اس کی ماں اس کی نظروں کے سامنے مفلوج ہوگئی

عبد الحمید جاسم البلالی ترجمہ: تنویر آفاقی

ابھی اس کی عمر محض نو سال تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ماں نے اس کی پرورش کی ۔باپ کی محبت سے محروم ہوجانے کے بعد ماں اس سے بے پناہ محبت کرنے لگی۔اسے ہر طرح کا پیار اور دلار دینے کے ساتھ ساتھ اس پر جا وبے جا بھروسا بھی کرنے لگی۔اپنے اس بیٹے سے اس کی محبت کا یہ حال تھا کہ صحیح ودرست ہرمعاملے میں حتی کہ اس کی زیادتیوں پر بھی وہ اس کا ہی ساتھ دیتی۔ در اصل وہ یہ محسوس کرتی تھی کہ شوہر کے چلے جانے سے اس کی زندگی میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کو اس کا یہ بیٹا ہی پُر کر سکتا ہے۔اس نے اپنی زیادہ تر امیدیں اسی سے وابستہ کرلی تھیں کیوں کہ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
ہلاکت خیز محبت
اس نے ماں کی اس بے جا محبت کا خوب غلط فائدہ اٹھایا۔ وہ اپنی ماں سے ایسے ایسے مطالبات کرنے لگا جن کو پورا کرنا اس کے بس میں قطعی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی اس کے مطالبے کو نہ ٹھکراتی بلکہ کسی نہ کسی طرح اسے پورا کرنے کی کوشش کرتی۔لڑکے کی جرأت بھی اتنی بڑھ گئی تھی کہ اب وہ اپنی ماں کے ساتھ مار پٹائی بھی کرنے لگا۔ ماں پھر بھی اس کی خوشامدیں کرتی اور اسے خوش رکھنے کے لیے اس کے قدموں میں گر کر رونے لگتی۔ماں کے اس طرز عمل نے اسے اور بھی زیادہ آوارہ کر دیا۔کمزور اعصاب کی ماں، باپ کی موت اور کسی بھی طرح کی نگرانی اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے محض چودہ برس کی عمر میںہی اس کا تعارف غلط صحبت سے ہوگیا۔جس کا آغاز تو والد کے انتقال کے بعد سے ہی ہوگیا تھا کیوں کہ سب سے پہلے اس نے نماز پڑھنا ترک کردیا اور وہ تمام اچھی عادتیں ترک کردیں جو اس نے اپنے والد سے سیکھی تھیں۔
بیرونی سفر
باپ کی وفات کے بعد اس کے ایک چچا تھے جو اس کی سرپرستی کرتے تھے۔ انھوں نے اسے زبردستی لبنان کے ایک بورڈنگ اسکول میں داخل کرا دیا اور کہیں وہ بھاگ کر واپس اپنے گھر کویت نہ آجائے ، اس لیے اس سے اس کا پاسپورٹ لے کر رکھ لیا گیا۔لیکن اسکول میں جب اس کے تعلقات چند غلط لڑکوں سے ہوئے تو اس کے مزید انحراف کا آغاز ہوگیا۔یہ لڑکے رات میں بورڈنگ سے فرار ہو کر اسے جوس پینے اور آئس کریم کھانے کے بہانے کافی ہائوس میں لے جاتے۔ پھر جلد ہی صورت حال بدل گئی اور کافی ہائوس جانے کے بجائے انھوں نائٹ کلبوں میں جانا شروع کردیاجہاں اس نے بیئر پینی شروع کردی۔شروع میں بیئر پینے سے اسے چکر اور سر درد کی شکایت ہوئی،اور جب بھی بیئر پیتا الٹی ہوجاتی لیکن بتدریج وہ اس کا عادی ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے بھنگ (حشیش) لینی شروع کردی۔اس طرح چودہ برس کی عمر میںہی نشہ خوری کی دنیا میں قدم رکھ لیا۔
پاسپورٹ کی چوری
اسکول میں ایک سال مکمل کرلینے کے بعد وہ اپنا پاسپورٹ چرالینے میں کامیاب ہوگیا۔ اور جس وقت وہ کویت واپس آیا تو اس کے پاس تھوڑی سی بھنگ بھی تھی۔دوسرے سال جب دوبارہ کویت واپس آیا تو زیادہ مقدار میں بھنگ اپنے ساتھ لے کر آیا اگرچہ کسٹم والوں نے اسے اس کے بیگ سے نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا ۔ یہ ۱۹۶۰ء کے عشرے کی بات ہے جب کہ کویت کے لوگ اس چیزسے واقف نہیں تھے ورنہ اس سے پوچھ کی جاتی۔
۱۹۶۷ء میں اس کا تعارف کچھ نئے ساتھیوں سے ہوا جن کے ساتھ وہ ایک ایسے جزیرے میں گیا جہاں اسے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ وہاں کے سب لوگ بھنگ کے استعمال سے واقف ہیں بلکہ وہاں کے لوگوں نے اسے افیون سے بھی متعارف کرایا اور اسی طرح دوسری نشہ آور ڈرگس بھی اسے بتائیں۔یہاں سے نشہ خوری ، افیون، ڈرگس اور شراب کا نیا دور شروع ہوا۔اس دوران وہ کئی بار منشیات کی کثیر مقدار کے ساتھ گرفتار بھی ہوا لیکن اسے اپنے جرم کی خاطر خواہ سزا نہیں مل پائی کیوں کہ اس وقت منشیات کے معاملات سے متعلق قوانین بہت زیادہ سخت نہیں تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک کویت میں منشیات کارواج عام نہیں ہوا تھا۔
محض ۱۷ برس کی عمر میں اس کے تعلقات منشیات کے بیشتر تاجروں سے ہوگئے۔ایران وعراق کی جنگ شروع ہوئی تو حکومت کویت نے منشیات کے معاملات میں سختی سے قدم اٹھانا شروع کیا۔ اس دوران یعنی سترہ برس کی عمر میں ہی اس کی شادی بھی ہوگئی ۔منشیات کی دنیا میںآہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے وہ خود بھی منشیات کا تاجر بلکہ منشیات کا اسمگلر بن گیا جو دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے منشیات کی اسمگلنگ کیا کرتا تھا ۔ پھر مختصر سے عرصے میں ہی وہ ان بڑے اسمگلروں میں شامل ہوگیا جس کے تحت بے شمار نوجوان یہی دھندا کیا کرتے تھے۔
اسمگلنگ سے کمائی ہوئی بے شمار حرام کی دولت کے باوجود اس نے وہ ساری دولت بھی اڑا دی جو اسے اپنے با پ سے ورثے میں ملی تھی بلکہ جو دولت اس نے اس دھندے میں کمائی تھی وہ بھی تیزی سے جوئے بازی ، عورتوں سے تعلقات اور گاڑیاں خریدنے میں گنوا دی۔
ماں پر فالج کا حملہ
۱۹۷۷ء میں وہ ہیروئین سے بھی واقف ہوگیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال میں بھی طاق ہوگیا۔ ۱۹۸۳ء میں اسے گرفتار کر کے سینٹرل جیل بھیج دیا گیا جہاں اس کی ماں وقتا فوقتا اس سے ملنے آیا کرتی تھی۔ایک بار جب اس کی ماں اس سے ملنے آئی تو اس نے اپنی ماں کے سامنے رونے اور پریشانی میں مبتلا ہونے کی ایکٹنگ کی ۔ اس طرح وہ دراصل اپنی ماںکا جذباتی استحصال کرکے اس سے کچھ رقم اینٹھنا چاہتا تھا تاکہ اس رقم سے منشیات خرید سکے۔اس کی اس حرکت پر اس کی ماں کوسخت ٹھیس پہنچی اور اس کا بلڈ پریشر ہائی ہونے لگا۔ ابھی وہ اسی کیفیت سے دوچار تھی کہ اس نے اپنے لڑکے سے کہا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے اچانک کام کرنا بند کردیا ہے۔ پھر بولی کہ بایاں ہاتھ بھی مجھے محسوس نہیں ہو رہا ہے۔ ابھی کچھ دیر بھی نہیں گزری کہ کہنے لگی کہ اس کا دایاں پیر بھی کام کرنے سے معذور ہوگیا اور پھر ایک دم سے زمین پر گر پڑی۔ جیل کے سپاہی فوراً وہاں جمع ہو گئے اور اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچادیا گیا جہاں سے دو دن کے بعد اس کے پاس جیل ہی میں اس کی ماں کے انتقا ل کی خبر آئی۔اس حادثے کا اس پر بہت اثر ہوا ۔ اس نے تمام لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی، نشہ خوروں کے پاس جانا بند کردیا اور جیل سے نکلنے کے بعد غیر ممالک کا سفر کرنا بھی ترک کردیا، لیکن نشہ آور اشیا برابر لیتا رہا لیکن تنہائی میں۔
عراق نے کویت پر قبضہ کیا تو اس دوران اس نے منشیات بالکل ترک کر دی لیکن جیسے ہی کویت آزاد ہوا اس نے دوبارہ منشیات کا استعمال شروع کردیا۔
دوبارہ جیل
دوسری بار پھر اسے جیل کی سزا ہوگئی اور جیل کے اندر اس نے منشیات کا استعمال شروع کردیا۔اس بار اس کے وہ تمام ساتھی جن کے ساتھ اس نے منشیات کا استعمال شروع کیا تھا ایک کے بعد ایک مرتے گئے۔ سب کی موت کا سبب یا تو یہ تھا کہ انھوں نے منشیات کی زیادہ مقدار (Over dosage)لے لی تھی یا نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے سڑک حادثے کا شکار ہوگئے تھے۔
۱۹۹۷ء میں وہ امیر کویت کی جانب سے معافی کے حکم نامے کی بنا پر جیل سے باہر آیا تو وہ کسی کام یا ملازمت سے بالکل محروم تھا۔ اس کے پاس منشیات خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔چنانچہ مجبوراً اس نے گھر کا سامان مثلا ٹیلی فون وغیرہ بیچنا شروع کردیا۔ چند ہی دنوں میں گھر کا سارا سامان منشیات کی نذر ہوگیا۔
بیٹے کے قدموں میں
حال یہ ہوگیا کہ اس کی بیوی اور بچیاں اپنا سونا اپنے کمرے کے اندر ایک صندوق میں چھپا کر رکھنے لگیں تاکہ وہ اسے پا نہ سکے، لیکن اس نے آخر کار اس کا بھی پتہ لگا ہی لیا اور تھوڑا تھوڑا کرکے اسے بھی بیچنا شروع کر دیا۔اس سے پہلے کہ تمام سونا ختم ہو ان کو اپنے اس نقصا ن کا اندازہ ہوگیا اور انھوں نے باقی ماندہ سونا وہاں سے ہٹا کر دوسری جگہ چھپا دیا۔اسے پھر رقم کی ضرورت پیش آئی تو روز مرہ کے استعمال کے زیورجن کو وہ وقتی طور پر نکال کر میز وغیرہ پر رکھ دیا کرتی تھیں انہیں چرانا شروع کردیا۔ انھیں جب اس کا احساس ہوا تو انھوں نے اسے بھی چھپانا شروع کردیا۔آخر کار اس نے ان کے دوسرے سامان مثلا موبائیل اور پیجر وغیرہ چرا کر بیچنے شروع کردیے۔اس نوبت تک پہنچنے کے بعدوہ پورے گھرمیں بدنما قرار دے دیا گیا اور سب نے مل کر متفقہ طور پر اس سے تعلقات منقطع کرلیے۔ بچوں نے اسے ابّو(بابا) تک کہنا ترک کردیا۔گھر میں سب نے اس کو ایک کنارے کر دیا۔ اب اسے گھر کے اندر بھی کوئی چیز چرانے کے لیے نہ مل پاتی۔مجبور ہو کر وہ اپنے بڑے بیٹے کے پاس گیا اور اس کے قدموں میں گر کر اس سے درخواست کی کہ اسے صرف ۲۵ دینار دے دے تاکہ وہ اپنی ضرورت بھر نشے کی اشیا خرید سکے ۔بیٹا یہ سن کر ایک دم لرز گیا۔ اس نے اپنے باپ سے کہا: ’’ابو! میں آپ کا بیٹا ہوں ، آپ یہ کیا کررہے ہیں؟ آپ ہی نے تو ہمیں عزت وشرافت کے ساتھ رہنا سکھایا ہے آپ اس طرح کی ذلت کو کیسے برداشت کر رہے ہیں؟‘‘ پھر اس نے اپنے باپ کے سامنے تقریباً چیختے ہوئے کہا:’’ابو! آپ تو میرے لیے ایک مثال ، ایک آئیڈیل تھے ، آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ‘‘ اوربیٹے کی یہ بات سنتے ہی اسے غش آیا اور منہ کے بل زمین پر گر گیا، اسے خود نہیں پتہ کہ کیا ہوا۔
دردناک طمانچہ
بیٹے کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اس کے منہ پر ایک دردناک طمانچے کی طرح لگے۔ اس کی ان باتوں سے اسے جو ٹیس پہنچی ایسی ٹیس اور تکلیف نشے کی دنیا میں اسے کبھی نہیں پہنچی تھی۔زمین سے اٹھنے کے بعد اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں یہ آخری بار ہے ۔ ان شاء اللہ کل میں تیرے ساتھ ہسپتال چلوں گا۔
اس نے منشیات خرید تو لی لیکن خریدنے کے بعد اسے بہت زیادہ ندامت کا احساس ہوا ، اس کو ایسا لگا جیسے پوری زندگی ایک دردناک فلم کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہے۔ندامت کے مارے وہ چیخنے لگا: ’’اے میرے رب، میرے مالک، میری مدد فرما۔ منشیات سے چھٹکارا پانے میں میری مدد فرما۔‘‘ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا آخر کار اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگئی۔
چنانچہ اگلے روز صبح سویرے ہی اپنے بیٹے کے ساتھ ہسپتال پہنچ گیا۔لیکن وہاں پہنچ کر اس کو انتہائی افسوس ہوا کیوں کہ ہسپتال میں ایک بھی بیڈ خالی نہیں تھا۔اس لیے اس نے ڈاکٹر کو دکھایا اور گھر واپس آگیا۔گھر آکر اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا بستر ہال کے بیچو بیچ ڈال دے۔اور جب منشیات کی طلب میں اس کے جسم نے رد عمل ظاہرکرنا شروع کیاتو دوائیوںکا سہارا لینے کی کوشش کی، لیکن درد اور تکلیف اس کے پورے جسم میں کچوکے لگانے لگا اوراس نے چیخنا ، چلانا شروع کر دیا۔ اس کے بچے اس کے ارد گرد جمع ہوکر اسے تسلی دیتے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ اسی طرح چار روز گزر گئے۔ چار روز کے بعد اس کے درد اور تکلیف میں کمی آنی شروع ہوگئی اور درد سے افاقے اور صحت و قوت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہونے لگے۔ایک ہفتہ گزرنے کے بعد اس کے اندر اتنی قوت آگئی کہ اپنے بل پر اٹھ سکے۔ اور اس طرح اس نے منشیات سے توبہ کرکے اپنی نئی زندگی شروع کردی۔
tanveerafaqui@gmail.com
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں