت روکو۔‘‘ (البقرہ: ۲۳۲)
ایسے ہی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’کسی بیوہ و مطلقہ عورت سے اس کی زبانی اجازت لیے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے اور کسی کنواری لڑکی سے اجازت کا اشارہ لیے بغیر اس کا نکاح نہ کیا جائے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اسلام کی نظر میں عورت ایک قابلِ اعتماد شخصیت ہے اور اس سے مشورہ بھی روا ہے، حتی کہ خود نبی اکرم ﷺ نے بھی جو تمام انسانوں سے زیادہ علم والے اور سب سے بڑھ کر صائب الرائے تھے، اپنی بیویوں سے کئی مواقع اور بڑے اہم مسائل و معاملات میں مشورہ لیے تھے۔
اسلام میں عورت کو تجارت کرنے کے علاوہ مکمل اقتصادی آزادی حاصل ہے۔ وہ بھی مرد کی طرح ہر جائز طریقہ و شکل سے کمائی کرسکتی ہے۔ وہ اپنے مال و جائیداد میں اپنی مرضی سے جو چاہے تصرف کرسکتی ہے، اس پر کہیں بھی اور کوئی بھی جبرا وصی وسرپرست یاولینہیں بن سکتا۔
صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے عورت کو اقتصادی تحفظ دینا بھی فرض قرار دیا ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ اس کی اسلام سے قبل کسی دوسرے دین میں مثال تک نہیں ملتی۔ اسلام نے عورت کے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی حتی کہ اجنی ہونے کی شکل میں بھی اس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری اٹھائی ہے، تاکہ وہ کام کاج کرنے اور کمانے کی تمام فکروں سے آزاد ہوکر پورے اطمینان قلب سے اپنے فرائض منصبی اور فطری ذمہ داریاں ادا کرسکے۔
اسلام میں عورت کے مقام و مرتبہ کی یہ چند جھلکیاں دیکھنے کے بعد موجودہ معاشرہ اور آزادیِ نسواں اور مساوات مرد وزن کے نعروں پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی ہدایات ان تمام نعروں اور کوششوں سے کس قدر برتر اور اعلیٰ وارفع ہیں۔ اور اگر آج کا مسلم معاشرہ خواتین کو وہ تمام حقوق و آزادی فراہم کرکے مثال قائم کردے جو واقعی اسلام نے عورت کو دئے ہیں تو دنیا کی تمام عورتیں جدید تہذیب کو چھوڑ کر اسلام کے زیر سایہ ہی رہنا پسند کریں گی۔
بزمِ حجاب