[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

اسلام میں عورت کا مقام

ملا بصیرت بازغہ، ہبلی

تاریخ کے ایک طویل عرصے سے عورت مظلوم چلی آرہی ہے۔ چاہے وہ یونان ہو یا روم ، ہندوستان ہو یا ایران، یورپ ہو یا ایشیا، عورت ہر جگہ مظلوم رہی ہے۔ تمام ادیان نے عورت کے متعلق پست خیالات کا اظہار کیا ، جس کی بنا پر اسے انسانیت کے کندھوں پر ہمیشہ ایک بوجھ سمجھا گیا۔

اہلِ یونان عورت کو مصیبت سمجھتے تھے، رومی خدمت گار سمجھتے تھے اور عورت کی گواہی ان کے نزدیک ناقابلِ قبول تھی۔ عیسائی اسے گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ کہتے تھے۔ ہندو اسے حقیر مخلوق سمجھتے اور اسے شوہر کی چتا پر زندہ جلاتے تھے۔ ایران میں ماں بیٹی کا احترام نہ تھا اور وہ ان سے نکاح کرنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ عرب میں وہ جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ اہلِ یونان کا قول تھا کہ آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈس جانے کا علاج تو ممکن ہے مگر عورت کے شر کا مداوا محال ہے۔ مغربی مفکرین عورت کو ایک پیدائش وسوسہ، ایک خانگی خطرہ، ایک مرغوب آفت، ایک ناگزیر دلربائی، غارت گر اور آراستۂ مصیبت کہتے تھے اور اس بات پر مباحثے منعقد کرتے تھے کہ ’’کیا عورت میں جان ہے؟‘‘ رومی ضرب المثل ہے کہ ’’دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے۔‘‘ اطالویوں کا کہنا تھا کہ ’’گھوڑا اچھا ہو یا برا اسے مہمیز کرنے کی ضرورت ہے مگر عورت اچھی ہو یا بری اسے مارنے کی ضرورت ہے۔‘‘

اسلام نے عورت کو بڑا ہی بلند مقام عطا کیا اور اسے نصف انسانیت سے تعبیر کیا۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا: ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔‘‘ اور فرمایا کہ ’’اچھی بیوی بہترین متاعِ دنیا ہے۔‘‘ اور آپؐ نے اپنی متعدد احادیث میں عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید فرمائی اور اس شخص کو جنت کی بشارت دے دی جس نے دو (یا زائد) لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی اچھی تربیت کی ان سے حسنِ سلوک کیا اور پھر ان کا نکاح کیا۔ اور اسلامی معاشرہ میں بعض حالتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ شرف و احترام بخشا ہے۔ مثلاً: ماں کا حق باپ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔

اسلام نے عورت کو سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق عطا کیے۔ عورت کو شوہر کے انتخاب کا حق ہے۔ مہر کا حق ہے، نکاحِ ثانی کا حق ہے، خلع کا حق ہے، حسنِ معاشرت کا حق ہے، عزت و آبرو کا حق ہے، تعلیم و تربیت کا حق ہے، وراثت کا حق ہے، مال وجائداد کا حق ہے اور تنقید و احتساب کا حق ہے۔ اسلام میں نہ عورت اپنی نسوانیت کی وجہ سے کمتر ہے اور نہ ہی مرد برتر۔ اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد و عورت دونوں کی ذہنیتوں کو بدلا۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوا: ’’اللہ نے تمہیں ایک انسان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔‘‘ اس لیے اسلام کے نزدیک بحیثیت انسان مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔ اللہ کے نزدیک ممتاز وہ ہے جو خدا ترس، متقی، پرہیز گار، بااخلاق اور حسنِ سیرت کا مالک ہے۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ پھر سورئہ آل عمران میں فرمایا: ’’اللہ تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت۔‘‘

پھر اسلام نے عورت پر یہ احسان کیا کہ اسے معاش کی ذمہ داری سے آزاد کردیا اورعورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ٹھہرایا۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ ہے یا بھائی کے ذمہ۔ بیوی ہے تو شوہر کے ذمہ اور ماں ہے تو بیٹے کے ذمہ کل نفقہ واجب ہے۔ عورت پر اسلام کا ایک اور بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے عورت کو علم نور سے کسبِ فیض کرنے کی خصوصی تلقین کی اوراس کی تعلیم و تربیت کو بہت ضروری قرار دیا۔ فرمایا اللہ کے رسولؐ نے ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘

آج بھی اگر عورت اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے اسلام۔ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جس نے عورت کے بارے میں متوازن نظریہ پیش کیا۔ جہاں عورت کا بلند مقام و مرتبہ ہے، وہیں اس کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست بھی ہے اور اس کی عصمت و آبرو کا تحفظ بھی۔ اس کی معاشی پوزیشن بھی مضبوط ہے اور خاندانی ادارہ کا استحکام بھی اور آئندہ نسل کی شاندار تعمیرِ سیرت کا بندوبست بھی ہے۔ غرض معاشرہ میں حسنِ توازن اور خوبصورت اعتدال ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں