اسلام کے نظام خاندان کی اخلاقی بنیادیں

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے بلکہ اسلامی معاشرت کی تو بنیادی ہی اخلاق حسنہ ہے۔ اسلام کا اخلاقی نظام مختلف دائروں میں تقسیم ہے اور اس کی ابتداء فرد کی انفرادی زندگی سے ہوتی ہے۔ اسلام ہر فرد کو ایک ذمہ دار انسان تصور کرتا ہے اور اس ناطے اسے اپنے گھر ، خاندان اور سماج کا مہذب شہری بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی بنیادی اخلاقیات پر رکھتا ہے۔ اسے تمام تر غیر اخلاقی برائیوں سے دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کے بعد گھریلو سطح پر یا خاندان میں والدین کے ساتھ حسن سلوک، بھائی بہنوں کے ساتھ احسان اور صلہ رحمی، بیوی کے ساتھ محبت، اولاد کے ساتھ شفقت اور بہترین تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان تمام تر اخلاقی برائیوں سے خاندان کو بچانے کی کوشش پر بھی ابھارتا ہے جس سے خاندان میں دڑاڑ پڑ جائے اور دلوں میں کڑواہٹ جنم لے۔ اس کے ساتھ ہی اہلِ خاندان کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیتا ہے۔اسلام باہمی معاملات کو مطلب پرستی اور خود غرضی سے نہیں بلکہ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے سے انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی روح ہمدردی و خیر خواہی، عدل و انصاف اور مساوات و احترام نفس ہے۔
آج ہمارا خاندان انتشار کا شکار ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ میں مصروف ہے، ایک نفسا نفسی کا سا عالم ہے۔ ٹکنالوجی کے اس دور میں ایک گھر میں رہنے والوں کو دوسرے کی خبر نہیں۔ مادیت میں حد سے زیادہ گھر جانے کی وجہ والدین کے پاس بھی بیٹھنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ بھائی بہن جیسا مضبوط رشتہ بھی تار عنکبوت کی طرح کمزور پڑ گیا ہے ۔ زمین جائیداد ، اسٹیٹس، خوب سے خوب تر کی تلاش میں رشتے کہیں کھو گئے ہیں ایسے میں ضرورت ہے اسلامی تعلیمات کو اپنے گھر اور خاندان میں عام کرنے کی، تاکہ ہمارا خاندان ہمارے لئے سکون کا گہوارہ بن جائے اور رشتوں کی مٹھاس سے ہمارے زندگی کی تلخیاں کم ہو جائیں۔ آج کے اس مضمون میں اسلام کے نظامِ خاندان کی اخلاقی بنیادوں پر بحث ہے تاکہ ہم ان بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کرسکیں۔
1- محبت
نکاح خاندان کی بنیاد کا اسلامی طریقہء کار ہے۔ اس بنیاد کو محبت ، خلوص، دیانتداری اور پاکیزگی سے مضبوط کیاگیاہے۔ سورہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے خود تمہیں میں سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی‘‘۔
محبت کسی بھی رشتے کی جان ہوتی ہے یہ ایک فطری اور انمول جذبہ ہے۔چونکہ اسلامی خاندان کی شروعات نکاح کے رشتے سے ہوتی ہے اسی لئے شوہر و بیوی کے رشتے میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی کیونکہ دونوں کے ذریعے ایک خاندان کی تشکیل ہونی ہے اور نوع انسانی کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے اور اس کے لئے شوہر و بیوی کے درمیان گہری وابستگی اور اپنی ذمہ داریوں کے تئیں سنجیدگی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جتنا زیادہ محبت و احترام میاں بیوی میں ہوگا، گھر کے دوسرے رشتے اتنا ہی زیادہ محبت سے گندھے ہوں گے۔ جب بیوی شوہر سے پیار کرے گی تو وہ تما م رشتے بھی اس کے لئے انمول ہوں گے جو شوہر سے جڑے ہوں گے اور شوہر جب بیوی سے محبت کرے گا تو بیوی کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ وہ ان تمام رشتوں کا بھی خیال کرے گا جو بیوی سے جڑے ہوں گے۔اس طرح محبت کی ایک پرخلوص فضا قائم ہو گی اور اس ماحول میں پلنے والی نسل رشتوں سے محبت کرنا اور انہیں نبھانا سیکھیں گی۔ گھر کاہر فرد دوسرے سے محبت کرے اور خیال رکھے۔ یہ محبت جتنی بے غرض او بے لوث ہوگی رشتہ اتنا ہی خوبصورت اور رشتوں کو نبھانا اتنا ہی آسان ہو گا۔ خاندان کے ہر فرد کا مزاج اور سوچ الگ ہوتی ہے ۔ رہن سہن ، کھانے پینے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے یہاں تک کہ بھائی بہن بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں لیکن جو چیز انہیں رشتے کے بندھن میں باندھ کر ساتھ رہنے پر مجبور کرتی ہے وہ محبت کا احساس ہے ۔ یہ محبت ہی ہوتی ہے دور رہتے ہوئے بھی انسان قربت محسوس کرتا ہے، اپنی خوشیوں اور غموں کو بانٹ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ جس خاندان میں جتنی زیادہ محبت ہوگی وہ خاندان اتنا ہی زیادہ مستحکم اور مضبوط ہوگا۔
2- عزت و احترام
خاندان کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے میں عزت وحترام کااہم کردار ہے۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جس سے گھر کی بنیادیں عرصہ دراز تک پایئدار رہتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اپنے بزرگوں کی عزت نہ کرے اور اپنے سے چھوٹوں سے شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ہمارے گھرانوں میں عزت و احترام کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ رشتوں کا پاس و لحاظ بھول رہے ہیں۔جس گھر کے مکینوںکے اندر ایک دوسرے کی عزت کا پاس اور ادب و احترام ہوتا ہے وہ جنت نظیر بن جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عمل سے اگر دیکھا جائے تو جب حضرت فاطمہ ؓ جب آپﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہو کو استقبال کرتے ۔ جب حضورﷺ فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ احتراما کھڑی ہو جاتیں۔
ان عملی نمونے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مراتب کے لحاظ سے گھر کا ہر فرد دوسرے کا احترام کرے۔ یہ احترام بات چیت اور عمل سے ظاہر ہو۔مثلا والدین کے ساتھ احترام اور حسن سلوک کا حکم ہمیں متعدد آیات کریمہ اور احادیث نبویﷺ سے ملتا ہے۔ اسی زمرہ میں ساس سسر، دادانانا، دادی نانی وغیرہ بھی آتے ہیں۔اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے سے سختی سے پرہیز کریں۔ صبر و شکر سے کام لیں، نکتی چینی سے پر ہیز کریں۔ کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں۔کو ئی بھی ایسا کام کرنے سے احتراز کیا جائے جس سے دوسرے کی عزت پر حرف آئے۔ پھر یہی معاملہ گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بھی ہو۔چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور پیار کا معاملہ ہو یہاں تک کہ گھر کے بچوں کی بھی عزت کی جائے۔ دوسروں کے سامنے ڈانٹنے پھٹکارنے سے بچا جائے۔ نازیبا کلمات استعمال نہ کیا جائے۔ عزت دو اور عزت لو والا معاملہ ہونا چاہیے۔الغرض گھر کے سبھی افراد کے ساتھ ہر اس معاملے سے بچیں جس سے ہتک عزت کا معمولی سا بھی پہلو نکلتا ہو۔
3- عدل و انصاف
باہمی عدل و انصاف کسی بھی خاندان کے استحکام کے لئے نہایت ضروری ہے۔ یوں تو عدل زندگی کے تمام معاملات پر محیط ہے لیکن یہاں خاص طور پر ان ہدایات کا ذکر کروں گی جو خاندانی زندگی سے متعلق ہے جن کا تعلق دو مختلف المراتب فریقین سے ہے جس سے انسان روز و شب دو چار ہوتا ہے۔ والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں مگر اسلام نے دونوں کے مراتب کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے قانونی و اخلاقی ہدایات دی ہیں۔ والدین کااتنا عظیم حق بتایا کہ ان کے سامنے اف تک کہنے سے منع فرمایا۔ دوسری طرف والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ ان کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری ڈالی اور آخرت میں جواب دہی کا خوف دلایا۔ ’’بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اھل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘
جس خاندان میں عدل کی کمی ہو اور اس میں بسنے والا کوئی بھی فرد خود کو مجبورو مظلوم محسوس کرے وہ مستحکم نہیں ہوسکتا۔ یہ عدل رشتوں میں بھی مطلوب ہے اور روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں بھی۔
4- عفو و درگزر
جب کئی لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں توکچھ نہ کچھ لغزشیں، غکطیاں اورکڑواہٹیں ہو جاتی ہیں۔ مسائل زندگی میں اکثر انسان اپنا غصہ اور چڑچڑاہٹ دوسرے پر نکال دیتا ہے۔ معاف کرنا اللہ کی صفت ہے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔اللہ کے خلیفہ ہونے کے ناطے اس صفت ربانی سے ہمیں اپنے کردار کو مزین کرنا چاہیے۔ اللہ کا ایک نام العفو بھی ہے جو غفور سے زیادہ عام ہے، کیونکہ’ العفو‘ علماء کے نزدیک ایسی معافی ہے جس سے گناہ پر سزا نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس گناہ کو نامہء اعمال سے بھی مٹا دیا جائے گا۔ یہی رویہ ہمیں اپنے لوگوں کے ساتھ رکھنا چاہیے کہ جب معاف کردیں تو دل سے تمام کدورتوں اور نفرتوں کو بھی نکال پھینکیں۔ گھروالوں اوررشتہ داروں کو معاف کرنا تو عظیم تر بات ہے۔ ایمان والوں کی تعریف اللہ تعالیٰ کچھ اس طرح بیان کرتا ہے: ’’جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو در گزر کر دیتے ہیں۔‘‘( آل عمران:135)
عفو کے ذریعے ہر طرح کے غیض و غضب اور انتقام کو ختم کیا جا سکتا ہے اور معاف کرنے والا راحت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ عموما گھروں میں سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مراتب میں فرق کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویے بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ حسد کرنے والے ہوتے ہیں کچھ لوگ عیب نکالنے والے، توکچھ لوگ چھوٹی بڑی تمام باتوں کو دل سے لگا بیٹھتے ہیں، کچھ لوگ ہمیشہ چغلی اور غیبت میں لگے رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام رویے اسلام کے نزدیک نہایت ہی شرمناک ، رشتوں ناطوں کو ختم کرنے والے اورجہنم میں لے جانے والے ہیں جیسا کہ سورہ حجرات میں ان رذائل کے متعلق واضح آیات موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں کسی دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوںایک دوسرے کو طعنے نہ دیا کرو اور ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔‘‘( الحجرات :11)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہوبد گمانیوں سے بچتے رہو کیونکہ بعض گمان تو گناہ ہیں، کسی کی ٹوہ میں نہ لگو، ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔‘‘
یہ وہ اخلاقی تربیت ہیں جن کے ذریعے قرآن فرد، خاندان اور معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ اب اگر کسی گھر میں ایسے لوگ موجود ہوں تو ان کی نرمی سے اصلاح کرنے کے ساتھ ان کے ذریعے ہونے والی تکالیف سے در گزر کرنا انہیں سدھارنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ کہیں کہیں ہمارا اخلاق ہی تربیت کے لئے کافی ہو تا ہے۔
5- ایثار و قربانی
اسلام ایثار و قربانی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے ۔ خاندانی نظام میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔ بنا ایثار و قربانی کے کسی بھی خاندان کی بنیاد مضبوط نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وہ (اہلِ ایمان ) دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ اس کے خود ہی زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘
سب سے پہلا حکم عدل کا ہے یعنی ہر ایک کو وہ پورا حق دینا جس کا وہ مستحق ہے۔ دوسرا حکم احسان کا ہے یعنی دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دینے کی کوشش کرنا، جذبات کا خیال رکھنا، خیر خواہی، حسن سلوک، مروت و فیاضی کا معاملہ کرنا، ایثار و قربانی سے کام لینا۔ احسان کی تعریف کرتے ہوئے امام راغب اصفھانی لکھتے ہیں ’’ احسان یہ ہے کہ جو کچھ اس پر واجب ہے اس سے زیادہ دے اور جو اس کا حق ہے اس سے کم لے۔ احسان عدل سے زیادہ ہے‘‘۔تیسرا حکم صلہ رحمی کا ہے۔ یعنی ضرورت مند قریبی رشتہ داروں کا اپنے مال اور دیگر ودائل میں حق تسلیم کرنا اور ان کی ضرورت کے موقع پر ان کے کام آنا۔اسلام میں حقوق و فرائض کا جو تصور ہے اس کی بنیاد ہے تقویٰ ۔ یہ تقوی ہی ہے جو احسان و ایثار جیسے جذبے کو فروغ دیتا ہے جہاں انسان اپنی ضروریات پر دوسروں کو ترجیح دیتا ہے اورحق سے زیادہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔
6- احساسِ ذمہ داری اور جوابدہی
اسلام ہر فرد کو ذمہ دار بناتا ہے اورذمہ داری کے متعلق جوابدہی کا تصور پیدا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر شخص نگراں اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے زیر نگرانی افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جواب دہی کا یہ احساس انسان کو ذمہ دار بناتا ہے اور اپنے حقوق کو بہتر طریقے سے ادا کرنے پر ابھارتا ہے۔اسلام نے حقوق و ذمہ داریوں کے درمیان عدل سے کام لیا ہے ۔ مثلا اللہ کے رسولﷺ نے اولاد کا یہ حق بتا یا کہ ان کا اچھا نام رکھا جائے اور بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس کی بنیادی ضرورتوں کی خوش دلی سے تکمیل کی جائے۔ یہ ایک کا حق ہے تو دوسرے کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح قرآن جگہ جگہ والدین کے حقوق کا ذکر کرتا ہے ۔ ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے جو والدین کا حق ہے اور بچوں کی ذمہ داری ہے۔اسلام رشتوں میں مراتب کے لحاظ سے حقوق و ذمہ داریوں کی تعیین کرتا ہے۔ مثلا والدین خاندان میں سب سے بلند مقام پر ہیں اس لئے وہ اچھے اخلاق اور بہترین حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ اس کے بعد درجہ بدرجہ خاندان کے دوسرے افراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتے رہو اور خود بھی اس پر قائم رہو۔
یہ وہ اخلاقی بنیادیں ہیں جس پر بننے والا خاندان یقینا صحیح معنوں میں اسلامی خاندان ہوگا جس کی تربیت یافتہ نسلیں معاشرے اور ملک کے لئے انمول ہوں گی ۔ ملک و ملت کو ایسے خاندان کی ضرورت ہے۔ محبت اورسکون سے بھر پورایسے خاندانوں سے کسی بھی فرد کو کوفت نہیں ہوگی اور اپنا وقت باہر بتانے کے بجائے اسے گھر والوں کے ساتھ گزارنے پر لوگ فوقیت دیں گے۔ll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146