جاپان کے ایک اسکالر نے قرآن کریم اور اسلام سے متعلق بعض موضوعات کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنا تاثر اس طرح ظاہر کیا: ’’چاہے یہ دین، اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا نہ ہو، پھر بھی اس کی تعلیمات اور روح یہ کہتی ہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ دین ہی ہونا چاہئے‘‘۔
قرآن کریم کے مطالعے اور اسلام کی بعض بحثیں پڑھ لینے کے بعد ہی اس نے اس حقیقت کو پالیا کہ یہ دین الہامی اور خدائی دین ہونے کے علاوہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہی بات جو خود قرآن کریم نے بھی اپنے متعلق کہی ہے کہ :
’’دین تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔
(آل عمران: ۱۹)
’’اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی مذہب کو دین کے طور پر پسند کرے گا تو اس کی جانب سے یہ قابل قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا‘‘۔ (آل عمران: ۸۵)
اللہ تعالیٰ نے اسی دین کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی ہے نیز اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند کیا ہے‘‘۔ (المائدہ: ۳)
دین اسلام ہمیشہ باقی رہنے والا دین ہے۔ اس کی جامعیت کا یہ حال ہے کہ اس میں وہ تمام اچھائیاں اور خوبیاں جمع کردی گئی ہیں جو انسان کی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے والی ہیں۔ یہ دین ایسی قوت سے مالا مال ہے جس کے اندر جذبات کو متاثر کرنے اور دلوں کو کھینچنے کی صلاحیت ہے۔ یہ دین انسان کو فکر سلیم سے باندھ کر رکھتا ہے۔
مجھے آج بھی ۱۹۸۱ئء کا وہ واقعہ یاد ہے جب امریکیوں کے مجمع عام کے سامنے میں نے سورہ مومنون کی رقت انگیز تلاوت کی۔ قرأت قرآن کریم کا یہ پروگرام ییل یونیورسٹی کے تھیالوجی کالج میں منعقد ہوا تھا۔ اللہ رب العزت گواہ ہے کہ میں نے مجمع پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ بہت سے لوگوں کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہیں۔مرد وخواتین سب رورہے تھے، حالانکہ یہ امریکی مجمع عربی زبان کا ایک لفظ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کے باوجود ان پر قرأت قرآن کریم کی تاثیر کا یہ حال تھا کہ Repeat Please repeat کی بلند آواز لگاکر دوبارہ تلاوت کا مطالبہ کر رہے تھے۔
قرآن کریم اور دین اسلام کی اس اندرونی قوت کا اندازہ ایک اور واقعے سے ہوتا ہے ۔۱۹۸۶ء میں میں نے پاکستان میں بارہ برس تک کی عمر کے ایسے طلبہ سے ملاقات کی جنہیں قرآن کریم مکمل طور پر حفظ تھا، حالانکہ اس کی عربی زبان کو وہ سمجھ نہیں سکتے تھے، لیکن ان ہی بچوں میں سے ایک بھی بچہ عربی کے تین اشعار بھی آسانی سے حفظ نہیں کرپایا۔ قرآن کریم کے اعجاز کی ایک دلیل یہ واقعہ بھی ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ طلبہ کے نام کے آغاز میں حافظ کا لاحقہ لگا ہے۔ میں سمجھا شاید یہ حافظ شیرازی سے محبت و عقیدت کی وجہ سے لگایاگیا ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ لقب تو صرف ان کو دیاجاتا ہے جنہیں قرآن کریم حفظ کرلینے کی سعادت حاصل ہوچکی ہو۔
ییل یونیورسٹی میں جس وقت میں تدریس کی خدمت انجام دے رہا تھا، ایک خاتون لیکچرار ’سارہ‘ سے اپنی ایک گفتگو کو میں آج تک نہیں بھلا سکا۔ خاتون لیکچرارکے نام سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ یہودی ہے۔ ایک شیر خوار بچہ بھی اس کے ساتھ تھا، میں نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیا تو اسے بہت تعجب ہوا۔ امریکی حیرت کا اظہار کرنے کے لئے واو Wowکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ میری اس حرکت پر تقریباً چیختے ہوئے اس نے wow… wow کہا۔ میں نے کہا ’’یہ سنتِ عمر ہے۔ عمر بن خطاب بچوں کا ہاتھ تھام کر اسی طرح بوسہ لیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بچو! میرے لئے مغفرت کی دعا کرو، تم لوگ گناہوں سے پاک ہو، تمہیں ابھی گناہوں نے آلودہ نہیں کیا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول کرے گا‘‘۔ میرے ان جملوں نے اس کی حیرت کو اور بھی بڑھا دیا۔
’’عمر…؟عمر … وہی قاتل؟‘‘ سارہ نے سوال کیا۔
میں نے کہا:’’عمر نے کسی کو ظلم اور زیادتی کے ساتھ قتل نہیں کیا۔ عمر ؓ تو انصاف پسند اور رحمدل خلیفہ کی بہترین مثال تھے۔ ان کی رحمدلی کا عالم تو یہ تھا کہ ۱۸؍ہجری میں قحط آیا تو مسلمانوں کی پریشانی اور تکلیف کو دیکھ کر آپ اس قدر روئے کہ ان کے رخسار پر آنسو بہنے کی وجہ سے دو سیاہ لکیریں بن گئیں‘‘۔ اس کے بعد میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیاست کا مختصر خاکہ اس خاتون کے سامنے پیش کیا۔ اسے یہ بھی بتایا کہ اسلام نے اخلاق ورواداری، محبت، عدل وانصاف، صفائی و پاکیزگی اور دوسروں کے ساتھ حسن معاملات کی کیا تعلیم دی ہے۔ میری باتیں سن کر اس عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
ہماری گفتگو کسی وجہ سے نامکمل رہ گئی تو اگلے روز اس نے خود مجھے آواز دی اور کہا کہ خلیفہ حضرت عمرفاروقؓ اور اسلام کے بارے میں مجھے کچھ اور بتائیں۔
۱۱؍ستمبر کے حادثے کے بعد اکثر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ اب امریکی لوگ اسلام سے نفرت کرنے لگیں گے۔ لیکن واقعہ اس کے بالکل برعکس پیش آیا۔ اس حادثے کے بعد ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ وجہ یہ تھی کہ اس حادثے نے لوگوں کو اسلام کامطالعہ کرنے پر آمادہ و مجبور کردیا تھا اور ان کے اندر یہ تجسس پیدا کردیا تھا کہ وہ اعلیٰ ترین انسانی اقدار کی معرفت حاصل کریں۔
ڈاکٹر جاری میلر، معروف مسیحی مناظر، ایک بار احمد دیدات سے مناظرے کے لئے آئے۔ میلر عیسائیوں کے نمائندے کے طور پر مناظرے میں شریک تھے۔ میلر کو زور بیانی کا ملکہ حاصل تھا، دلائل بھی بالکل سامنے کے پیش کرتے تھے، ایسا نہیں لگتا تھا کہ دور کی کوڑی لائے ہوں، لیکن احمد دیدات سے مناظرہ کرتے وقت ان کی بحث نے حقیقی موضوع سے ہٹ کر عیسائیت کی بے جا حمایت کا رنگ اختیار کرلیا۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر بعض مسلم نوجوان یہ آرزو کرنے لگے کہ کاش یہ شخص اسلام قبول کرلیتا۔آخرکار۱۹۷۸ میں انھوں نے اسلام قبول کرلیا اور قبول اسلام کا اعلان کرکے اپنا نام عبدالاحد عمر رکھ لیا۔ اپنی زندگی کو مکمل طور پر اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے فارغ کرلیا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو پروگرام اور عام لیکچرز کے ذریعے اسلام کی تبلیغ اور اس کے دفاع کو اپنا مشن بنا لیا۔ حقیقت یہی ہے کہ اسلام دین خالد ہے، یعنی ہمیشہ رہنے والا دین۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو خاتم الأدیان بنایا ہے، اب اس کے بعد کوئی نیا دین آنے والا نہیں ہے اور اگر کوئی نیا دین وضع کرکے لاتا ہے یا اس کے علاوہ کوئی دین اپناتا ہے تو وہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ (المدینہ)
——