اسلام میں محرم اور نامحرم رشتوں کی تقسیم

فرحت الفیہ (جالنہ)

اسلام ایک صالح اور پاکباز معاشرے کی تعمیر کا نہ صرف تصور پیش کرتا ہے بلکہ اس کی عملی صورت گری بھی کرتا ہے۔اسلام کا روحانی نظام، معاشرتی نظام، تعزیری نظام یہ سب بیک وقت باہم مربوط انداز میں ایک مثالی معاشرے کے قیام کو یقینی بناتے ہیں ۔سید مودودیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب پردہ میں ان تمام مراحل کا تفصیلی نقشہ پیش کیا ہے جو ایک باحیا ،مثالی اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ نے متعین فرمائے ہیں ۔سید مودودیؒ فرماتے ہیں

عورت اور مرد دونوں کو پورے انسانی حقوق حاصل ہوں، اور دونوں کو ترقی کے بہتر سے بہتر مواقع بہم پہنچائے جائیں ،مگر دونوں میں سے کوئی بھی ان حدود سے تجاوز نہ کر سکے جو معاشرت میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ اس نقشے پر جس نظام معاشرت کی تاسیس کی گئی ہے اسے چند ایسے تحفظات کی ضرورت ہے جن سے اس کا نظم اپنی جملہ خصوصیات کے ساتھ برقرار ہے۔ اسلام میں یہ تحفظات تین قسم کے ہیں:

اصلاح باطن

اسلام انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کردیتا ہے اور حقیقت میں یہ اسی لیے آیا ہے۔ زندگیوں میں تبدیلی سوچ و فکر اور نظریے کے بدلنے سے آتی ہے۔ جب سوچ و فکر بدل جاتے ہیں تو اعمال خود اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اسے اصلاحِ باطن کہہ سکتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات جہاں انسانوں کے اندر اللہ کی عظمت توحید کو قائم کرتی ہیں وہیں اس کا خو ف اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ یہ جذبہ انسانوں کا اللہ سے تعلق قائم کرتا ہے، وہیں انسانوں سے انسانوں کا ایک مضبوط تعلق معاشرتی بنیادوںپر قائم کرتا ہے جس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس میںاللہ کا خوف رکھنے والے اور اسی کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنے والے لوگ رہتے ہوں۔ اس معاشرے کی اہم ترین صفت حیاء ہوتی ہے جو مرد و خواتین دونوں کی معاشرتی معاملات اور زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔

اسلام اپنے ماننے والوں کے ذہنوں میں حیاء کے اس جذبے کو انتہائی عروج پر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ صفت اسلام میں کتنی ضروری ہے اور ہمہ گیر بھی اس کا اندازہ رسول پاکؐ کی اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں آپؐ لوگوں کو حیا کی تلقین کررہے ہوتےہیں۔ فرمایا: استحیوا من اللہ حق الحیاء’’لوگو! اللہ سے ایسے حیا کرو جیسے اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔‘‘ لوگوںنے پوچھا کہ اللہ کے رسول ایسی حیا ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟تو آپؐ نے فرمایا :… ان تحفظ الرأس وما وعی۔ ’’یہ اس طرح ہوسکتی ہے کہ تم اپنے سر (دماغ) اور اس میںآنے والے خیالات کی حفاظت کرو۔ ‘‘ حیا کی اس تعلیم کو دیکھئے۔ اسلامی زندگی کی روح اور اسلامی معاشرے کی شہِ رگ کے طور پر اس بات کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں ہر جگہ اس کا پرتو نظر آئے گا۔

انسدادی تدابیر کے تحت برے میلانات کے خاتمے اور منفی ہیجانات کے سدباب کے لیے مرووعورت کے لیے ستر کے احکامات وحدود کا تعین، گھروں میں جھانکنے کی ممانعت، تنہائی اور اجنبی مردوخواتین کو چھونے کی ممانعت ہو یا گھروں میں داخلے کی اجازت کا لزوم ہر جگہ یہی پہلو نظر آئے گا۔ اگر ہم عائلی زندگی کو دیکھیں تو یہاں بھی یہ چیز ابھر کر سامنے آتی ہے۔ محرم و نامحرم رشتوں کے درمیان فرق کودیکھنے سے بھی اسی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔

’’محرموں اور غیر محرموں کے درمیان تفریق کو قرآن اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے آزادی اور بے تکلفی کے کون سے مدارج ایسے ہیں جو صرف محرم مردوں کے سامنے برتے جا سکتے ہیں اور غیر محرم مردوں کے سامنے برتنے جائز نہیں ہیں ۔ یہی چیز ہے جسے عرف عام میں پردہ یا حجاب سے تعبیر کیا جا تا ہے۔‘‘

محرم اور غیر محرم

اسلام احکامِ پردہ اور حجاب کے لحاظ سے معاشرے میں محرم اور اجانب یا غیر محرم کی تقسیم کرتا ہے۔

محرم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے کسی عورت کا نکاح دائمی یا وقتی طور پر حرام قراردیا گیا ہے ۔ اس کی وضاحت ہمیں دو جگہ بہ طورِ خاص ملتی ہے: سورہ نور آیت 31 میں جہاں محرم رشتوں کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ اور سورئہ نساء کی آیت 22-24 میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں سے نکاح نہیں کیا جاسکتا

غیر محرم یعنی وہ اشخاص جن سے نکاح کی صورت کسی موقع پر ممکن ہو، اس لیے یہ سب نامحرم ہیں ۔ اس کی تفصیل کے لیے مذکورہ دونوں سورتوں کا تفصیلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ تمام عام اجنبی مرد نامحرم ہیں جن سے پردہ لازم ہے ۔

محرم اور نامحرم کی تقسیم کی حکمت

احکام پردہ وحجاب کے لحاظ سے محرم اور نامحرم کی اس تقسیم کی حکمت ومعنویت یہ ہے کہ تاحدِ امکان فحاشی اور بے حیائی کا انسداد ہو۔مردو خواتین میں باہمی ربط کی حدیں متعین ہوں اور دونوں اپنے اپنے دائرہ کار میں پاکبازی کے ساتھ معاشرتی امور انجام دے سکیں۔ خواتین کو پردے کے نام پر طائر قفس بنادینے کے جو الزامات مخالفین لگاتے ہیں ان کے لیے اس تقسیم میں حکمت بھرا جواب پوشیدہ ہے کہ اسلام عورت کومحرم رشتوں کے فطری اور محفوظ حصار میں بھر پور زندگی جینے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔ محرم رشتوں کا وسیع حلقہ ایک عورت کو تحفظ فراہم کرتا ہے تاکہ وہ معاشرتی امور پورے کمال کے ساتھ انجام دے سکے۔دوسرے معاشروں میں جہاں یہ تقسیم نہیں ہے وہاں کی معاشرتی و عائلی زندگی کا جائزہ لے کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک مسلم عورت محرم رشتوں کے محفوظ حصار میں ایک پر اعتماد زندگی گزارتی ہے۔اس کے لیے نامحرموں کا محدود اور متعین دائرہ ہوتا ہے جہاں اس کو محتاط رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

معاشرتی ہدایات

قرآن مجید میں سورہ نور اور سورہ احزاب میں گھر کے اندر اور کھر کے باہر پردے کے احکامات کو پوری وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

محرم اور نامحرم دونوں طرح کے لوگوں سے تعلقات کی صورت اور حدود کو خود اللہ تعالیٰ نے متعین کردیا ہے۔

محرم رشتوں سے حجاب کی رخصت اسلام دیتا لیکن ستر پوشی ایک مستقل حکم ہے۔حجاب ستر پوشی کے علاوہ چیز ہے ۔ستر کے سلسلے میں خصوصی تاکید احادیث میں کی گئی ہے ۔

’’ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: کوئی مرد کسی مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر کو دیکھے ۔ نیز کوئی مرد کسی مرد کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں نہ لیٹے، نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ ایک ہی کپڑے میں لیٹے ۔‘‘

لباس کے سلسلے حکم ہے کہ وہ لباس ساتر ہونا چاہیے یعنی نہ تو اتنا باریک ہو کہ اس میں سے بدن کے اعضا نظر آئیں۔ اور نہ اتنا چست ہو کہ موٹا ہونے کے باوجود بھی جسم کے اعضاء کی ساخت پوری واضح نظر آ رہی ہو ۔ ارشاد نبوی ہے:

’’وہ عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوتی ہیں۔ مردوں کی طرف مائل ہو جانے والی اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے والی ہوں وہ نہ جنت میں داخل ہوں گے نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے آتی ہے ۔‘‘(مؤطا، كتاب الجامع، باب ما يكره النساء )

ستر چھپانے کا مطالبہ محرم اور نامحرم دونوں سے کیا گیا ہے۔ نامحرم مرد وعورت دونوں کے لیے خصوصی ہدایات اور تاکید کی گئی ہے تاکہ معاشرہ بے حیائی سے بچا رہے۔

1- غضِ بصر یعنی نظر بازی سے پرہیز کی تعلیم مرد وعورت دونوں کو دی گئی ہے۔نظر بازی کے فتنے کی سخت ممانعت احادیث میں آئی ہے۔نظر بازی کو آنکھوں کا زنا قرار دیا گیا ہے۔

2- عورتوں کو ضرورتاً نامحرموں سے گفتگو کرنا پڑے تو آواز میں لوچ اور لچک سے منع کیا گیا ہےکہ کہیں بیمار ذہنیت کا آدمی اس لچک سے کچھ اور نہ سمجھ بیٹھے۔

3- خلوت اور تنہائی میں نامحرم مرد وعورت کی ملاقات کو ممنوع قرار دیا گیا اورکہا گیا ہے کہ جہاں ایک مرد اور عورت تنہا ہوتے ہیں وہاں ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبر دار عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جاؤ۔ انصار میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیور اور جیٹھ کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: ’’ وہ موت ہے۔‘‘

3- کسی نامحرم کو چھونے کی ممانعت کی گئی ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوشخص کسی عورت کا ہاتھ چھوئے گا جس کے ساتھ اس کا جائز تعلق نہ ہو، اس ہتھیلی پر قیامت کے روز انگارارکھا جائے گا۔

4- خواتین کو عوامی جگہوں پر خوشبو کے استعمال سے منع کیا گیا ہے ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورت عطر لگا کر لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہے، وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔‘‘ (ترمذی، باب ماجاء فی کراہیت خروج معطرة )

5- گھروں میں اجازت کے بغیر داخلے سے منع کیا گیا۔اللہ۔تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ

’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو۔ یہاں تک کہ اہل خانہ کو متعارف نہ کرالو اور ان پر سلام کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔‘‘

سورہ احزاب میں جو اذن لے کر گھروں میں داخل ہونے کا حکم تھا صرف رسول اللہ کے گھرانوں تک محدود تھا۔ لیکن بعد میں اس حکم کا دائرہ وسیع کر کے تمام مسلمان گھرانوں کو اس حکم کا پابند بنایا گیا۔ اور تمام مسلمانوں کو حتی کہ صاحب خانہ کو اس حکم کا پابند کر دیا گیا۔

ارشاد نبوی ہے:

علاء بن بسیار کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ہم سے پوچھا کہ کیا میں گھر جاتے وقت اپنی ماں سے بھی اذن مانگوں۔ فرمایا ۔ ہاں۔ وہ بولا: میں تو اس کے ساتھ گھر میں رہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: پھر بھی اجازت لے کر جا۔ وہ بولا۔ میں ہی تو اس کی خدمت کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’پھر بھی اجازت لے کر جا۔ کیا تو چاہتا ہے کہ تو اپنی ماں کو ننگا دیکھے۔ وہ کہنے لگا نہیں ۔ توآپ نے فرمایا۔ پھر اذن لے کر جا۔‘‘(مؤطا إمام مالك، كتاب الجامع باب الإستيذان)

اجازت کے ساتھ گھروں میں داخلے کا اصل مقصد اندرون خانہ اور بیرون خانہ کے درمیان حد بندی کرنا ہے تا کہ اپنی خانگی میں عورتیں اور مر داجنبیوں کی نظروں سے محفوظ رہیں ۔

یہ بات شروع ہی میں عرض کی گئی ہے کہ اسلام ہر صورت میں معاشرے کو پاکباز دیکھنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرتا ہے۔ مذکورہ بالا ہدایات پر اگر معاشرے میں سختی سے عمل کیا جائے تو ایک پاکباز معاشرہ یقینی طور پر وجود میں آتا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں مرد اور عورت اپنے اپنے دائرہ کار میں نیکی وخیر کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون بھی بنتے ہیں اور فتنوں سے اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھتے ہیں ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں