یہ بچوں کی ایک عام شکایت ہے لیکن اگر اس سے لاپرواہی برتی جائے تو اس کا نتیجہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اس مضمون میں اسہال کو کنٹرول کرنے کے لیے چند سادے لیکن اہم مشورے حاضر ہیں۔
بچوں میں اسہال ایک سنگین مسئلہ ہے اور اوسطاً بچے ایک سال میں چھ سے بارہ مرتبہ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق ہر سال ۱۵ لاکھ بچے اسہال کے باعث پانی کی کمی کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔
اسہال کیا ہے؟
دن بھر میں تین سے چار مرتبہ پانی جیسی اجابت ہونے کو اسہال کہتے ہیں۔ اگر اجابت کے اندر خون اور آؤں بھی شامل ہو تو پھر اسے پیچش کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ معدہ کے نچلے حصہ میں درد اور مروڑ بھی ہوتی ہے۔ اگر اسہال کا مرض تین ہفتہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رہے تو پھر اسے پیچیدہ اسہال کا نام دیا جاتا ہے۔
بچوں میں اسہال پیدا ہونے کا سبب
عموماً یہ مختلف اقسام کے بیکٹیریا وائرس فنگس وغیرہ کے انفیکشن سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مرض کو پیدا کرنے والے جراثیم مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں اس کے علاوہ سال کے مختلف موسموں میں بھی مختلف جراثیم اثر انداز ہوتے ہیں۔
اسہال کے ایک تہائی کیسس وائرس کے ذریعہ پیدا ہوتے ہیں جن میں روٹانامی وائرس بہت عام ہے۔ نصف مریض بیکٹیریا کا شکار ہوتے ہیں جبکہ باقی دوسرے مختلف اقسام کے جراثیموں سے متاثر ہوتے ہیں۔ بچے اس وقت اسہال کا شکار ہوتے ہیں جب انہیں غیر صحتمند طریقے سے غذا دی جاتی ہے۔ اگر بوتل کو دھونے میں احتیاط نہیں برتی جاتی یا بچے اپنی گندی انگلیاں منہ میں ڈال کر چوستے ہیں یا پھر انفیکشن پر مبنی غذا دودھ یا پانی استعمال کرتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں اسہال کے مرض میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہے۔
اسہال کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیاں
اسہال کے مرض میں مبتلا ہوجانے کے باعث بچے کے جسم سے بہت سے اجزاء خارج ہوجاتے ہیں جیسے الیکٹرولائیٹس میٹا بولائیٹس اور وٹامنز اس کے نتیجہ میں بڑی مختصر مدت میں بچے کے جسم کا پانی نکل جاتا ہے اور وہ پانی کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے جسے Dehydrationکہتے ہیں اس کے علاوہ ان کے جسم کے الیکٹرولائٹ کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
ان دو اثرات کے باعث مریض کی جلد بوڑھوں جیسی نظر آنے لگتی ہے اور اسے دبانے سے جلد پر جھریاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ معمولی سے ڈی ہائیڈریشن میں بچہ چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اسے پیاس لگنے لگتی ہے۔ درمیانہ درجے کی ڈی ہائیڈریشن میں بچہ کی نبض کمزور پڑجاتی ہے اور پیشاب کم مقدار میں آنے لگتا ہے آنکھوں کے ڈھیلے اندر دھنسنے لگتے ہیں۔ چہرہ خشک ہوجاتا ہے اور اس پر جھریاں پڑنے لگتی ہیں۔ ہونٹ اور منہ پیاس سے خشک ہوجاتے ہیں۔ سنگین ڈی ہائی ڈریشن کی صورت میں بچہ ٹھس اور بے حس ہوجاتا ہے۔ بازو ٹھنڈے پڑجاتے ہیں جب کہ جسم گرم رہتا ہے۔ پیشاب کی مقدار بہت کم ہوجاتی ہے۔ خون میں تیزابیت بڑھ جانے کے باعث سانس تیز چلنے لگتی ہے۔ اگر اس ڈی ہائیڈریشن پر فوراً قابو نہ پایا جائے تو بچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اسہال کے بار بار ہونے یا طویل عرصہ تک قائم رہنے سے بچے کے جسم کے اندر غذائیت کی کمی واقعی ہوجاتی ہے اس طرح اس کی جسمانی اور ذہنی نشو ونما سست پڑجاتی ہے۔
اسہال کا علاج
اسہال کے مرض میں مبتلا بیشتر بچوں کو کسی دوا کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ ان کے جسم کا پانی الیکٹرولائیٹس اور تیزاب پورا کرنا چاہیے اس کمی کو او آر ایس پلاکر بڑی آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے جسے عالمی ادارہ صحت منظور کرچکا ہے اور جس میں گلوکوز، سوڈیم کلورائیڈ، سوڈیم نائٹریٹ یا سوڈا بائی کاربونیٹ اور پوٹاشیم کلورائیڈ شامل ہوتا ہے۔
او آر ایس (Oral Rehydration Solution) کے ایک پیکٹ کو ایک لیٹر ابلے اور ٹھنڈے کیے ہوئے پانی میں حل کریں۔ اگر اوآر ایس مہیا نہ ہوسکے تو پھر چائے کے ۸ چمچے شکر اور ایک چمچہ نمک ایک لیٹر پانی میں حل کرکے بچے کو تھوڑا تھوڑا پلاتے رہیں۔
چارماہ سے کم عمر بچے کو اسہال شروع ہونے کے بعد چار گھنٹوں کے اندر ایک سے دو گلاس او آر ایس پلائیں جب کہ چار سے ۱۱ ماہ کی درمیانی عمر کے بچے کو دو سے تین گلاس، ۱۲ سے ۲۳ ماہ کے درمیانی بچے کو ۳ سے ۴ گلاس، دو سے چار برس کی درمیانی عمر کے بچے کو چار سے پانچ گلاس اور پانچ برس سے زائد عمر کے بچے کو چھ سے گیارہ او آر ایس پلائیں۔
اگربچہ او آر ایس پی کر الٹی کردے تو دس منٹ انتظار کرنے کے بعد اسے دوبارہ پلائیں۔ او آر ایس آہستہ آہستہ ہر دو تین منٹ بعد پلاتے رہیں۔ اگر الٹی برابر آتی رہے اور ری ہائیڈریشن صحیح نہ ہو تو بچے کو اسپتال میں داخل کردیں جہاں پانی اور الیکٹرولائیٹس رگوں میں انجکشن کے ذریعہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس دوران دودھ اور دوسری غذائیں برابر دیتے رہیں۔
اسہال سے بچنے کے طریقے
بچوں میں پیدا ہونے والے اسہال کے مرض کا براہ راست تعلق، اس معیار زندگی اور حفظان صحت کے اصولوں سے ہے جو والدین بچوں کو کھانے پلانے کے دوران اختیار کرتے ہیں۔
٭ماں کا دودھ پینے والے بچے اسہال کے مرض میں کم مبتلا ہوتے ہیں۔ اگر بچہ کو بوتل سے دودھ پلایا جاتا ہے تو ہر مرتبہ دودھ پلانے کے بعد بوتل کو پانی میں اچھی طرح ابال لیں۔ بوتل میں چھوڑے ہوئے دودھ کو ضائع کردیں۔ جتنی جلد ممکن ہوسکے بچے کو چمچہ سے دودھ پلانے کا عمل شروع کردیں۔
٭ بوتل کی چسنی کو اپنے ہاتھوں سے نہ چھوا کریں۔
٭ دو برس کی عمر تک کے بچوں کو پانی ابال کر اور ٹھنڈا کرکے دیاکریں۔
٭ بچوں کو صاف ستھرا رکھیں ان کے ناخن باقاعدگی سے کاٹتے رہا کریں۔ ان کی غذا کو مکھیوں اور کیڑوں، مکوڑوں سے محفوظ رکھیں۔
بچوں کے لیے غذا تیار کرنے سے قبل اپنے ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھولیں۔
٭ چھ ماہ کی عمر سے ہی بوتل کا دودھ پلانا ترک کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سے جلد یا بہت تاخیر سے چھڑائی جائے تو بچہ کے اسہال میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ دودھ چھڑانے کے ساتھ بچہ کو مارکٹ میں ملنے والی ٹھوس غذا بھی دینا شروع کردی جائے۔ تھوڑی مقدار میں غذا دینے کا آغاز کریں اور اسے حفظان صحت کے اصولوں سے تیار کریں۔
٭بچوں کو مٹی اور کیچڑ میںنہ کھیلنے دیں اور آس پاس کا علاقہ صاف ستھرا رکھیں۔
٭بچہ کو چوسنے کے لیے چسنی ہرگز نہ دیں۔
والدین کی ناواقفیت اور لاپراوہی کے باعث بچوں میں اسہال کا مرض بہت عام ہوچکا ہے اگر بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے تو انہیں اسہال سے بچایا جاسکتا ہے۔