اصحابِ کہف

۔۔۔۔۔

اصحاب کہف (غار والے) قرآن پاک کے احسن القصص میں سے ایک قصہ ہے۔ یہود کی تحریک پر قریش مکہ نے ذو القرنین کی طرح اصحاب کہف کے بارے میں بھی حضور نبی کریم ﷺ سے استفسار کیا تھا جس کے جواب میں سورۃ الکہف نازل ہوئی……

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ اصحابِ کہف و رقیم (کا معاملہ) ہماری نشانیوں میں سے کوئی عجیب (معاملہ) ہے جبکہ چند نوجوان پہاڑ کے غار میں پناہ گزیں ہوگئے تھے اور یہ دعا مانگ رہے تھے، اے ہمارے پروردگار! تو اپنے پاس سے ہم کو رحمت عطا کر اور ہمارے لیے رشد و ہدایت مہیا کر۔ پھر ہم نے غار میں چند سال تک کے لیے ان کو تھپک کر سلا دیا پھر ان کو اٹھایا (بیدار کیا) تاکہ ہم جان لیں کہ دونوں بستی والوں اور غار والوں میں سے کس نے ان کی مدت کا صحیح اندازہ لگایا۔‘‘ (الکہف)

کہف کے لغوی معنیٰ پہاڑ کے اندر وسیع غار کے ہیں۔ ’رقیم‘ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ یہ ایلہ (عقبہ) کے قریب ایک شہر کا نام ہے جو اردن کی بندرگاہ ہے۔ یہ واقعہ بعثتِ مسیحؑ سے کچھ زمانے بعد کا ہے۔ بعد کو رومیوں نے جب اسے اپنی تمدنی، سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تو اس کا نام بدل کر پٹیرا رکھا۔

عرب ’پٹیرا‘ کی نسبت سے اسے ’بطرا‘ کہنے لگے۔ بطرا سے اردن کا قریب ترین شہر ’معان‘ ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک حدود اربعہ یہ ہے کہ خلیج عقبہ سے شمال کی جانب بڑھتے ہوئے پہاڑوں کے دومتوازی سلسلے ملتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک پہاڑ کی بلند ی پر شہر رقیم آباد تھا۔ بعض علما اور محققین کے نزدیک اصحاب کہف کا غار ترکی کے شہر ’افسس‘ میں ہے لیکن دیگر علما کا موقف اس بارے میں مختلف ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد تقی عثمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی نے بطرا ہی کو الرقیم قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں جدید اثری تحقیق بھی اس دعویٰ کو ثابت کرتی ہے۔

دورِ جدید میں غار کی کھوج

۱۹۵۳ء میں اردن کے ایک محقق ’ تیسیر ظبیان کو پتا چلا کہ ’معان‘ کے قریب پہاڑ پر ایساغار واقع ہے جس میں کچھ قبریں موجود ہیں اور وہاں ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ غار کی تلاش میں روانہ ہوا۔ جگہ عام راستے سے ہٹ کر واقع تھی، اس لیے کئی کلومیٹر کا دشوار گزار راستہ طے کرکے وہ غار تک پہنچ سکے۔

ایک چرواہے نے انہیں بتایا کہ غار کے اندر کچھ قبریں ہیں جن میں بوسیدہ ہڈیاں پڑی ہیں۔ غار کا دروازہ جنوب کی سمت تھا۔ اس کے دونوں کناروں پر دوستون تھے جو چٹان کھود کر بنائے گئے تھے۔ ستونوں پر بازنطینی نقوش ابھرے ہوئے تھے۔ غار کو ہر طرف سے پتھروں کے ڈھیروں اور ملبہ نے چھپایا ہوا تھا۔ محکمۂ آثار قدیمہ کو اس بارے میں مطلع کیا گیا چنانچہ ۱۹۶۱ء میں اس کی کھدائی کا کام شروع ہوا۔ اس کے بعد اس بات کے قرائن و شواہد ملتے چلے گئے کہ یہی اصحاب کہف کا مقام ہے۔ ان میں اہم یہ ہیں:

(۱) غار کا رخ اسی طرح واقع ہے جیسے قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ یعنی اس میں دھوپ کبھی اندر نہیں آتی بلکہ طلوع اور غروب آفتاب کے وقت دائیں بائیں سے گزر جاتی ہے تاہم غار کے اندر کشادہ خلا ہے جس کے ذریعہ ہوا اور روشنی اندر پہنچتی ہے۔

(۲) قرآن کریم نے یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ بستی کے لوگوں نے غار کے اوپر مسجد بنانے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے ٹھیک اوپر کھدائی کرنے اور ملبہ ہٹانے کے بعدایک مسجد برآمد ہوئی جو قدیم رومی طرز کے پتھروں سے بنی ہوئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ شروع میں بازنطینی (رومی) طرزکا ایک معبد تھا، خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں اسے مسجد بنادیا گیا۔

(۳) عصر حاضر کے محققین کا کہنا ہے کہ مشرک رومی بادشاہ جس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی تھی’ٹراجن‘ تھا جو ۹۸ء سے ۱۱۷ء تک علاقے کا حکمراں رہا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بت پرستی سے انکار کرنے والوں پر ظلم ڈھاتا تھا۔ وہ بادشاہ جس کے عہد میں اصحاب کہف بیدار ہوئے، اس کا نام محققین تھیوڈوسس بتاتے ہیں جو پانچویں صدی کے آغاز میں گزرا۔ اگر اس تحقیق کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اصحاب کہف کم و بیش تین سو سال تک محو خواب رہے اور پھر بیدار ہوئے۔ یہ بھی واضح رہے کہ دریافت شدہ غار کے اندر جو سکے ملے ہیں، ان میں سے کچھ ٹراجن کے زمانے کے ہیں۔

(۴) قرآن کریم نے اصحاب کہف کو ’اصحاب الکہف والرقیم‘ (غار اور رقیم والے) کہا ہے۔ رقیم کیا ہے؟ اس کی تشریح میں مختلف آرا بیان کی گئی ہیں۔ بیشتر محققین کا خیال یہ ہے کہ ’رقیم‘ اس بستی کا نام تھا جس میں یہ حضرات آباد تھے۔ اب جس جگہ یہ غار واقع ہے وہاں سے صرف سو میٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی ’رجیب‘ کہلاتی ہے۔ قیاس ہے کہ یہ ’رقیم‘کی بگڑی ہوئی شکل ہے کیونکہ یہاں کے بدّو (دیہاتی) اکثر قاف کو جیم اور میم کو با سے بدل کر بولتے ہیں۔ چنانچہ اب حکومت اردن نے اس بستی کا نام سرکاری طور پر رقیم ہی کردیا ہے۔

تاہم مولانا مودودیؒ سمیت بعض مفسرین کے نزدیک رقیم سے مراد وہ کتبہ ہے جو غار پر اصحاب کہف کی یاد گار کے طور پر لگایا گیا تھا۔

(۵) حضرت عبادہ بن صامتؓ کے بارے میںمروی ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ نے انہیں روم کے پاس ایلچی بنا کر بھیجا تو وہ شام کے راستے پر ایک پہاڑ سے گزرے جس کا نام جبل الرقیم تھا۔ اس میں ایک غار بھی تھا جس میں کچھ ڈھانچے تھے اور وہ بوسیدہ بھی نہیں ہوئے تھے۔

فتوح الشام میں واقدی نے بھی حضرت سعید بن عامرؓ کا ایک طویل قصہ لکھا ہے کہ وہ شام کی طرف جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور راستہ بھول گئے۔ بالآخر بھٹکتے بھٹکتے جبل الرقیم کے پاس پہنچے، تو اسے دیکھ کر پہچان گئے اور پھر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ یہ اصحاب کہف کا غار ہے (موقع اصحاب کہف از تیسیر ظبیان)

تیسیر ظبیان کے مطابق اب کاروں کے لیے پہاڑ کے اوپر تک جانے کا راستہ بنادیا گیاہے۔ اوپر ایک کشادہ صحن ہے جس پر قدیم طرز کے کچھ ستون بنے ہوئے ہیں۔ صحن عبور کریں تو سامنے غار کا دہانہ ہے۔ وہیں فرش پر ایک چوڑے پتھر کی بنی ہوئی چوکھٹ سی ہے۔ اس غار کے اندر اترنے کے لیے تقریباً دو سیڑھیاں نیچے جانا پڑتا ہے۔ وہاں غار تین حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک حصہ دہانے سے سیدھا شمال تک گیا ہے، دوسرا دائیں ہاتھ مشرق کی طرف اورتیسرا بائیں ہاتھ مغرب کی طرف جاتا ہے۔ مشرقی اور مغربی حصوں میں آٹھ تابوت نما قبریں ہیں۔ مشرقی حصے کی ایک قبر میں ایک چھوٹا سا سوراخ بھی ہے۔ اس میں جھانک کر دیکھیں، تو ایک انسانی ڈھانچہ صاف نظر آتا ہے۔ اگر اندھیرا ہو تو غار کا مجاور موم بتی جلاکر اندر کا منظر دکھادیتا ہے۔

۱۹۶۱ء میں جب اس غار کی صفائی اور کھدائی کا کام شروع ہوا، تو غار کی درمیانی جگہ میں ایک جانور کا جبڑا پرا ہوا ملا جس میں ایک نوکیلا دانت اور چار ڈاڑھیں محفوظ تھیں۔ خیال ہے کہ یہ اصحاب کہف کے کتے کا جبڑا تھا۔

اسی جگہ رومی، اسلامی اور عثمانی دور کے بہت سے سکے، ٹھیکری کے برتن، پیتل کے کنگن اور انگوٹھیاں پڑی ہوئی ملی تھیں۔ اب یہ ساری اشیاء غار کی شمالی دیوار میں نصب ایک الماری میں محفوظ ہیں۔ غار کی جب صفائی کی گئی تو پتا چلا کہ اس کی دیواروں پر خط یونانی اور خط کوفی میں کچھ عبارتیں بھی لکھی ہیں جواب پڑھی نہیں جاسکتیں۔

اردن کے محکمہ آثار قدیمہ اور اوقاف نے اس غار کے تحفظ اور صفائی وغیرہ پر خاص توجہ دی۔ قریب ہی ایک نئی مسجد بھی تعمیر کردی گئی ہے۔ زائرین کی سہولت کے لیے راستہ آسان بنادیا گیا ہے اور غار کے اندر کتبے بھی لگادیے ہیں۔

اہل کتاب نے اس سلسلے میں کافی بحث و مباحثہ کیا ہے کہ اصحاب کہف کی تعداد کیا ہے اور وہ کتنے برس سوتے رہے مگر قرآن پاک ان باتوں کو ثانوی حیثیت دیتا ہے اور اصل مدعا یہ بیان کرتا ہے کہ اس واقعہ سے عبرت پکڑی جائے اور انسان قیامت پر ایمان لائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں