[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

اسلام میں عورت کا مقام

سرور عالم

یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت و سربلندی بخشی اور اس کے لیے ایسے اصول و قوانین بنائے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہیں اور اس کو ذلت و اہانت کے گڑھے سے نکال کر شرافت اور عزتِ نفس عطا کی۔ آج سے چودہ سو سال قبل قرآنِ کریم اور شریعتِ اسلامی نے عورت کے تمام حقوق اور واجبات کا تعین کیا اور ان کو مردوں کے مساوی درجہ عطا کیا الا یہ کہ جن چیزوں میں اس کی فطرت اور مزاج علیحدہ ہے۔ اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے لیے اعلیٰ حقوق مقرر کیے اور اس کے لیے دنیا و آخرت میں بہترین زندگی اور اچھے بدلے کا وعدہ کیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (النحل: ۹۷)

’’جو صاحبِ ایمان شخص کوئی نیک کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت تو ہم اس کو لطف کی زندگی دیں گے اور ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کو اجر دیں گے۔‘‘

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:انما النساء شقائق الرجال۔

اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی علم، ثقافت اورتہذیب کے حصول کو لازمی قرار دیا، ان کے لیے مردوں کی طرح میراث میں حصہ مقرر کیا اور یہ اختیار دیا کہعورت اپنے مال جس کی وہ مالک ہے جس طرے سے چاہے خرچ کرے اور جائز طریقوں کے مطابق جیسے چاہے اس میں اضافے کی کوشش کرے۔ وہ ڈاکٹر، نرس اور خدمت گار بن کر جنگ میں حصہ لے سکتی ہے، اور ایک مجاہدہ کی زندگی گزار سکتی ہے۔اسلام نے صرف اتنا ہی نہیں کیا بلکہ اس نے عورت اور مرد کے حقوق کے اصول وضوابط اس کمال اعتدال کے ساتھ متعین کیے کہ نہ عورت اپنے زیردستی کی شکایت کرسکتی ہے اور نہ مرد اپنے زور کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اسلام نے معاشرہ کو انسانی حقوق کا محافظ اور امن و امان کا ذمہ دار قرار دیا اس کے نزدیک معاشرہ کا یہ فرض ہے کہ جو ہاتھ ظلم وتعدی کے لیے اٹھے تو اسے کاٹ دے۔ اسی لیے اعلان کیا گیا کہ

وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَا اُوْلِیْ الاَلْبَابِ۔ (البقرۃ: ۱۷۹)

’’ اے عقل والوتمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔‘‘

یوں تو اسلام نے وراثت میں عورت کا حصہ متعین کیا جس سے اہلِ عرب کو بہت تعجب ہوا اور انھوں نے تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا عورت آدھی میراث کی حقدار ہے، جو نہ گھوڑے پر چڑھ سکتی ہے اور نہ دفاع کرسکتی ہے۔ غرض یہ کہ دنیا نے عورت کو معصیت کا منبع اور مجسم پاپ سمجھ رکھا تھا لیکن اسلام نے اس کی بھی تردید کی اور عورت کو زندہ رہنے اور معاشرہ میں باعزت زندگی گزارنے کا حق عطا کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعلان کردیا کہ اگر عورتوں کی زندگی سے کھیلا جائے گا تو اللہ رب العزت کے یہاں اس کی باز پرس ہوگی۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج پورا مسلم معاشرہ عورت کے حقوق و اختیارات اور اس کے مرتبہ و حیثیت کی عملی شکل کو لے کر کٹہرے میں کھڑا ہے۔

آپ ایک ایک چیز کو دیکھتے جائیے۔ اللہ کے رسول نے دین سیکھنے اور اس پر چلنے کی عملی تربیت کے لیے ایک دن خواتین کے لیے خاص کردیا تھا اور آج صورت حال ہے کہ مسلم معاشرہ کی عورت ہر اس سوتے سے کاٹ دی گئی ہے جہاں سے اسے دینی علم حاصل ہوسکتا ہو۔ ہماری مساجد، ہمارے اجتماعات اور محفلیں سب مردوں کے لیے ہیں۔ اللہ کے رسول نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو جنت کی ضمانت قرار دیا تھا اور آج کا ہمارا معاشرہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ہی کا انکاری ہوگیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عورت کو میراث میں حصہ دار بناکر بھی اور دیگر طریقوں سے بھی معاشی و اقتصادی آزادی دی تھی اور حق بھی دیا تھا۔ مگر دیکھئے کہ معاشرہ میں کہاں مسلم عورت کو میراث میں حصہ دیا جاتا ہے۔ اور کہاں ان کے معاشی و اقتصادی حقوق محفوظ ہیں۔ بلکہ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ عورت کے مال و اسباب پر جو اسے وراثت یا دیگر ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں عملاً مرد ہی کنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔معاشرتی اعتبار سے ہم مسلم عورت کا جائزہ لیں تو آج کے مسلم سماج اور اسلام کے عطا کردہ حقوق و اختیارات میں مشرق اور مغرب کی دوری نظر آئے گی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

دراصل اس وقت پورا مسلم سماج قول و عمل کے عجیب و غریب مگر زبردست تضاد کا شکار ہے۔ اگرچہ اس میں دخل عام مسلم سماج میں پھیلی جہالت، بے عملی اور دین سے دوری ہے لیکن اس بات کا کیا جائے کہ نام نہاد دیندار اور دین و مذہب کی دہائی دینے والا طبقہ خود اس معاملہ میں تضاد عمل کا شکار ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ پوا مسلم سماج احتساب و جائزہ کے عمل سے گزرے اور دیکھے کہ اس کی زندگی میں کہاں کہاں جہالت و گمراہی داخل ہوگئی ہے۔ کیونکہ جب تک جہالت و گمراہی کے ان سوتوں کو بند نہیں کیا جاتا مسلم معاشرہ کا اسلام سے مضبوط تعلق قائم ہونا مشکل ہے۔

اس کے لیے پورے مسلم سماج اور اس کے ہوشمند افراد کو زبردست جدوجہد کرنی ہوگی اور اس وقت تک اپنی کوششوں کو جاری رکھنا ہوگا جب تک مسلم سماج قول و عمل کے اس تضاد سے دور اور اسلامی تعلیمات کا نمونہ نہ بن جائے اور خواتین کو اس کام میں زیادہ فعال رول ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ سماجی تبدیلی اور معاشرتی اصلاح میں ان کا رول بہر حال زیادہ اہم ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں