اسوئہ رسول ﷺ اور خواتین

محمد عبد اللہ جاوید

فلاح و کامرانی انسانی فطرت کا ایک اہم تقاضہ ہے۔ دنیا میں آنے والا ہر انسان ترقی اورکامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے انسان کے اس فطری تقاضے کی تکمیل کے لئے دین اسلام کو رہنما بنایا ۔جو یہ واضح کرتا ہے کہ ایک بندہ کا اپنے رب سے کیسا تعلق ہونا چاہئے ۔کن راستوں پر چل کرعزت و سربلندی کی زندگی گذاری جاسکتی ہے۔ کن اصولوں کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے اورکن مہلک برائیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ہر دور میں انسانوں نے اسی دین حنیف کی رہنمائی میںدنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کی ہے۔

سیرت رسولﷺ دین اسلام کی عملی رہنمائی ہے ۔آپؐ کی زندگی سارے انسانوں اور ہر دور کے لوگوں کے لئے اسوہ ہے ۔ انسان چاہے کتنی ہی ترقی کرلے‘ تہذیبیں اور تمدن بظاہر کتنے ہی شاندار نظر آئیں ۔جب بھی صحیح طرز زندگی کی بات آئیگی تو رسول اکرمﷺ کا اسوہ ہی معیار احسن ہوگا۔

اس میں یہ بات شامل ہے کہ آپؐ کا اسوہ، خواتین کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ اگراس امر پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کی نفسیات‘ اسکا دائرہ کار‘ اسکے رجحانات و مصروفیات‘ جسمانی ساخت‘ اعضا کی بناوٹ خواتین سے مختلف ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود آپؐ کی زندگی خواتین کی رہنمائی کے لئے انتہائی مناسبت رکھتی ہے۔اس پہلو سے غور اسوہ حسنہ کی حقیقت کو مزید سمجھنے اور شعور کوپختہ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

اسی فکر کے تحت اسوہ رسولﷺ سے بہتر رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے خواتین کو پیش نظر رکھ کر غور و خوص کیا جارہا ہے اور اس سلسلے کے دلائل کو واضح انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انشاء اللہ ان پہلوئو ں سے غور و فکر ہماری بہنوں کو دعوت کی نئی نئی راہیں سجھائے گا اور ذاتی اصلاح و تربیت کے لئے تیار و آمادہ کرے گا۔اس ضمن میں حسب ذیل امور زیرغور رہیں گے:

(۱) حضور اقدسﷺ سے تعلق کی نوعیت (۲) آپؐ کی عملی زندگی (۳) مقصد زندگی کے حصول میں رہنمائی (۴) اطاعت رسولؐ (۵) خواتین کے قرآنی اوصاف (۶)عورتوں کے حقوق کی پاسبانی(۷)تبدیلیوں میں یکسانیت (۸)خصوصی تعلیمات اور نصیحتیں(۹)ازواج مطہرات ؓ اور دختران رسول ؐ کی عملی زندگیاں (۱۰)ازدو اجی زندگی اور دیگر مخصوص مسائل میں رہنمائی (۱۱) اسوہ رسولﷺ سے استفادہ کی قرآنی صفات (۱۲) منطقی نقطئہ نظر۔

(1) حضور اقدسﷺ سے تعلق کی نوعیت

رسول پر ایمان ‘ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے۔ کہ جس طرح ہوا اور پانی اس کی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہیں‘ اسی طرح اس کی روحانی ضرورتیںرسول ؐ کی اطاعت سے پوری ہوتی ہیں۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے رسول اکرم ﷺ سے تعلق کی نوعیت کو واضح فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ للّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَہٌ…. (الاحزاب:۲۱)

’’درحقیقت تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘

چنانچہ صحابیات ؓ نے آپ ؐ سے مختلف امور و مسائل میں رہنمائی حاصل کی اور اسی کے مطابق ساری زندگی گذاری۔آپ ؐ کی رفاقت کو ترجیح اول بنایا:

عملی نمونے

َحضرت جویریہؓ کے والد (حارث) عرب کے مالدار لوگوں میں سے تھے۔حضرت جویریہؓ جب گرفتار ہوئیں تو حارث نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میرے بیٹی کنیز نہیں بن سکتی‘ یہ بات میری شان کے خلاف ہوگی۔میں اپنے قبیلہ کا سردار اور رئیس عرب ہوں ۔آپ اس کو آزاد کردیں۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اس معاملے کو خود جویریہ ؓ کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔حارث نے جاکر جویریہؓ سے کہا کہ محمدﷺ نے تمہیں تمہاری مرضی پر رکھا ہے‘ دیکھو مجھ کو رسوا نہ کرو اور میرے ساتھ چلو۔ حضرت جویریہؓ نے کہا کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہنا پسند کرتی ہوں (طبقات ابن سعد)

َ حضرت قیلہؓ کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو ان کے بچوں کو ان کے چچا نے لے لیا ۔اب وہ گھریلو مصروفیات سے آزاد ہوگئی تھیں۔ ایک صحابی کے ساتھ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپؐ کی تعلیمات اور نصیحتوں سے عمر بھر مستفید ہوتی رہیں۔ (طبقات ابن سعد)

(2) آپؐ کی عملی زندگی

اللہ کے رسولﷺ کی زندگی قرآن کریم کی عملی تعبیر ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کسی شخص کے آپؐ کے اخلاق سے متعلق پوچھنے پر یہی جواب دیا۔حضرات صحابہ کرام ؓ کا آپؐ سے تعلق کی اصل بنیاد عمل تھا۔اللہ کے ان نیک بندوں کے دل اعمال صالح کے ذریعہ آپس میں جڑے ہوئے تھے۔چنانچہ میلوں دور رہنے والے صحابہ کرامؓ آپؐ کی محبت کو محسوس کرتے۔اور ہر ایک صحابی کا اپنی جگہ یہی احساس تھا کہ اللہ کے رسولؐ اسی سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ صحابیات ؓ کا بھی ایسا ہی معاملہ رہا۔جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول ؐ کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کرلیا۔محبت اور صحبت رسول ؐ اور آپ کی اتباع کو باعث سعادت سمجھا۔ ان صحابیات ؓ کا یہ طرز عمل انہیں ان کے مقصد حیات سے قریب تر کرتا گیا۔

عملی نمونہ

َ جب کبھی حضور اکرمﷺ کسی غزوہ میںتشریف لے جاتے تو صحابیات ؓ فرط محبت سے آپؐ کی واپسی اور سلامتی کے لئے نذریں مانتی تھیں۔ایک بار آپ کسی غزوہ سے واپس آئے تو ایک صحابیہؓ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپؐ کو بخیر و عافیت واپس لائے گا تو آپ کے سامنے دف بجا بجا کر گیت گائوں گی (ترمذی – کتاب المناقب)

اسلئے کسی بھی صحابیہ ؓ کے بارے میں تاریخ میں یہ بات نہیں ملتی کہ اسلام لانے کے بعد اپنی زندگی سے بیزاری کا اظہار کیا ہو۔حتی کہ ہجرت کے بعد کے سخت حالات میں بھی صبر و استقامت اورجذبہ ایثار و قربا نی کا پیکر بنی رہیں۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

ما نعلم ان احداً من المھاجرات ارتدت بعد ایمانھا

’’ہم کوکسی ایسی مہاجر عورت کا حال معلوم نہیں جو ایمان لاکر مرتد ہوئی ہو ۔‘‘

عملی نمونہ

َ حضرت ام شریکؓ کو بغیر کسی سہارے کے اونٹ کی پیٹھ پر بٹھا دیا جاتا‘ چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کیا جاتا‘ سخت گرمی میں گرم غذا (سوکھی روٹی اور شہد) دی جاتی اور پانی نہیں دیا جاتا۔ اس کے باوجود یہ اللہ کی بندی صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتی رہیں اور اسلام کی زندگی کو تمام آزمائشوں پر ترجیح دی۔

عمل کے اعتبار سے جنس کا فرق معنی نہیں رکھتا جب کہ دونوں کا دائرہ کار واضح کردیا گیا ہو۔

مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی وَھُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّـہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً

….(النحل:۹۷)

’’جوشخص بھی نیک عمل کرے گا‘ خواہ مرد ہوکہ عورت‘ بشرطیکہ ہو وہ مومن ‘ اس ہم دنیامیں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘

ّّٓٓ َاس لئے جس طرح مردوں نے آپؐ سے رہنمائی حاصل کی اسی طرح خواتین کا بھی معاملہ رہا۔

(3) مقصد زندگی کے حصول میں رہنمائی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کا مقصد حیات عبادت بتایا ہے۔رسول اقدسﷺ نے عورت کو اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہونے کے لئے موثر رہنمائی فرمائی۔مقصد کا حصول متعینہ اہداف کا تقاضہ کرتا ہے۔ بعض اسلامی عبادات کی فرضیت میں ایسی ہی حکمت کارفرما نظر آتی ہے کہ نمازیںکب اور کتنی پڑھی جائیں۔روزہ اور حج کا کن مہینوں اورایام میں اہتمام ہو۔ زکوۃ کون ‘ کتنی‘ کب اور کن کو دے۔ اللہ کے رسولﷺ نے عورت کے لئے اہداف کا تعین کرتے ہوئے اس کے دائرہ کارکو واضح فرمایا:

اَلْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلیٰ بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْؤُلَۃٌ عَنْھُمْ

’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اسکے بچوں کی ذمہ دار ہے اور ان سے متعلق اس سے باز پرس ہوگی۔‘‘

یہ اسکے دائرہ عمل کا نقطئہ آغاز ہے۔کہ وہ سب سے پہلے اپنے گھر پر توجہ کرے۔جو بڑا اہم مقام ہے۔ اسلام نے ایک اچھی ریاست کے لئے ایک اچھے معاشرے کو اور اس کے لئے ایک اچھے گھر کو ضروری قرار دیا ہے۔ اور گھر کو اچھا بنانے کی اہم ترین ذمہ داری خاتون کے سپرد کردی گئی ہے۔معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے یہ ایک سنہری اصول ہے۔ جہاں اس کا لحاظ نہیں رکھا گیا وہاں عورت رسوا ہوئی۔ اس کے حقوق بری طرح پامال ہوئے۔معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا۔ بچوں میںوالدین کی غیر حاضری کے سبب برائیاں پھیلنے لگیں۔خاندانی نظام درہم برہم ہوا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے نہ صرف عورت کے دائرہ کار کا تعین فرمایا بلکہ اس کی اہمیت واضح فرمائی کہ جو عورت گھر والوں کی خدمت کرتی ہے یہاں تک کہ اسے اپنے با لوں کا بھی ہوش نہیں رہتا۔وہ آپؐ کے ساتھ جنت میں رہے گی۔

حقوق اللہ :

عبادت کے وسیع تر تناظر میںپہلا مقام حقوق اللہ کاہے۔اس سے متعلق نبی رحمتﷺ نے نماز ‘ روزہ ‘ زکوۃ‘ حج‘اذکار ودعائیں‘ توبہ و استغفار وغیرہ کے سلسلے میں خواتین کو قابل عمل ہدایات دیں‘ پھر گھریلو کام کاج سے متعلق ۔جن پر انہوں نے عمل کیا اور اللہ کی بندگی کو اپنی زندگی کا شیوہ بنالیا۔

عملی نمونے

َ حضرت عائشہ نہایت خشوع و خصوع کے ساتھ عبادت کرتیں۔چاشت کی نماز بڑی پابندی سے ادا کرتیں اور فرماتیں کہ اگر میرے والد بھی قبر سے اٹھ کر مجھے منع کریں تب بھی میں اس نماز کو نہ چھوڑوں گی۔ بنی اکرمﷺ کے ساتھ راتوں کو اٹھ کر تہجد کا اہتمام کرتیں اور اس کی اس قدر پابند تھیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جب کبھی یہ نماز قضا ہوجاتی تونماز فجر سے پہلے اٹھ کر اس کو پڑھ لیتی تھیں۔ رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتیں۔اکثر روزے رکھا کرتیں او رحج کی بھی سختی سے پابند تھیں۔

َ حضرت فاطمہؓ رسول اکرمﷺ کی بڑی چہتی بیٹی تھیں۔لیکن چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے۔مشکیزے میں پانی لاتے لاتے سینہ داغدار ہوگیا تھا۔گھر میں جھاڑو دیتے دیتے کپڑے غبار آلود ہوگئے تھے ۔

کسی انسان کے اچھے ہونے کی جانچ کے لئے گھرکو معیاربتایاگیا۔آپؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھا ہے‘ جو اپنی خواتین کے ساتھ اچھا ہے۔اس کے برعکس آپؐ کے ارشاد کے مطابق جن تین آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو اپنے گھر میں بے غیرتی اور بے حیائی کے کاموں کو باقی رکھتا ہے ۔

گھر میں بچو ں کی تعلیم و تربیت خاتون کے ذمہ ایک نہایت ہی اہم کام ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے اس پہلو سے بطور خاص صحابیاتؓ کی تربیت فرمائی۔ آپؐ کے طریقہ تربیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس طرح کا معاملہ کیا جانا چاہئے۔

رہنمائی: بچوں کے سامنے جھوٹ ہرگز نہ آئے :

عبداللہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ میری ماں نے مجھے ایک روز بلایا‘ اس وقت رسولؐ گھر پر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا ادھر آئو میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ تم نے اسے کیا دینے کی نیت سے آواز دی؟میں اسے کھجور دو ں گی۔ اگر تم اس کو کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اوپر ایک جھوٹ کا گناہ لکھ دیا جاتا۔ ( ابوداؤو – کتاب الاداب )

بچوں سے محبت ایمان کی پہچان ہے:

— اَقْرَعَ بن حَابِس نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ‘ امام حسنؓ کو پیار کررہے ہیں‘ انہوں نے کہا:

میرے دس بچے ہیں مگر ان میں سے کسی ایک کو بھی پیار نہیں کرتا۔جو رحم نہیں کرتا‘ اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ (ابو ہریرہ کی روایت)

عملی نمونہ

َ حضرت ام سُلیمؓ جب بیوہ ہوئیں تو حضرت انس بن مالکؓ ابھی چھوٹے بچے تھے۔اس لئے انہوں نے یہ عزم کرلیا کہ جب تک ان کی نشوونما مکمل طور پر نہ ہوجائے گی وہ دوسرا نکاح نہیں کریں گی۔ چنانچہ حضرت انسؓ خود بڑے احترام سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری ماں کو جزائے خیر دے کہ اس نے میری سر پرستی کا حق ادا کیا ۔ ( طبقات ابن سعد)

َ صحابیات ؓ کی گراں قدر خدمات میں بچوں کی تربیت بڑی اہم ہے ۔اُس پر اشوب دور میں اللہ کی یہ نیک بندیاں دوسری نسل کے نوجوانوں کی تربیت کی۔ ا بن عمرؓ ‘ ابن زبیر ؓ، ابن عباسؓ ‘ حسن ؓ اور حسین ؓجیسے جلیل القدر صحابہ نے انہیں کی زیر تربیت معرفت حاصل کی ۔

حقوق العباد :

حقوق اللہ کے علاوہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی بڑی اہمیت ہے۔ ان دونوں حقوق کی ادائیگی ہی کا نام دراصل اسلام ہے۔ چنانچہ والدین‘اولاد‘ شوہر‘ رشتہ دار‘اعزہ و اقربا‘ سہلیاں وغیرہ کے حقوق ادا کرنے کی جانب آپؐ نے خصوصی توجہ دلائی۔اور خود خواتین بھی آپؐ سے رہنمائی حاصل کرتیں۔

حقوق العباد کا عملی نمونہ اللہ کے رسولﷺ سے بڑھ کر اور کون پیش کرسکتا ہے؟ ۔ حضرت خدیجہؓ کے انتقال کے بعد جب کبھی آپؐ کے ہاں جانور ذبح کیا جاتا تو آپؐ ان کی سہلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے گھرگوشت بھیجا کرتے۔اپنی رضائی ماں بی بی حلیمہ کا نہایت ادب و احترام کرتے۔اس سلسلے میں آپؐ نے مختلف پہلوئوں سے صحابیاتؓ کی رہنمائی فرمائی۔

رہنمائی

ایک صحابی ؓ عرض کرتے ہیں: (اے اللہ کے رسولؐ) فلاںعورت نفل نماز پڑھنے‘ نفل روزے رکھنے اور صدقہ کرنے میں مشہور ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے؟ (آپؐ نے فرمایا) وہ جہنم میں جائے گی۔ ایک دوسری عورت ہے جو کم نفل نماز پڑھتی ہے ‘ کم نفل روزے رکھتی ہے اور تھوڑی مقدار میں صدقہ کرتی ہے‘ وہ پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں کو دیتی ہے لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیںدیتی ہے؟ (آپؐ نے فرمایا) وہ جنت میں جائے گی۔ (عن ابی ھریرہؓ – مشکوۃ)

عملی نمونے

َ صحابیاتؓ ہر حال میں حاجت مندوں کی امداد فرماتی تھیں۔غزوہ احد میں حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کے بعدحضرت صفیہؓ کفن کے کپڑوں کے ساتھ آئیں۔دو کپڑے ساتھ لائی تھیں۔انہیں حضرت حمزہؓ کی لاش کے پاس ایک انصاریؓ کی لاش بھی اسی طرح برہنہ نظر آئی ۔آپؓ نے خیال کیا کہ حمزہ دو کپڑوں میں کفنائے جائیں اور انصاریؓ کے لئے ایک کپڑا بھی نہ ہو۔آپؓ نے قد ناپا تو ایک کا قد بڑا نکلا مجبوراً کپڑے پر قرعہ ڈالا اور جو کپڑا جس کے حصے میں آیا اسی میں اسکو کفنایا۔

َ حضرت ام شریکؓ نہایت دولت مند اور فیاض صحابیہ تھیں۔ انہوں نے اپنے مکان کو گویا مہمان خانہ بنادیا تھا۔اس لئے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں جب بھی باہر سے مہمان آتے تھے وہ اکثر انہی کے مکان میں ٹہرتے تھے۔ (نسائی- کتاب النکاح)

َ طب اور جراحت کے میدان میں بھی صحابیاتؓ سرگرم عمل رہیں۔ حضرت رفیدہ اسلمیہؓ ‘ حضرت ام مطاع ؓ ‘ حضرت ام کبشہؓ ، حضرت حمنہ بنت حجشؓ ‘ حضرت معاذہ ؓ‘ حضرت امیمہؓ ‘، حضرت ام زیادؓ ‘ حضرت ربیع بنت معوذ ؓ‘ حضرت ام عطیہؓ ‘ حضرت ام سُلیمؓ کے نام قابل ذکر ہیں۔مسجد بنوی ؐ کے قریب حضرت رُفیدہ اسلمیہؓ کی عارضی کلینک تھی جس میں جراح خانہ کا بھی نظم تھا۔

اسطرح رسول اکرم ﷺ نے عورت کو اپنے مقصد حیات میں کامیاب و کامران ہونے کے لئے نہایت ہی موثر طریقہ عمل کی جانب رہنمائی فرمائی۔کہ وہ نہایت ہی اعتدال کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد اداکرتی تھیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں