کاندھلہ میں جو مغربی یوپی کے مظفر نگر ضلع کی مشہور اور پرانی بستی ہے، ایک مرتبہ ایک زمین کا ٹکڑا تھا جس پر دو فریقوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ ان میں ایک فریق مسلمان اور دوسرا غیر مسلم تھا۔ مسلمان کہتا یہ ہمارا ہے، ہندو کہتا یہ ہمارا ہے، چنانچہ یہ مقدمہ بن گیا اور انگریز کی عدالت میں جاپہنچا۔ جب مقدمہ آگے بڑھا، تو مسلمان نے اعلان کردیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا اگر مجھے ملا تو میں مسجد بناؤں گا۔ ہندو نے جب سنا تو اس نے ضد میں کہہ دیا کہ اگر ٹکڑا مجھے ملا تومیں مندر بناؤں گا۔ اب بات دو انسانوں کی انفرادی تھی، لیکن اس میں اجتماعی رنگ آگیا، حتی کہ ادھر مسلمان جمع ہوگئے اور ادھر ہندو اکٹھے ہوگئے اور مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا۔ اب سارے شہر میں فرقہ وارانہ فضا مکدر ہوسکتی تھی۔ خون خرابہ ہوسکتا تھا۔ لوگ بھی حیران تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا! انگریز جج بھی پریشان تھا کہ اس میں کوئی صلح و صفائی کا پہلو نکالے، ایسا نہ ہو کہ یہ آگ بھڑک اٹھے تو اس کا بجھانا مشکل ہوجائے۔ جج نے مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکال لیں۔ اس پر ہندوؤں نے کہا کہ ہم آپ کو ایک مسلمان کا نام بتائیں گے، ان کو بلا لیا جائے اور ان سے پوچھ لیا جائے کہ یہ زمین کس کی ہے۔ اگر وہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے، تو ان کو دے دی جائے۔ اور اگر وہ کہیں کہ یہ زمین ہندوؤں کی ہے، تو انھیں دے دی جائے۔ جب جج نے دونوں فریقوں سے پوچھا تو دونوں اس پر راضی ہوگئے۔ مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان جو بھی ہو، وہ مسجد بنانے کے لیے بات کرے گا۔ چنانچہ انگریز جج نے اگلی تاریخ دے دی اور اس شخص کو بلانے کا وعدہ کرلیا۔ اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشی منارہے تھے۔ سب کود رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے۔ ہندوؤں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ تم نے کیا کیا؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم نے مسلمان عالم کو ثالث بنالیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہوگا۔ اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے لیکن انتظار میں تھے کہ اگلی پیشی میں کیا ہوتا ہے۔
چنانچہ ہندوؤں نے مفتی محمود بخش کاندھلویؒ کا نام بتادیا۔ جو شاہ عبدالعزیزؒ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو سچی اسلامی زندگی عطا فرمائی تھی۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ مفتی صاحب تشریف لائے ہیں تو وہ سوچنے لگے کہ مفتی صاحب تو مسجد کی ضرور بات کریں گے۔ چنانچہ جب انگریز جج نے پوچھا کہ بتائیے میاں صاحب یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟ ان کو چونکہ حقیقتِ حال کا پتا بھی تھا اور حق گوئی اور انصاف کی بات کہنا ان کی عادت تھی، اس لیے انھوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا ہندوؤں کا ہے۔
انھوں نے جب یہ کہا کہ یہ ہندوؤں کی زمین ہے تو انگریز جج نے اگلی بات پوچھی کہ کیا اب ہندو اس کے اوپر مندر تعمیر کرسکتے ہیں؟ مفتی صاحب نے فرمایا کہ جب ملکیت ان کی ہے تو وہ چاہیں کریں، چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیںیہ ان کا اختیار ہے۔ چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ زمین ہندوؤں کو ملے گی۔
کئی مرتبہ نظر آتا ہے کہ جھوٹ بولنا آسان راستہ ہے۔حالانکہ جھوٹ بولنا آسان راستہ نہیں، یہ کانٹوں بھرا راستہ ہے۔ جھوٹے سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتے ہیں، انسان نفرت کرتے ہیں، جھوٹا انسان اعتماد کھوبیٹھتا ہے، ایک جھوٹ کو بولنے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، لہٰذا جھوٹی زندگی گزارنے کے بجائے سچی زندگی کو اختیار کیجیے اس پر پروردگار آپ کی مدد فرمائے گا۔
اس واقعہ کا کیا اثر ہوا؟
مولانا محمود بخش کی صاف گوئی اور حق پسندی سے متاثرہوکر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اس جگہ آج بھی ایک مسجد ہے اور ایک مندر۔ مندر اور مسجد دونوں کی ایک دیوار مشترک ہے۔ اور اس وقت سے آج تک دونوں فرقوں کے درمیان مندر مسجد کے معاملہ پر کبھی کوئی تنازعہ نہیں ہوا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے ایک مشہور اور بڑے روزنامے نے جس کا نام اس وقت بیان کرنے والے کو یاد نہیں اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’معاملات اس طرح بھی حل کیے جاسکتے ہیں؟ ‘‘ اس واقعے کے بعد لوگوں نے یہ لکھا بھی اور کہا بھی کہ ’’مسلمان ہار گئے اور اسلام جیت گیا۔‘‘ بات حقیقت ہے۔ اور اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ حق کی شہادت پر مامور امت حق کی گواہ ہوجائے۔ اور اگر ہندوستان میں مسلمان یہ طرزِ فکروعمل اختیار کرلیں، تو کیا معلوم کہ کب اور کس قدر جلد اس ملک میں حالات تبدیل ہوجائیں۔
——