اسلام کے بغیر دنیا کنگال ہے!

عطیہ جمال

[ڈاکٹر سروج شالنی نے ایک ہندو گھرانے میںجنم لیا۔ وہ نہ صرف خود ایک ماہر امراض قلب ہیں بلکہ ایک ماہر امراض قلب پروفیسرکی بیٹی بھی ہیں۔ انہوں نے ۲۰؍ مئی ۲۰۰۴ کو اسلام قبول کیا۔ ان کے قبولِ اسلام کی روداد انہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رہے کہ انہوں نے اپنی یہ روداد جنوری ۲۰۰۶ میں بیان کی تھی۔]

’’میں ۴۲؍ ستمبر۱۹۷۸ کو لکھنؤ کے پاس موہن لال گنج میں ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی۔ والدین نے میرا نام سروج شالنی رکھا۔ میرے والد ڈاکٹر کے اے شرما پروفیسر تھے اور انہوں نے کارڈیا لوجی میں ڈی ایم کیا تھا۔ اس کے بعد کافی عرصے تک وہ پنت اسپتال میں رہے۔ دس سال قبل لکھنؤ میں گھر کے قریب کوشش کر کے ٹرانسفر کرالیا۔ میری ماتا (والدہ) گھریلو خاتون ہیں۔ میرے والد مزاج کے لحاظ سے بالکل ہندوستانی ہیں۔ وہ صرف مشرقی تہذیب سے اتفاق رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں پر دباؤ ڈال کر بہت سی ڈاکٹروں کو چھوڑ کر میری والدہ کو پسند کیا اور شادی کی۔ میرے دو بھائی ہیں، ایک بنارس ہندو یونیورسٹی میں ریڈر ہیں اور دوسرے بی ایچ ایل میں انجینئر ہیں، دونوں مجھ سے بڑے ہیں۔ میں نے انٹر سائنس بائیولوجی میں فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا اور پھر لکھنؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور مولانا آزاد میڈیکل کالج دہلی سے ایم ڈی کیا۔

اپنے والد کی خواہش پر کارڈیا لوجی (امراض قلب) کو منتخب کیا۔ اب میں AIMS میں MD بھی کر رہی ہوں اور آج کل AIMS میں ہی ڈپارٹمنٹ آف کارڈیا لوجی میں ملازمت بھی کرتی ہوں۔ میں نے ۲۰؍ مئی ۲۰۰۴ کو برہسپت وار (جمعرات) گیارہ بجے گرین پارک کی مسجد میں مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

جون ۲۰۰۳ میں ICCU بچوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تھی، میں نے دیکھا کہ ایک مولوی صاحب ہریانہ کے ایک بچے کو دیکھنے آئے۔ بچے کے پاس صرف ایک تیمار دار (Attendant) کو رہنے یا کھڑے ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔ بچے کے والد باہر چلے گئے۔ مولوی صاحب نے بچے کو پڑھ کر پھونکا۔ پورے وارڈ میں آٹھ بیڈ تھے۔ صرف ایک مریض مسلمان تھا۔ بچے کو پھونکتے دیکھ کر برابر والے مریض کی ماں نے بھی مولوی صاحب سے اپنے بچے کو پھونکنے کے لیے کہا۔ بچے کی ماں ہریانہ والے بچے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ مولوی صاحب نے دوسرے بچے پر بھی دم کیا۔ اس کو دیکھ کر برابر والی ماں نے بھی اپنے بچے کو پھونکنے کے لیے کہا۔ ایک کے بعد ایک ،تمام بچوں کے پاس مولوی صاحب آکر کھڑے ہوتے اور پھونکتے رہے۔ ڈاکٹر تیاگی جو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے، ان کے راؤنڈ کا ٹائم تھا، میں سامنے سے دیکھ کر وارڈ میں آئی اور مولوی صاحب سے پوچھا: آپ کا مریض کون سا ہے؟ آپ کبھی اس مریض کے پاس ، کبھی اس مریض کے پاس آرہے ہیں اور پھونک رہے ہیں، یہ I.C.U ہے، یہاں انفکشن (Infection) کا خطرہ رہتا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا: یہ سارے مریض میرے ہیں، اس لیے ہمیں بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لیے یہاں ایڈمٹ ہر مریض سے میرا خونی رشتہ ہے۔ جس مالک نے آپ کو اور مجھے پیدا کیا ہے، اس کو یہ ’’تیرا میرا‘‘ بالکل پسند نہیں، اور جو چیز میں پڑھ کر پھونک رہا ہوں وہ اسی مالک کا کلام ہے، جس نے اپنے کلام میں یہ بات ہی ہے۔ اپنے سچے سندیش واہک (رسول) ابراہیم کی زبان سے یہ بات کہی، اور ابراہیم وہ ہیں، جن کے نام پر بھارت کے لوگ اپنے کو برہمن (براہیمی) کہلاتے ہیں کہ ’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مالک شفا دیتا ہے یعنی ٹھیک کرتا ہے‘‘ (القرآن، الشعراء:۸۰)۔ آپ روز دیکھتی ہوں گی، آپ اپنی سوچ سے اچھی اچھی دوا مریض کو دیتی ہیں، اور مریض ٹھیک ہونے کے بعد مر جاتا ہے، اور علاج میں غلطی ہوتی ہے اور مریض ٹھیک ہو جاتا ہے۔

ایسی باتیں میں نے پہلی بار سنی تھیں۔ پچھلے ہفتے ہمارے وارڈ کے چھ بچے ایکسپائر ہوگئے (مرگئے) تھے۔ ان میں سے چار بچے بہت سندر (خوبصورت) تھے اور دو ہفتے تک وارڈ میں رہنے کی وجہ سے مجھے بھی ان سے بہت تعلق ہوگیا تھا۔ ان کی موت سے دل پر بہت صدمہ تھا۔ مولوی صاحب کی محبت بھری باتیں سن کر مجھے ایسا لگا کہ مجھے ان کی کچھ اور باتیں سننی چاہئیں۔ میں نے مولوی صاحب سے اپنے کیبن میں آنے کو کہا۔ مولوی صاحب نے میری درخواست قبول کی۔ انہوں نے مجھ سے کہا: آپ میری بیٹی، بہن یا میری اولاد کی طرح ہیں اور محبت سے مجھے بلاکر لائی ہیں، تو میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے وارڈ میں آنے والے مریض کو اپنا بچہ یا اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درد اور تکلیف کو اسی طرح لیں۔ مالک نے آپ کو کیسا اچھا موقع دیا ہے کہ آپ کو پریشان حال لوگوں کے درد میں شریک کیا۔ آپ کو خود اندازہ ہوگا کہ جس ماں کا بچہ اتنا بیمار ہو کہ ICU میں ایڈمٹ ہو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ سرکاری اسپتال میں ایسے مریض بھی آتے ہیں، جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔ ان کے ساتھ ذرا سی ہمدردی آپ کریں گی تو ان کے رواں رواں، بلکہ انتر آتما (اندرون) سے آپ کے لیے دعائیں نکلیں گی۔آخر میں مولوی صاحب نے بڑے احترام سے میرا نام پوچھا اور بولے: ڈاکٹر شالنی! آپ میری خونی رشتے کی بہن کی طرح ہیں، اس لیے میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں بلکہ وصیت کرتا ہوں، اور وصیت اس کو کہتے ہیں جو کوئی مرنے والا اپنے بچے سے مرنے کے وقت اپنی آخری بات کے طور پر کہتا ہے کہ آپ وارڈ میں آنے والوں کا علاج سب سے بڑی پوجا سمجھ کر کریں، آپ کو سیکڑوں سال کی تپسیا اور کٹھن پوجا (مشکل عبادت) میں مالک کے ہاں وہ جگہ نہیں ملے گی، جو کسی پریشان حاصل مریض اور اس کے مصیبت زدہ ماتا پتا (والدین) کو تسلی دینے سے ملے گی۔

میں نے مولوی صاحب کا بہت شکریہ ادا کیا اور وعدہ کیا کہ میں کوشش کروں گی۔ مولوی صاحب چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے راؤنڈ کے بعد میں نے پانی پت ہریانہ کے اس بچے کے باپ سے معلوم کیا کہ یہ مولوی صاحب کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ ہمارے حضرت جی ہیں۔ یہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ ان کے ہاتھوں پر ہزاروں ہندو مسلمان ہوچکے ہیں۔ کافی دنوں تک مولوی صاحب کی باتوں کا میرے دل میں اثر رہا، خاص طور پر یہ بات کہ یہ سارے مریض میرے ہیں، جس مالک نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس کو ’’یہ تیرا میرا‘‘ پسند نہیں۔ میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ مولوی صاحب کے پھونکنے سے مریضوں کی حالت میں عجیب فرق آیا ہے اور سارے مریض ٹھیک ہوکر وارڈ سے گئے، لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد ذہن سے بات نکل گئی۔

مولانا آزاد میڈیکل کالج دہلی میں میری ایک روم پارٹنر ڈاکٹر رینا سہگل تھیں۔ گائنی میں ایم ایس کرنے کے بعد وہ صفدر جنگ اسپتال میں گائنی ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہوگئی تھیں۔ ہم لوگوں میں خاص دوستی ہے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کھانے پر بلایا۔ ان کے ہاں مسلمان کام کرنے والی آتی تھی، وہی کھانا وغیرہ بناتی تھی۔ میں نے ان سے کہا: تم نے مسلمان کھانا بنانے والی کیوں رکھی ہے، تمہیں کوئی ہندو نہیں ملی؟ وہ کہنے لگیں: یہ بڑی اچھی لڑکی ہے، بہت ایماندار ہے، کئی بار میرا پرس گر گیا، جوں کا توں مجھے لاکر دیا۔ باتوں باتوں میں مسلمانوں کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ ڈاکٹر رینا کہنے لگیں: جیسے جیسے ہمارے دیش بلکہ پورے سنسار (دنیا) میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا میں باتیں آرہی ہیں، لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ مائیکل جیکسن کے بارے میں تمہیں معلوم ہوگیا ہوگا کہ وہ بھی مسلمان ہوگیا ہے۔ اس سے قبل اس کا بھائی جرمین جیکسن اسلام قبول کرچکا ہے۔ ہمارے اسپتال میں کارڈیا لوجی میں ایک نوجوان ڈاکٹڑ بلبیر نام کے ہیں، وہ بھی چند سال پہلے اسلام قبول کرچکے ہیں۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ اسپتال کے تمام لوگ مسلمان ہوجائیں۔ ایک مریض کے سلسلے میں ان کو چیک اپ کے لیے بلایا، بس مجھ سے کہنے لگے: ’’اگر مرنے کے بعد نرک (جہنم) سے بچنا ہے تو مسلمان ہوجاؤ۔‘‘ مجھے یہ سن کر اپنے وارڈ میں آئے مولوی صاحب یاد آگئے اور ان کی ساری باتیں تازہ ہوگئیں۔ میں نے ڈاکٹر رینا سے کہا: آپ مجھے ڈاکٹر بلبیر سے ضرور ملائیں۔ انہوں نے اگلے روز فون کرنے کو کہا۔ دوسرے روز انہوں نے بتایا کہ اتوار کو ڈاکٹر بلبیرکو میں نے اپنے کمرے میں بلایا ہے، آپ دس بجے میرے کمرے میں آجائیں۔

اتوار کے روز میں ڈاکٹر رینا سہگل کے کمرے میں آگئی۔ ڈاکٹر بلبیر بھی آگئے۔ سانولے رنگ کے بہت ہی سنجیدہ نوجوان، جیسے کسی گہری سوچ میںگم ہوں۔ میں نے ان سے معلوم کیا: آپ نے کتنے دن پہلے اسلام قبول کیا؟ انھوں نے بتایا: آٹھ نو سال پہلے۔ میں نے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا: صرف اور صرف اسلام ہی سچا اور سب سے پہلا اور سب سے انتم دھرم (آخری دین) ہے اور اسلام کے بغیر مرنے کے بعدکی زندگی میں نہ تو موکش (معافی) ہے نہ مکتی (نجات) اور ہمیشہ ہمیشہ کی نرک (جہنم) ہے۔ اور اسلام قبول کرنا آپ کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا میرے لیے۔ میں نے معلوم کیا: آپ نے نام بھی بدل لیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میرا اسلامی نام ولی اللہ ہے، جس کا ارتھ (معنی) ہے اللہ کا یعنی ایشور کا دوست۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ایک مولوی صاحب آئے تھے، انہوں نے مجھ سے کچھ باتیں کی تھیں، وہ آج تک میرے دل کو لگی ہوئی ہیں۔ وہ وارڈ کے ہر مریض کو پھونک رہے تھے۔ میرے معلوم کرنے پر کہ آپ کا مریض کون سا ہے؟ انہوں نے کہا کہ سارے مریض میرے ہیں۔ ہم سب ایک ماں باپ کی اولاد، خونی رشتے کے بھائی ہیں۔‘‘ یہ تیرا میرا‘‘ پیدا کرنے والے مالک کو بالکل پسند نہیں۔ ڈاکٹر بلبیر کہنے لگے: مولوی صاحب نے یہ باتیں بالکل سچی کہی تھیں۔ یہ تو ہم سب کے رسول محمدﷺ نے اپنے آخری حج کے بھاشن (خطبے) میں کہی تھیں۔ میں نے پوچھا: کیا وہ بھاشن (خطبہ) چھپا ہوا ملتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، ہمارے نبی کا ہر بول پوری طرح سور کشت (محفوظ) ہے اور چھپا ہوا ملتا ہے، میں ڈاکٹر رینا کے ہاتھ آپ کو بھجوا دوں گا۔

دو چار روز کے بعد ڈاکٹر رینا سہگل نے مجھے وہ پمفلٹ جس میں حضرت محمد (ﷺ) کے آخری حج کا خطبہ انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ تھا، لاکر دیا۔ اس کو پڑھ کر میں حیران رہ گئی، خاص طور پر عورتوں کے بارے میں بار بار ان کی چرچا میرے دل کو لگ گئی۔ مجھے مولوی صاحب کی یاد آئی اور خیال پیدا ہوا کہ اچھا ہوتا کہ میں مولوی صاحب کا پتا لے لیتی۔ میں نے اسپتال میں پرانے مریضوں کی فائلیں تلاش کیں کہ پانی پت کے مریض کا پتا مل جائے تو میں خود مریض کے گھر جاکر مولوی صاحب کا پتا معلوم کروں، مگر مجھے پتا نہ مل سکا۔ مجھے اسلام کو پڑھنے اور اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق ہوگیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے ملنے کے لیے وقت طے کیا۔ صدر جنگ اسپتال جاکر ان کے وارڈ میں ان سے ملی اور ان سے اسلام کے بارے میں لٹریچر دینے کو کہا۔

دوسرے روز وہ میرے اسپتال آئے اور مجھے ایک چھوٹی سی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا میں‘‘ ہندی میں دی او رکہا کہ اسلام کی ضرورت اور اس کے بارے میں جاننے کے لیے یہ چھوٹی سی کتاب سو کتابوں کی ایک کتاب ہے، بس یہ کتاب آپ کو یہ سوچ کر پڑھنی ہے کہ ایک سچا ہمدرد صرف مجھ سے یہ بات کہہ رہا ہے۔ آپ کتاب پڑھیں گی تو آپ کو خود ایسا لگے گا۔ میں نے اس کتاب کے لیکھک (مصنف) کے ہاتھ پر ہی اسلام قبول کیا ہے۔ کتاب کے دو شبد (لفظ) کتاب کی جان ہیں۔ ان کو پڑھ کر آپ کتاب اور کتاب لکھنے والے کو جان جائیں گی۔ ڈاکٹر بلبیر نے مجھے بتایا کہ وہ دہلی کے پاس یوپی کے ایک شہر کے راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کتاب دے کر اور کچھ دیر چائے وغیرہ پی کر وہ چلے گئے۔ میں نے وارڈ میں ہی کتاب بس ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالی۔ کتاب پڑھ کر مجھے مولوی صاحب کی بہت یاد آئی۔ کتاب نے میرے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ میں نے کتاب پڑھ کر ڈاکٹر بلبیر کو فون کیا اور ان سے کہا کہ کتاب کے لیکھک (مصنف) کی اور کوئی کتاب مجھے دیجئے گا اور اگر ان سے مجھے آپ ملا سکیں تو آپ کا مجھ پر بڑا آبھار (احسان) ہوگا۔

چار روز بعد ۱۸؍ مئی کی تاریخ تھی، ڈاکٹر بلبیر کا فون آیا، انہوں نے بتایا کہ اگر آپ چھٹی لے کر سکتی ہیں تو ’’آپ کی امانت‘‘ کے لیکھک (مصنف) مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب سے گرین پارک کی مسجد میں ملاقات ہوجائے گی۔ میں فوراً تیار ہوگئی۔ ہم آٹو سے گرین پارک کی مسجد میں پہنچے۔ مولوی صاحب گیارہ بجے کے بجائے ساڑھے دس بجے ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔ ان کو آگے سفر کرنا تھا۔ مولوی صاحب کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی۔ جب میں نے دیکھا کہ ’’آپ کی امانت‘‘ کے لیکھک (مصنف) مولوی محمد کلیم وہی مولوی صاحب ہیں جو ڈیڑھ سال پہلے میرے وارڈ میں ہریانہ کے بچے کو دیکھنے آئے تھے اور جن کو میں اس قدر تلاش کر رہی تھی تو محبت اور عقیدت سے میں مولوی صاحب کے قدموں میں گر گئی۔ مولوی صاحب نے سختی سے منع کیا اور مجھ سے کہا: ’’اب کیا دیر ہے؟‘‘ آپ کی امانت‘‘ پڑھنے کے بعد بھی آپ کو کوئی شک رہ گیا ہے؟‘‘ حالاں کہ میںمولوی صاحب سے صرف ملنے ہی آئی تھی، مگر میں خود کو روک نہ سکی اور میں نے مولوی صاحب سے کہا: میں مسلمان ہونے ہی آئی ہوں۔ مولوی صاحب بہت خوش ہوئے اور مجھے فوراً کلمہ پڑھایا اور میرا اسلامی نام سروج شالنی کی جگہ صفیہ شالنی (ایس شالنی) رکھا۔ مولوی صاحب نے مجھے کچھ کتابیں لکھ کر دیں اور نماز یاد کرنے اور پڑھنے کی تاکید کی۔

مولوی صاحب نے مجھے اسلام کا اعلان کرنے سے سختی سے منع کردیا، مگر پھر بھی میں نے اپنے خاص خاص ملنے والوں سے ذکر کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے بہت جوش سا بھی آتا ہے کہ اسلام ہی جب حق ہے تو اسے چھپانا اور ڈر ڈر کر جینا کیسا؟ پھر مجھے یہ خیال آجاتا ہے کہ جس انسان کی بدولت مجھ گناہ گار اور خدا سے ناآشنا کو اسلام کی روشنی ملی ہے اس کی نصیحت سے منہ کیسے موڑ سکتی ہوں۔

میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں اپنی سہیلی ڈاکٹر رینا سہگل کو نہ صرف بتا دیا بلکہ میں اور ڈاکٹر ولی اللہ دونوں ان کو مسلسل اسلام کی دعوت دینے لگے اور الحمد للہ انہوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا ہے، مگر وہ شادی شدہ ہیں، ان کے شوہر ڈاکٹر بی کے سہگل اپنا کلینک کرتے ہیں، بڑے سخت مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور ادھر چند سالوں سے وہ رادھا سوامی سنگ سے بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کی وجہ سے وہ دبی ہوئی ہیں۔

اصل میں ڈاکٹر ولی اللہ خود دل کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔ ان کو ایک ایسی بیماری ہوگئی، جس سے رفتہ رفتہ دل کمزور ہو جاتا ہے اور پھر اس میں پیس میکر لگانا پڑتا ہے۔ وہ اپنے علاج کے سلسلے میں مجھ سے زیادہ رابطے میں رہے۔ میں نے ان کے علاج میں بہت دلچسپی لی۔ ان کی شادی ایک سرکاری ملازمت میں لگی لڑکی سے ہوئی۔ انہوں نے اس کو شادی سے پہلے بتا دیا تھا اور یہ بھی طے کرلیا تھا کہ پہلے مسلمان ہوکر نکاح کرنا ہوگا، پھر خاندانی رواج کے مطابق شادی ہوگی۔ انہوں نے اسے کلمہ پڑھوا کر نکاح بھی کیا، مگر بعد میں وہ اسلام کی طرف زیادہ دلچسپی نہ رکھ سکی، اس کی ملازمت بھی اس میں حائل رہی۔ اسلام سے ان کی بیوی کی عدم دلچسپی ان کو گھن کی طرح کھاتی رہی اور وہ دل کے مریض ہوگئے۔ ایلو پیتھک علاج کارگر نہ ہوا تو مولوی صاحب نے ان کو یونانی دوا اور کچھ خمیرے وغیرہ بتائے۔ اللہ کا کرم کہ وہ دو ماہ میں بالکل ٹھیک ہوگئے۔ مولوی صاحب نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ عرب ملک چلے جائیں اور اپنی بیوی کو وہیں بلالیں، اس کو سازگار ماحول مل جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کو سعودی عرب میں ملازمت مل گئی اور اب گزشتہ ماہ انہوں نے اپنی بیوی کو بھی وہیں بلا لیا ہے۔ ان کے جانے سے ان کا مسئلہ تو حل ہوگیا، مگر میں اکیلی سی ہوگئی۔ ڈاکٹر رینا جن کا نام فاطمہ رکھا گیا تھا، ان کے شوہر پر ڈاکٹر ولی اللہ کام کر رہے تھے اس میں کمی آگئی، میں ذرا کھل کر ان سے بات نہیں کرسکتی تھی۔

میںنے اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں اپنے والد صاحب کو صاف صاف بتا دیا۔ انہوں نے خوش دلی سے تو قبول نہیں کیا، مگر رفتہ رفتہ ان کی ناگواری کم ہوتی گئی۔ میرے والد صاحب میری شادی کے سلسلے میں چھ سات سال سے فکر مند تھے۔ بہت اچھے اچھے رشتے خود ان کے شاگردوں کے آئے، مگر میرے اللہ کو کچھ اور منظور تھا، اس لیے میں خود کو تیار نہ کرسکی اور DM کرنے کا بہانہ کرکے منع کر دیا۔ میں نے مولوی صاحب سے کئی بار اپنے اسلام کے اعلان کی اجازت مانگی، مگر انہوں نے خاموشی سے گھر والوں پر کام کرنے کو کہا۔ جب میں نے اپنی نماز، روزے کی تکلیف کا ذکر کیا تو مولوی صاحب نے ڈاکٹر ولی اللہ کے جانے کے بعد مجھے بھی کسی عر ب ملک میں ملازمت کے بہانے جانے کے لیے کہا اور ڈاکٹر ولی اللہ صاحب سے بھی انہوں نے فون پر کسی جگہ کے لیے بات کی۔ الحمد للہ جدہ میں کنگ عبد العزیز اسپتال میں میرا تقرر ہوگیا اور مجھے دو سال کے لیے چھٹی مل گئی۔ تین ماہ سے تیاری کے سلسلے میں چھٹی پر ہوں۔

پی جی آئی چنڈی گڑھ کے ایک سرجن ڈاکٹر اسعد فریدی، جو اپنے اسپتال کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے پہلے اکلوتے ڈاکٹر تھے، ان سے رشتے کے سلسلے میں مولوی صاحب نے ایک بار مجھ سے معلوم کیا کہ اگر آپ راضی ہوں تو میں کوشش کروں۔ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ میرے لیے تو اس سے زیادہ خوشی کی کوئی بات نہیں ہوسکتی، مگر ایک طرف تو آپ اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت نہیں دیتے، دوسری طرف نکاح کے لیے مجھ سے معلوم کر رہے ہیں، یہ فیصلہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ راضی ہوں تو میں یہ مسئلہ بھی حل کرتا ہوں۔ میں نے منظور دے دی، انہوں نے ڈاکٹر اسعد اور ان کے والدین سے مجھے ملایا۔ دونوں طرف کے لوگ بہت مطمئن اور خوش ہوئے۔ انہوں نے چند لوگوں کو بلا کر میرا نکاح کر دیا۔ اللہ کا کرنا ڈاکٹر اسعد کی پوسٹنگ بھی جدہ کنگ عبد العزیز اسپتال میں ہوگئی، انہوں نے اپلائی کر رکھا تھا۔ وہ جدہ دسمبر ۲۰۰۵ میں چلے بھی گئے، میرا ویزہ وغیرہ آنے والا ہے۔ اللہ کرے جلدی آجائے، میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی سال حج کرا دے۔

میرے اللہ کا شکر ہے کہ اسلام کی ہر بات مجھے اندر سے پسند ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلام میرے اندر کا فطری مذہب ہے۔ جب میں نے سنا کہ میرے شوہر ڈاکٹر پی جی کی تاریخ میں شیروانی اور داڑھی والے پہلے ڈاکٹر ہیں تو میرا دل چاہا کہ میں اسلام کا اعلان کرکے برقع اوڑھ لوں اور آل انڈیا میڈکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں برقع والی پہلی ڈاکٹر بنوں، مگر مولوی صاحب نے میرے اس جذبے کی بہت حوصلہ افزائی کرنے کے باوجود مجھے ایسا کرنے سے روک دیا اور دوچار سال کے لیے سعودی عرب جانے کو کہا۔ میرا خیال ہے اور مجھے اس خیال سے بھی مزا آتا ہے کہ پورے اسپتال میں پہلی اور اکیلی برقع والی نو مسلم ڈاکٹر کی موجودگی یقینا پورے اسپتال کے لوگوں کو اسلام کو جاننے کی طرف ضرور راغب کرے گی۔ میرا نکاح تو اچانک ہی ہوگیا، مگر مولوی صاحب نے میرے والد والدہ کو جب لڑکا دکھایا اور بتایا کہ ایک پیسہ یا انگوٹھی کے جہیز کے بغیر یہ شادی ہوگئی ہے اور سماج کے جھگڑے سے بچنے کے لیے یہ کریں گے کہ پہلے ڈاکٹر اسعد فریدی سعودی عرب جائیں گے اور بعد میں ڈاکٹر شالنی جائیں گی، کسی کو پتا بھی نہ لگے گا اور بعد میں یہ خیال ہوگا کہ سعودی عرب جاکر یہ شادی ہوئی ہوگی، اس طرح برادری اور عزیزوں کو زیادہ برا نہیں لگے گا۔ وہ راضی ہوگئے، خصوصاً ڈاکٹر اسعد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ بار بار مجھ سے میرے والد کہتے کہ شالنی! تیری قسمت بہت اچھی ہے، چاند سا دولہا تجھے مل گیا ہے۔ واقعی وہ مجھ سے بہت زیادہ خوب صورت ہیں۔ وہ ڈاکٹر اسعد کو دہلی ایئر پورٹ تک چھوڑنے آئے اور بہت پیار بھی کیا۔

بلاشبہ میرے اللہ کا بہت کرم ہے۔ میں جب بھی خیال کرتی ہوں، اپنے اللہ کے حضور سجدے میں دیر تک گر جاتی ہوں۔ واقعی میں اس لائق کہاں تھی، کفر و شرک کے اندھیرے میں مجھے اسلام نصیب ہوا۔ یہ اس ناچیز پر میرے مالک کا کرم ہے۔

میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کی اس ترقی یافتہ دنیا کو صرف اور صرف اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کے بغیر یہ دنیا بالکل کنگال ہے۔ یہ میں کوئی شاعری نہیں کر رہی ہوں، بلکہ اس ترقی یافتہ دنیا کو بہت قریب سے دیکھ کریہ بات کہہ رہی ہوں۔ اس کنگال دنیا کو صرف اسلام درست کرسکتا ہے، ورنہ یہ دنیا تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ اس کے دیوالیہ پن اور اندھیرے کا علاج صرف اور صرف اسلام ہے، پھر بھی اس کنگال دنیا سے ہم مرعوب کیوں ہیں؟

مجھے افسوس اور حیرت ہوتی ہے جب میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ اس دیوالیہ اور اندھیری دنیا میں اپنے پاس دیوالیہ پن کا علاج اور سب سے بڑی دولت رکھنے کے باوجود ہم احساسِ کمتری میں مبتلا کیوں ہیں؟ ہمیں اس پر شاکر ہونا چاہیے،بلکہ فخر ہونا چاہیے، اور اس محروم دنیا پر ترس کھانا چاہیے، ہمیں اس معنی میں خود کو سخی اور دنیا کو مفلس سمجھنا چاہیے۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں