آج ہم آپ کو صحابہ کے پاکیزہ و مبارک دور کی ایک عجیب و دلچسپ شخصیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جس نے صحابہ کرامؓ کا سنہری زمانہ پایا ہے۔ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمان غنیؓ کا زمانہ دیکھا ہے۔ بڑے بڑے صحابہ کرام سے کسبِ فیض کیا ہے مگر وہ اپنے علم و فضل میں شہرت پانے کے بجائے حرص و لالچ میں شہرہ آفاق ہوئی۔ ظرافت و بذلہ سنجی میں نام پیدا کیا۔ کسی نے اس شخصیت کو تابعین میں شمار نہیں کیا بلکہ لطیفوں اور چٹکلوں میں تفریح کا موضوع بنالیا۔ جس طرح اردو ادب میں شیخ چلّی، ملا نصرالدین، ملا دوپیازہ لطیفوں کے کردار بن کرمشہور ہوئے اورظرافت و مذاق کے ہیرو بن گئے، اسی طرح عربی ادب میں اشعب کا نام آتا ہے جو عہدِ صحابہ سے ہی حرص و ظرافت کی مثال بن گیا۔ اشعب بخیل، اشعب حریص کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ داستان گوئی میں ماہر تھا، فصاحت و بلاغت میں بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے دلچسپ اندازِ بیان کے سبب امراء و وزراء میں پذیرائی حاصل تھی۔ اشعب کے حرص اور لطیفوں کی داستان بھی مشہور ہے آج بھی لوگ پڑھتے ہیں ، ہنستے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مشہور سوانح نگار ابوالعباس ابن خلکان نے اپنی مشہور کتاب ’’وفیات الاعیان‘‘ جلد دوم میں ’’اشعب الطماع‘‘ کے عنوان سے اس کے تفصیلی احوال درج کیے ہیں۔ اسی طرح ابوالفرج ابن الجوزی نے اپنی کتاب ’’المنتظم‘‘ میں اس کے حالات کا ذکر کیا ہے۔
اشعب بن جبر ۹ ہجری میںپیدا ہوا۔ اس کی ماں جعدہ یا ام حمیدہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیقؓ کی آزاد کردہ باندی تھی، اور اشعب خود بھی حضرت عثمان غنیؓ یا حضرت فاطمہ بنت حسین ابن علیؓ کا آزاد کردہ غلام تھا۔ اشعب نے بہت طویل عمر پائی۔ بہت ہی خوش الحان تھا۔ قرآن کی قرأت سے سماں باندھ دیتا تھا، فنِ قرأت میں مہارت تھی۔دیندار عبادت گزار تھا اور عبداللہ بن جعفر، سالم بن عبداللہ اور عکرمہ جیسے کبار تابعین سے روایت بھی کی ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے اشعب سے کہا کہ تم نے بڑے لوگوں سے علم حاصل کیا ہے اگر تم بھی اپنا حلقہ بناتے اور حدیث روایت کرتے تو ہم استفادہ کرتے۔ اشعب تیار ہوگیا اور درس دینے بیٹھا لوگوں نے کہا کوئی حدیث بیان کرو اس نے کہا میں نے حضرت عکرمہ سے سنا اور انھوں نے عبداللہ بن عباس سے سنا اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ ’’دو عادتیں ایسی ہیں جو کسی مسلمان میں جمع نہیں ہوسکتیں۔‘‘ اتنا کہہ کر چپ ہوگیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ دونوں عادتیں کون کون سی ہیں؟ کہنے لگا کہ ایک کو عکرمہ بھول گئے تھے دوسری کو میں بھول گیا۔
اشعب کے لطیفے
ایک دفعہ اشعب کو ایک دینار ملا (سونے کا سکہ) اس نے واقدی سے کہا : اے ابن واقد میں نے ایک دینار پایا ہے کیا کروں؟ اس نے کہا : لوگوں میں اس کا اعلان کرد و۔ اشعب نے کہا: سبحان اللہ! سبحان اللہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ ابنِ واقد نے پوچھا کیا کرو گے؟ اس نے کہا اس سے ایک کرتا خرید کر پہنوں گا ۔ اس طرح اس کا اعلان ہوجائے گا۔ اس نے کہا: تب کوئی بھی دینار کو نہیں پہچانے گا۔ اشعب نے کہا: میں یہی تو چاہتا ہوں کہ اعلان بھی ہوجائے اور دینار سے میرا ہی فائدہ ہو۔
سلیمان شاذ کوفی کا لڑکا مکتب میں پڑھتا تھا۔ اور اپنا سبق یاد کررہا تھا۔ اشعب بھی وہیں بیٹھا تھا۔ لڑکے نے پڑھا: إنّ أبی یدعوک (میرے باپ تم کو بلا رہے ہیں) اشعب نے جھٹ جوتا پہنا اور لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر کہا چلو۔ لڑکے نے کہا میں تو اپنا سبق یاد کررہا ہوں جس کی عبارت یہی جملہ ہے۔ اشعب نے کہا میں نے سمجھا کہ تمہارے والد مجھ کو کھانے کے لیے بلارہے ہیں۔
ایک مرتبہ اشعب ایک ٹوکری بنانے والے شخص کے پاس سے گزرا تو اس کو ٹوکری بناتے دیکھ کر رک گیا اورکہا بھائی ذرا بڑی بڑی بناؤ اس نے کہا تم سے کیا مطلب، میں بڑی بناؤں یا چھوٹی۔ اشعب نے کہا ہوسکتا ہے کہ کوئی اس ٹوکری کو خریدے اور اس میں میرے پاس ہدیہ بھیجے۔
اشعب نے اپنی خوابگاہ میں بستر کے قریب دیوار میں ایک سوراخ کررکھا تھا اور سوتے وقت اس میں سے ہاتھ باہر نکال لیا کرتا تھا۔ کسی نے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ خالی ہاتھ پھیلا دیکھ کر شاید کوئی درہم وغیرہ رکھ دے۔
ایک مرتبہ مدینے کے بچے اشعب کو گھیرے پریشان کررہے تھے۔ اس نے بچوں کو بھگانے کے لیے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میرے پیچھے کیا پڑے ہو جاؤ دیکھو سالم بن عبداللہ کھجوریں بانٹ رہے ہیں۔ بچوں نے یہ سنا تو سالم کے گھر کی طرف دوڑ لگائی۔ اشعب بھی ان بچوں کے پیچھے دوڑنے لگا۔ کسی نے کہا کہ تم ایسا کیوں کررہے ہو؟ اشعب نے کہا: کیا عجب کے سالم کھجوریں بانٹ ہی رہے ہوں۔
اس قسم کے ہزاروں لطیفے اور حرص و لالچ کی داستان اشعب سے مستند حوالوں سے منقول ہیں اور بہت سے واقعات من گھڑت ہیں جن کو اشعب سے منسوب کردیا گیا ہے۔