ہم مسلمانوں میں جس بیداری اور نشاۃ ثانیہ جدیدہ کے خواہش مند ہیں وہ خالصتاً قرآنی بنیادوں پر ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن نے ہمیں جو اسپرٹ دی ہے اور رہتی دنیا تک کے لیے جو اصول متعین کردیے ہیں وہ غیر متبدل ہیں۔
بحیثیت مسلمان عورت ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں اور امت کو در پیش خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ایک طرف روحِ قرآنی کو ٹھیک ٹھیک اپنے اندر جذب کرنا ہوگا اور دوسری جانب اپنی قوتِ فکر و نظر کو صحیح سمت میں رواں رکھنا ہوگا۔ اور اپنے شعور و آگہی کو اپنے خاندان سے لے کر درجہ بدرجہ عام لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔ جن خواتین کو اللہ نے صلاحیت دی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے افکار، معلومات اور تجزیوں کو مرتب کریں، کیوں کہ یہ وقت ہے کہ ہم اسلام کو ایک Dynamic Force کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کریں۔
اس ضمن میں جب ہم امت کی بیداری میں قرونِ اولیٰ کی خواتین کے کردار پر نظر ڈالتے ہیں تو عورت کے کردار کے حوالے سے بلاشبہ وہ ایک فراخ دل اور کشادہ معاشرہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے حیا اور حجاب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے وقار کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے خواتین کار آمد و فعال بنایاتھا۔
کتنا خوب صورت سبق ہے ہم عورتوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی اس واقعہ میں جو قرآن بیان کرتا ہے کہ بوڑھے باپ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں اپنی بکریوں کو چرانے کے لیے لے جاتی ہیں، بکریوں کو پانی پلانے کے ضمن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کی مدد کرتے ہیں، جس کو وہ قبول کرلیتی ہیں۔ باپ اور بیٹیوں کے درمیان اعتماد اور دوستی کا ایسا لازوال رشتہ ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ سے چھپاتی نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بکریوں کو پانی پلانے میں ان کی مدد کی ہے بلکہ حضرت موسیٰ کے اوصاف جو انہوں نے اپنی پاکیزہ اور حیادار آنکھوں سے دیکھے تھے، وہ بھی بیان کرتی ہیں۔ باپ یہ نہیں سوچتا کہ بیٹیوں کا گھر سے نکلنا ہی فتنوں کا سبب ہے اس لیے آئندہ ان کو گھر میں ہی بند رکھا جائے۔ بلکہ اس نے اپنی بیٹیوں کی جو تربیت کی ہے، وہ ان کو سمجھ اور شعور کے جس مقام و مرتبے پر دیکھتا ہے، وہ ان پر شک کرنے کے بجائے ان پر اعتماد کرتا ہے، ان کی رائے کو وزن دیتا ہے اور پھر ان لڑکیوں کو دوبارہ بھیجتا ہے کہ اس نوجوان کو بلا کر لائیں اور پھر اپنی بیٹیوں پر لازوال اعتماد کر کے ان کی رائے کی قدر کرتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی فرزندی میں لینے کا مشروط فیصلہ کرتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام وہ شرائط قبول کر کے اس خاندان پر اپنے اعتماد کا اظہا رکرتے ہیں۔ قرآن ہمیں اسلامی معاشرے کی ان اعلیٰ اقدار سے روشناس کراتا ہے۔ ہمارے معاشرے نے کوئی سبق لیا ہے اسلام کی ان اعلیٰ تعلیمات سے! کتنے فیصد باپ ہیں جن کو قرآن کے اس واقعے نے وسیع النظری عطا کی ہے…!!
ماں کے قدموں کے نیچے جنت کا جو تصور اسلام نے روشناس کرایا وہ عورت کی یہی قدر دانی تھی کہ وہ جہالت زدہ معاشرہ جہاں عورت ہر رشتے اور ہر کردار میں مشکوک تھی، جس کا وجود بھی قابل ملامت تھا، جو پیدائشی طور پر قابل گردن زدنی قرار پائی تھی، اس معاشرے میں ان پاکیزہ اسلامی تعلیمات سے کیسے کیسے بھونچال نہ آئے ہوں گے؟
اسلامی معاشرے کی عورت تب ہی اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکتی ہے جب اس کو اسی درجہ کا اعتماد اور وقار عطا کیا جائے۔ کون نہیں جانتا کہ بیوی سے حسن سلوک کو تقویٰ کا جزوِ لازم قرار دیا گیا ہے۔ جو عورت شوہر کی طرف سے سکون نہیں پاتی وہ کبھی اس کے بچوں کی تربیت صحت مند اقدار وروایات کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ گھر کی چار دیواری میں ملکہ قرار پانے والی یہی عورت امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں دامے درمے، سخنے ہمیں اپنا کردار ادا کرتی ہوئی ملتی ہے۔ یہی تو پراعتماد مائیں تھیں ۔۔۔ امت کی عظیم مائیں۔۔۔ اسلام کے احساسِ برتری سے سرشار مائیں جو اپنے جگر گوشے خدمت رسولؐ میں لاکر جہاد کے لیے پیش کردیتی تھیں۔ اور شہادت کی خبر پاکر حواس باختہ ہوکر بین کرنا نہیں شروع کردیتی تھیں بلکہ خدمت اقدس میں حاضر ہوکر ان کی شہادت کی قبولیت کی دعاؤں کی درخواست کرتی تھیں۔
اگرچہ کہ وہ مخلوط سماج نہ تھا۔ آزادانہ اختلاط نہ تھا عورت کی آزادی کے نام پر۔ لیکن مختلف میدانوں میں عورتوں اور مردوں کے درمیان صحت مندانہ اور پاکیزہ تعامل تھا۔ لیکن وہ اپنے حقوق اور کردار سے آگاہ خواتین تھیں۔ اگر شوہر کی طرف سے ملنے والے حقوق میں کمی ہے تو عورتیں براہِ راست خدمت اقدس میں حاضر ہو رہی ہیں۔ نہ ان کو زجر و توبیخ کی جا رہی ہے، نہ عورت کی شان اور وقار کے منافی قرار دیا جا رہا ہے، بلکہ ضرورت پڑ رہی ہے تو اللہ کے نبیﷺ اسی مجلس میں شوہر کو بھی بلا لیتے ہیں، اس کا محاسبہ کرتے ہیں، حق کی ادائیگی پر توجہ دلاتے ہیں اور شوہر جو بلاشبہ خوفِ خدا رکھنے والا شوہر ہے، گھر جاکر بیوی کو ہرگز زد و کوب نہیں کرتا کہ اس کی یہ جرات کیوں کر ہوئی! بلکہ پہلے سے بہتر معاملہ کرتا ہے۔ خلفائے راشدین نے بھی اسی روایت کو برقرار رکھا کہ عورتیں اپنے حقوق کے لیے براہِ راست خلیفہ وقت سے رجوع کرتی تھیں اور اس کو ہرگز عیب نہ سمجھا جاتا تھا۔ اس امت کی بیداری میں عورت کے کردار سے تاریخ اسلامی سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد بھی آگاہ ہے کہ حضرت سمیہؓ اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں۔ ام عمارہؓ نے غزوہ احد میں جو کردار ادا کیا وہ رہتی دنیا تک امت کو روشنی فراہم کرتا رہے گا۔ ام شریکؓ کے بارے میں روایات ہیں کہ وہ قریش کے اعلیٰ گھرانوں کی خواتین کے پاس اسلام کی دعوت لے کر جاتی تھیں اور بہت سی خواتین ان کی کوششوں سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئیں۔ اسماء بنت یزیدؓ اور حمنہ بنت جیشؓ کے بارے میں تاریخ طبری میں درج ہے کہ ان خواتین نے میدانِ جنگ میں مردوں کے دوش بدوش ہتھیار اٹھائے اور درجنوں اہل باطل کا خون ان کی تلواروں سے ٹپکا۔ اگرچہ کہ قتال میں حصہ لینا عورتوں کے فرائض میں داخل نہیں ہے لیکن بہ وقت ضرورت انہوں نے اس کردار کو بھی نبھایا اور رہتی دنیا تک کی عورتوں کے لیے مثال قائم کی کہ عورتیں اجتماعی امور سے غیر متعلق نہیں رہ سکتیں اور اجتماعی امور میں عملاً سرگرم عمل تھیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے لیے مردوں سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف کو مقرر کیا گیا کہ وہ خواتین کی رائے معلوم کریں۔ یعنی اتنے حساس حکومتی امور میں عورت کی رائے کا اتنا ہی وزن ہے جتنا مردوں کی رائے کا۔کون نہیں جانتا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ حدیث اور تفقہ فی الدین میں چودہ سو برس سے امت کے مردوں کے لیے بھی علم کا مینار ہیں۔ کل بھی مرجع خلائق تھیں اور رہتی دنیا تک ان کے علم سے استفادہ کیا جاتا رہے گا۔
اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور مسلمانوں کا عروج اسی صورت میں ممکن ہے جب آج کی عورت پوری جرأت کے ساتھ مدینہ کی اسی سوسائٹی کو پھر سے زندہ کرے۔ مدینہ کی پاکیزہ سوسائٹی میں عورت کے کردار پر کون اعتراض کرسکتا ہے؟ ایک طرف آیاتِ حجاب نے اس کو تحفظ فراہم کیا تو دوسری طرف غض بصر کے احکامات نے اس کی عفت کو محفوظ کر دیا۔ حق کو اس وقت صرف تائید کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ محض تائید تو ہمیں متبع بناتی ہے۔ ہم کو تو ان اعلیٰ قدروں کے داعی اور علم بردار کا کردار ادا کرنا ہے، جس کی مثالیں قرونِ اولیٰ کی خواتین نے مرتب کی ہیں۔ ہم حق کی صرف تائید نہیں کرتیں بلکہ اس کی داعی اور علم بردار ہیں، کیوں کہ قرآن نے علم برداری کا یہ مشن بغیر کسی صنفی تخصیص کے عورت اور مرد دونوں کے حوالے کیا ہے۔lll