اسلامی اصطلاح میں حیاء سے مراد فطری شرم کا وہ جذبہ ہے جو انسان کو ہر قسم کی برائی کرنے سے روکتا ہے، اور اگر انسان غلط کام کربھی لے تو اس پر ندامت اور ضمیر کی خلش کا باعث بنتا ہے۔ مختصراً، حیا وہ جذبہ ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتا اور نیکی کی جانب راغب کرتا ہے۔ اپنے نفس، بندوں اور سب سے بڑھ کر اپنے رب سے حیا کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب ہی دراصل جذبۂ حیا ہے۔
ایک دفعہ حضور ﷺ نے دیکھا کہ ایک انصاری اپنے بھائی سے کہہ رہا ہے کہ ’’زیادہ شرم نہ کیا کرو۔‘‘ آپؐ نے اس انصاری سے کہا: ’’یہ نہ کہو، بے شک حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اس واقعے سے حیا کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ حیا کا تعلق ایمان سے ہے جو ہر مسلمان کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، عمل کی بنیاد ہے۔ اللہ نے معاشرے کو ضرورت کے لحاظ سے دو جنسوں مرد اورعورت میں تقسیم کیا ہے۔ اللہ نے دونوں کے دائرۂ کار مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اخلاقی پابندیاں بھی عائد کردی ہیں تاکہ ایک مسلم معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی نہ پھیلنے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ بے حیائی کے ابتدائی محرکات کو روکنے کے لیے غضِ بصر کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ نور میں فرمایا گیاہے:
’’اے نبی! مومن مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچارکھیں۔‘‘ (النور: ۳۰)
’’اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں۔‘‘ (النور:۳۱)
انسانی چہرے میں پرکشش آنکھیں ہی مخالف جنس کو متوجہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ غضِ بصر کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کا محرک بننے والے پہلے راستے کو بند کردیا ہے۔
حیا کو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ حجاب بھی ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا گھونگھٹ ڈال لیا کریں تاکہ پہچان لی جائیں (کہ شریف زادیا ںہیں) اور ستائی نہ جائیں۔‘‘ (احزاب:۵۹)
حجاب جہاں مومن عورتوں کو بے حیائی اور فحاشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے، وہیں یہ ان کے لیے باعثِ عزت اور تکریم بھی ہے۔ بے حجابی بے حیائی کا نقطہ آغاز ہے۔ یہ وہ خرابی ہے جو کبھی اکیلی نہیں آتی بلکہ مخلوط نظام کی تمام تر خرابیاں ساتھ لے کر آتی ہے۔ جذبۂ حیا اگر کسی معاشرے سے معدوم ہوجائے تومعاشرہ کیا منظر پیش کرتا ہے؟ مغربی معاشرت کی عبرت انگیز صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ جہیاں ہر سیکنڈ پر جرم ہوتا ہے، انفرادی و اجتماعی خود کشیوں اور ہپی ازم کے رجحانات نے مغربی معاشرے کو پریشان کردیا ہے۔ گناہوں اور جرائم کا فروغ، عورت کے تقدس کی پامالی اور معاشرتی بے راہ روی اس قدر آگے جاچکی ہے کہ اب وہ خود واپسی کا راستہ تلاش کرتے پھرتے ہیں مگر کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ طلاق کا تناسب ان کے خاندانی نظام کے خاتمے کی نوید سنا رہا ہے۔
اگر ہمارے معاشرے کا مغربی معاشرے کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو صورتِ حال کسی حد تک ملتی نظر آئے گی۔ آج ہم اسی معاشرے کے لوگوں کی نقالی بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی معاشرہ بھی پہلے جیسا باحیا معاشرہ نہیں رہا بلکہ اخلاقی برائیاں بتدریج اپنی جڑیں پھیلارہی ہیں۔ آج کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بے حیائی پھیلانے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔
ٹی وی چینلز پر حیاء سوز اشتہارات اور پروگرام اخلاق باختگی کو پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ٹی وی کے شعوری اثرات سے بچنے کی کوشش کریں، پڑھنے کے لیے باتہذیب ادب کا انتخاب کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بے حیائی و فحاشی کی دلدل میں پھنس جائیں۔ اس کے لیے ہمیں حیا کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنا ہوگا کیونکہ حیا خیر ہی لاتی ہے۔
——