اسوئہ فاطمہ اور مستحکم خاندانی نظام

صہبا شاہد

محسنِ انسانیتؐ نے جس معاشرہ انسانی کی داغ بیل ڈالی اور اس کی تربیت و تکمیل فرمائی اس کے نتیجے میں ابنائے آدم کو حسنِ عمل اور نورِ ہدایت کا ابدی سرچشمہ میسر آیا۔
اس پاکیزہ معاشرہ کا ایک درخشاں ونمائندہ باب حضرت فاطمہؓ کی سیرتِ طیبہ ہے۔ بنتِ رسول مقبول سیدہ بتول نے اپنے مثالی حسن و عمل اور ذی وقار کردار سے یہ ثابت کردکھایا کہ اولاد کے اخلاق و کردار، بلندیِ فکر، علو ہمتی،عزائم و رجحانات اور صلاحیتوں کی تخلیق میں ماں کا کتنا بڑا حصہ ہوتا ہے۔
مسلمان عورت کے لیے حضرت فاطمہؓ کی سیرتِ طیبہ اسوہ محمدی کی روشن مثال ہے اور یہ ہر زمانہ اور ہر دور میں مشعلِ راہ ہے۔ سیدہ فاطمہ کی سیرت ایک مثال ہے کہ کس طرح انھوں نے والدین کے حقوق، شوہر کی اطاعت، اولاد کی تربیت، اعزہ و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک اور ادب و احترام کو روا رکھا اور تاقیامت لوگوں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کیا۔
آپؓ سرورِ کونین حضرت محمدﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔آپ کی پیدائش بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی، جب قریش خانہ کعبہ کی ازسر نو تعمیر میں مشغول تھے۔ اس وقت سرورِ کائنات کی عمر مبارک ۳۵ سال کی تھی اور ام المؤمنین کی عمر ۵۰ سال تھی۔
آپؓ بچپن سے فطری طور پر نہایت متین اور تنہائی پسند طبیعت کی مالک تھیں۔ بچپن میں آپ نے کبھی کھیل کود میں حصہ نہ لیا اور نہ گھر سے باہر قدم نکالا۔ آپ بچپن سے اپنے والد کے عادات و اطوار، رفتار وگفتار کو غور سے دیکھتی رہتیں اور حضور پرنور کی عاداتِ مقدسہ کو اپنے قلب پر منعکس کرتی رہتی تھیں۔ رسول اکرم ﷺ جب بھی گھر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہؓ کو ایسی ایسی باتیں سکھاتے جن سے خدا شناس اور اللہ کے بندوں سے محبت کا سبق ملتا۔ ان میں کمال درجہ کی ذہانت تھی، جو بات ایک دفعہ سن لیتیں، ہمیشہ یاد رکھتیں۔ آپ کو دنیا کی نمود و نمائش سے بچپن ہی سے سخت نفرت تھی، ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خدیجہ کے کسی عزیز کی شادی تھی تو انھوں نے بچوں کے لیے اچھے کپڑے اور زیور بنائے اور جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو سیدہ فاطمہؓ نے کپڑے اور زیور پہننے سے صاف انکار کردیا اور معمولی کپڑوں میں ہی محفل شادی میں شریک ہوئیں گویا بچپن سے ہی ان کے عادات و اطوار سے خدا دوستی اور استغنا کا اظہار ہوتا تھا۔
ہجرت کے بعد ورودِ مدینہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ نے حضرت فاطمہؓ سے عقد کرنے کی درخواست کی آپؐ خاموش رہے، چند دن بعد آپؐ نے سیدہ فاطمہؓ کی نسبت حضرت علیؓ سے کردی۔
حضرت علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے باہمی تعلقات نہایت خوشگوار تھے۔ حضرت علی سیدہ کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ سیدہ بھی اپنے شوہر کا دل و جان سے احترام کرتی تھیں اور ان کی خدمت گزاری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتی تھیں۔ سرورِ عالم اپنی لختِ جگر کو ہمیشہ نصیحت فرماتے رہتے کہ عورت کا سب سے بڑا فرض خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ اس لیے وہ علی کی ہر طرح اطاعت کریں۔ دوسری طرف آپ حضرت علیؓ کو بھی تاکید فرماتے کہ فاطمہؓ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ چنانچہ میاں بیوی کے مثالی تعلقات کی وجہ سے ان کا گھر جنت کا نمونہ بن گیا۔ تاہم دو چار مواقع ایسے ضرور پیش آئے، جن میں میاں بیوی میں معمولی رنجش پیدا ہوگئی۔ انسانی فطرت اور زمانے کے اقتضا کے پیشِ نظر میاں بیوی کے تعلقات معاشرت میں ایسے اتفاقات کا پیش آجانا کوئی انہونی بات نہیں۔ سیدہ فاطمہ اور حضرت علیؓ کی رنجش بھی محض اتفاقی تھی اور جونہی حضور پر نور نے مداخلت فرمائی ان کے دلوں میں ملال کا شائبہ تک نہ رہا۔
ایک بار میاں بیوی میں کچھ شکررنجی ہوگئی، سیدہ فاطمہؓ ناراض ہوکر رسول اکرمﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر گئیں، ان کے پیچھے پیچھے حضرت علیؓ بھی آگئے سیدہ نے شکایت پیش کی تو حضور نے فرمایا: ’’بیٹی ذرا خیال کرو ایسا کون سا شوہر ہے جو اپنی بیوی کے پیچھے اس طرح خاموش چلا آتا ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت کے مطابق حضورﷺ نے اس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے: ’’بیٹی میری بات غور سے سنو، کوئی میاں بیوی ایسے نہیں جن کے درمیان کبھی اختلافِ رائے پیدا نہ ہو اور کون مرد ایسا ہے جو ہر کام بیوی کے مزاج کے مطابق ہی کرتا ہے اور اپنی بیوی کی کسی بات پر ناخوشی کا اظہار نہ کرتا ہو۔‘‘
آپؐ کا ارشادِ گرامی سن کر سیدنا علیؓ پر ایسا اثر ہوا کہ انھوں نے سیدہ فاطمہؓ سے کہا ’’خدا کی قسم آئندہ میں کبھی کوئی بات ایسی نہیں کروں گا جو تمہارے مزاج کے خلاف ہو یا جس سے تمہاری دل شکنی ہو۔‘‘
مدارج النبوۃ میں شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ اور سیدہ فاطمہ کے درمیان گھریلو کاموں کی تقسیم فرمادی تھی، چنانچہ گھر کے اندر جتنے کام تھے مثلاً چکی پیسنا، جھاڑو دینا، کھانا پکانا وغیرہ سب سیدہ فاطمہ کے ذمہ تھا اور باہر کے سب کام مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ حضرت علیؓ کے ذمہ تھا۔ اس طرح ان کی ازدواجی زندگی میں نہایت خوشگوار توازن پیدا ہوگیا تھا۔ آپ کی ازدواجی زندگی ہمیشہ خوشگوار رہی اور گھر پاکیزگی، اطمینان، سادگی، قناعت اور سعادت کا گہوارہ بنا رہا ۔
ایک بار سیدہ فاطمہ ؓ کو بخار آگیارات انھوں نے سخت بے چینی میں کاٹی، حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ جاگتا رہا، رات کے آخری پہر نیند لگ گئی فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا کہ فاطمہ وضو کررہی ہیں، میں نے مسجد میں جاکر نماز پڑھی واپس آکر دیکھا تو فاطمہؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں۔ میں نے کہا فاطمہؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا، رات بھر تمھیں بخار رہا صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کیا اب چکی پیس رہی ہو خدا نہ کرے زیادہ بیمار ہوجاؤ۔ حضرت فاطمہؓ نے سر جھکا کر جواب دیا کہ اگر میں اپنے فرائض ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو کچھ پروا نہیں۔ میں نے وضـو کیا اور نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی تمہاری اطاعت اوربچوں کی خدمت کے لیے۔
حضرت فاطمہؓ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لیے کبھی اپنے کسی رشتہ دار یا ہمسایہ کو اپنی مدد کے لیے نہیں بلاتی تھیں نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت و مشقت سے گھبراتی تھیں۔ عمر بھر میں کبھی شوہر کے سامنے حرف شکایت زبان پرنہ لائیں اور نہ ان سے کسی چیز کی فرمائش کی۔کھانے کا یہ اصول تھا کہ چاہے خود فاقہ سے ہوں، جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلالیتیں خود ایک لقمہ بھی منھ میں نہ ڈالتیں۔ حضرت فاطمہ ؓ کے انہی اوصاف و خصائل کی وجہ سے آپ کی وفات کے بعد کسی نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ فاطمہؓ کا حسنِ معاشرت کیسا تھا، تو آپؐ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: ’’فاطمہ جنت کا ایک خوشبودار پھول تھی، جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔‘‘
سرورِ عالمؐ کو سیدہ فاطمہؓ سے بے انتہا محبت تھی اور سیدہ بھی حضورﷺ سے والہانہ محبت کرتی تھیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ’’جب بھی آپؐ سفر پر تشریف لے جاتے تو حضرت فاطمہؓ سے مل کر جاتے اور جب واپس آتے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ سے ملتے۔‘‘
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب فاطمہؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپؐ ازراہِ محبت کھڑے ہوجاتے اور شفقت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے اور اپنی نشست سے ہٹ کر اپنی جگہ پر بٹھاتے اور آپؐ جب فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہوجاتیں، محبت سے آپ کا سر مبارک چومتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔‘‘ (ابوداؤد)
مسند احمد بن حنبل میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت فاطمہؓ نے جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا آپؐ نے فرمایا جانِ پدر یہ پہلا کھانا ہے جس کو تین دن کے بعد تیرا باپ کھائے گا۔ طبرانی میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ نے آپ کو جو کی روٹی کا ٹکڑا دیا تو آپؐ نے پوچھا بیٹی یہ کیا ہے حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا: ابا جان یہ ٹکیہ ہے، جس کو میں نے پکایا تھا، میرے دل نے گوارا نہ کیا کہ میں اکیلی یہ ٹکیہ کھالوں درآنحالیکہ آپ بھوکے ہوں ، اس لیے یہ ٹکڑا آپ کی خدمت میں لائی ہوں۔
سیدہ فاطمہؓ کے اپنی سوتیلی ماؤں سے بھی بہت بہتر تعلقات تھے۔ حضرت خدیجہؓ کے بعد حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ حضورﷺ کے عقد میں آئیں اپنی شادی سے پہلے سیدہ فاطمہؓ ان دونوں ماؤں کے ساتھ بڑے پیار اور محبت سے رہیں، آگے چل کر رسول اکرمﷺ نے کئی شادیاں کیں، اس وقت سیدہ کی شادی ہوچکی تھی۔ تاہم ان کے تمام سوتیلی ماؤںسے نہایت اچھے تعلقات تھے۔ سبھی ماؤں کے نزدیک ان کی بڑی قدرومنزلت تھی اور سبھی ان سے محبت کرتی تھیں۔ خصوصاً حضرت عائشہؓ کا ان سے خاص تعلق خاطر تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کی شادی ہوئی تو حضرت عائشہؓنے اس کے اہتمام میں خاص حصہ لیا وہ خود کہتی ہیں:
’’عقد کے بعد فاطمہ کے لیے ایک مکان تجویز کیا گیا ہم نے بطحیٰ کے کنارے سے نرم مٹی منگوائی اور اپنے ہاتھوں سے اس میں بچھائی، فرش تیار کیا، لپائی کی پھر کھجور کی چھال اپنے ہاتھوں سے توڑ کر دوتکیے تیار کیے، چھوہارے او رمنقے دعوت میں پیش کئے۔ لکڑی کی ایک الگنی تیار کی تاکہ اس پر پانی کی مشک اور کپڑے لٹکائے جائیں۔ فاطمہؓ کے بیاہ سے کوئی اچھا بیاہ میں نے نہیں دیکھا۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
شادی کے بعد حضرت فاطمہؓ جس مکان میں گئیں، اس میں اور حضرت عائشہؓ کے حجرے میں صرف ایک دیوار کا فصل تھا، بیچ میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی، جس سے کبھی کبھی باہم بات چیت ہوجاتی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدہ فاطمہ لونڈی کی درخواست کے لیے رسول اکرم کی خدمت میں آئیں، لیکن اتفاق سے باریابی نہ ہوئی، تو وہ حضرت عائشہؓ کو وکیل بناکر واپس چلی گئیں۔ سیدہ فاطمہؓ اپنے عزیز و اقارب سے بھی بہت محبت کرتی تھیں اور ان سے حسن سلوک اور احسان و مروت سے پیش آتی تھیں۔ اپنی خوش دامن حضرت فاطمہ بنتِ اسد کو حقیقی ماں کی طرح جانتی تھیں اور دل و جان سے ان کی خدمت کرتی تھیں، حضرت فاطمہ بنت اسد کا بیان ہے کہ ’’جس قدر میری خدمت فاطمہؓ نے کی ہے، شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی اتنی خدمت کی ہو۔‘‘
آپ کی بہن سیدہ رقیہ کی وفات ۲؍ہجری میں ہوئی تو سرورِ عالم غزوئہ بدر کے سلسلے میں مدینہ منورہ سے باہر تھے، آپ واپس تشریف لائے تو حضرت رقیہ کی قبر پر تشریف لے گئے،اس موقع پر سیدہ فاطمہ بھی آپ کے ساتھ تھیں وہ قبر کے پاس بیٹھ کر رونے لگیں۔ سرورِ عالم کپڑے سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے اور تسلی دیتے جاتے تھے۔سیدہ فاطمہؓ کے چچا حضرت جعفر بن ابی طالب (حضرت علیؓ کے حقیقی اور آپؐ کے چچا زاد بھائی) نے غزوہ موتہ میں شہادت پائی تو ان کو شدید صدمہ ہوا۔ ان کی شہادت کی خبر سن کروہ روتی ہوئی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ ذیقعدہ ۷؍ہجری میں حضور عمرہ کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو صلح نامہ حدیبیہ کی شرط کے مطابق تین دن کے قیام کے بعد آپ مکہ سے چلنے لگے تو حمزہؓ کی کم سن صاحبزادی امامہ آپ کی طرف دوڑی آئیں اس موقع پر حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے، انھوں نے امامہ کو گود میں اٹھالیا اور اپنے ساتھ لاکر سیدہ فاطمہ کے سپرد کردیا کہ یہ تمہاری بنتِ عم ہے سیدہ نے ان کو بڑے لطف و محبت کے ساتھ اپنے پاس رکھا۔ غرض سیدہ کے تمام اعزہ و اقربا سے نہایت اچھے تعلقات تھے، وہ ان کے ساتھ محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آتی تھیں اور ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتی تھیں۔
سیدہ فاطمہؓ کو اللہ نے حضرت علی ؓ سے پانچ اولادیں عطا فرمائیں۔ حسن، حسین، زینب، محسن اور امِ کلثوم۔ آپؓ نے اپنے بچوں کی تربیت بھی بڑے احسن طریقے سے کی۔ چند ایک واقعات پیش ہیں۔ ایک دن عہدِ طفلی میں حضرت زینب قرآن پاک کی تلاوت کررہی تھیں، بے خیالی میں سر سے اوڑھنی اترگئی سیدہ فاطمہؓ نے دیکھا تو ان کے سر پر اوڑھنی ڈالی اور فرمایا: ’’بیٹی اللہ کا کلام ننگے سر نہیں پڑھتے۔‘‘ ایک دوسرا واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت حسین اور حضرت زینب میں معصومانہ لڑائی ہوگئی۔ سیدہ فاطمہ نے انھیں کلام مجید کی آیت پڑھ کر سنائی اور فرمایا: ’’بچو لڑائی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتا ہے۔‘‘ دونوں بچے ڈر گئے اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی نہ لڑیں گے۔ سیدہ خوش ہوئیں اور انھیں سینے سے لگالیا۔
سیدہ فاطمہ نے اپنے غلاموں کو بھی کبھی سخت الفاظ نہ کہے ان کی ایک کنیز حضرت فضّہ تھیں، جو نہ صرف گھر کے کام کاج میں سیدہ فاطمہؓ کا ہاتھ بٹاتی تھیں، بلکہ ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک رہتی تھیں، اس طرح وہ سیدہؓ کے گھر کا ایک فرد بن گئی تھیں۔ جب سیدہ فاطمہؓ کا انتقال ہوا تو غسل دیتے وقت حضرت فضّہ بھی موجود تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ کی وفات آپؐ کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوئی۔
ان واقعات کی روشنی میں ہم اگر دیکھیں تو سیرت فاطمہ ایک مثالی کردار ہے۔ خاندان کو مثالی اور مستحکم بنانے میں جو ہر زمانے میں مشعلِ راہ ہے کہ کس طرح انھوں نے ہر رشتہ کو بحسن و خوبی انجام دیا اور تاقیامت لوگوں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کیا۔
وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہؓ و فاطمہؓ کے نقشِ قدم
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146