قابل غور بات یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ جواب کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ معاشرہ میں بسنے والے افراد کی زندگی کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوتی ہے؟ قرآن پر غور کرنے سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ زندگی کی ابتدا خاندان سے ہوتی ہے۔ یقینا کوئی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ماں کی آغوش ہی بچہ کی پہلی درس گاہ ہے۔ بس کیا اس بنیاد اور اولین درس گاہ کو نظر انداز کرکے ہم ثانوی اور اعلیٰ درس گاہوں کی اصلاح کریں گے؟ کیا ان لوگوں کو اصلاح کی ذمہ داری سونپی جائے جو پہلی درس گاہ سے تعلق ہی نہیں رکھتے؟ اس کی مثال اسی طرح ہے کہ ہم ابتدائی مدارس میں بچہ کی تربیت و اصلاح پر توجہ نہ دیں اور جامعات میں طالب علم کے کردار کی اصلاح کی کوشش کریں۔ کیا کسی عمارت کی بنیاد پہلی منزل کو چھوڑ کر دوسری منزل پر رکھی جاسکتی ہے؟ کیا بنیاد کو پائدار اور خوش نما تعمیر کے لیے اچھے معمار کا انتخاب کرنے کے بجائے کسی غیر متعلق شخص سے یہ کام لیا جاسکتا ہے؟ اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو بچوں کی تعلیم و تربیت کی ابتدا بھی آغوش مادر ہی سے ہوسکتی ہے۔ چناں چہ ابتدا ہی سے ان کی اصلاح و تربیت ہونا چاہیے تاکہ بنیاد بہتر و مضبوط پڑ جائے اور پھر اس پر خوش نما عمارت تعمیر کی جاسکے اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اصلاح معاشرہ میں اہم و موثر کردار خواتین ہی ادا کرسکتی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں خواتین نے ہمیشہ اصلاح معاشرہ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کرسکتی ہیں۔
عورت معاشرہ میں کئی اہم منصب رکھتی ہے اور ہر ایک منصب ایک خاندان کی اصلاح اور خاندان کی اصلاح کے ذریعے معاشرہ کی اصلاح کا ذریعہ بنتا ہے۔ وہ ماں ہویا بیٹی، بہن ہو یا بیوی، معاشرہ کی موثر فعال رکن ہے اور ہونا چاہیے تاکہ وہ اسلامی معاشرہ کے قیام و اصلاح میں اپنا کردار فریضہ سمجھ کر باحسن و خوبی ادا کرسکے۔
اسلامی معاشرہ نے عورت کو گھریلو زندگی کی مالکہ اور نگراں کا درجہ دیا ہے۔ بچوں کی تربیت اور کردار سازی اس کا اہم و بنیادی فریضہ ہے۔ عورت ہی مذہبی و ثقافتی اقدار کی امین و محافظ تصور کی جاتی ہے۔ عورت اگر اچھے کردا رکی مالکہ، دین کی اشاعت کی خواہاں، مشفق و پرخلوص ہوگی تو قوم کو بنانے اور اصلاح کرنے میں مرد سے بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔ مزید برآں تعلیم یافتہ خاتون یہ فریضہ زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔ اسی لیے خواتین کی تعلیم و تربیت اہمیت رکھتی ہے۔ ایک مرد اگر تعلیم حاصل کرتا ہے تو ایک فرد تعلیم یافتہ بن جاتا ہے، لیکن ایک عورت تعلیم حاصل کرتی ہے تو ایک خاندان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ چناں چہ معاشرے کی اخلاقی و روحانی اقدار کے تحفظ اور معاشرے کی اصلاح کے لیے خواتین خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین نے یہ خدمت خوب انجام دی ہے۔ یہاں تک کہ حق و باطل کے معرکوں اور زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین نے فعال کردار ادا کیا ہے۔
آج بھی معاشرہ کی اصلاح کے لیے خواتین کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اچھی اور تعلیم یافتہ ماں ہی بچہ کی صحیح جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، جذباتی، معاشرتی اور اخلاقی تربیت کرسکتی ہے اور یہی معاشرہ کی اصلاح کی بنیاد ڈال سکتی ہے۔ دین اسلام بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کا زبردست حامی ہے۔ حصول علم عورت و مرد دونوں پر فرض کیا گیا ہے اس سلسلے میں حضورﷺ کا فرمان ہے:
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اسلامی معاشرہ میں خواتین کو معاشرہ کی روایات کا امین سمجھا گیا لیکن صد افسوس آج ہماری خواتین معاشرتی خرابیوں کی اصلاح کی بجائے ان خرابیوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت سے غفلت برت رہی ہیں۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، تربیت کی ذمہ دار خواتین ہیں۔اس ذمہ داری کی مناسب ادائیگی ہی سے معاشرہ سے جرائم و بے راہ روی کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔
ہم اگر گزرے زمانے کی باتیں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مائیں اور گھر کی بزرگ خواتین بچوں کی تعلیم و تربیت اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں۔ رات کو سونے سے پہلے بچوں کو اخلاقی کہانیاں، بہادری و شجاعت کے سچے قصے سنانا ان کا مشغلہ تھا۔ وہ کہانیاں سنتے اور دعائیں پڑھتے سوجاتے تھے۔ صبح سویرے بیدار ہوتے اور اپنی نانی، دادی سے قرآن پاک پڑھنا سیکھتے، نماز ادا کرتے، لیکن افسوس آج کے بچے ماؤں کے ساتھ بیٹھ کر یا دوستوں کی محفل میں رات بھر ٹی وی پروگرام اور فلمیں دیکھتے ہیں۔ صبح سویرے نماز کے وقت سو جاتے ہیں اور فخریہ بتاتے ہیں کہ ان کی صبح دوپہر بارہ بجے ہوتی ہے۔ اگر مائیں اپنا رویہ تبدیل کریں، روز مرہ زندگی کے معاملات کو بہتر بنائیں، جھوٹی نمود و نمائش کو ترک کر دیں۔ مردوں سے حلال روزی کا مطالبہ کریں تو گھروں، کلبوں اور معاشرہ میں ارد گرد بکھری بے راہ روی اور گندگی کی داستانوں کو قصہ پارینہ بنایا جاسکتا ہے۔ اگر قرآن میں غوطہ زن ہوں تو خواتین بلند کردار شخصیتیں پیدا کرسکتی ہیں اور ایمان و ایقان کی دولت سے معاشرہ کی اصلاح کرسکتی ہیں۔
اسلامی معاشرہ میں خواتین اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں ادا کرتی رہی ہیں اور کرسکتی ہیں کیوں کہ دین اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا ہے جو اسے نہ کسی قوم نے دیا نہ مذہب نے، ملک نہ معاشرہ نے۔
اصلاح معاشرہ میں ہمیشہ اہم کردار خواتین نے ادا کیا اور یہ حکم خداوندی اور تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ہے کیوں کہ قرآن پاک اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں معاشرہ کو برائیوں سے پاک کرنے کی بار بار ہدایت فرمائی گئی ہے۔
۱- اگر کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے بدل دے یعنی روک دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو زبان سے اس کی برائی ظاہر کرکے اسے بند کرادے اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اسے دل سے برا سمجھے مگر یہ آخری صورت بہت ضعیف ایمان کی نشانی ہے۔
۲- لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اسے ظلم کرنے سے باز نہ رکھ سکیں تو جلدی خدا ان سب پر عذاب نازل کرے گا۔ اگر کسی قوم میں کثرت سے گناہ ہوتے ہوں اور بعض لوگ یہ قدرت رکھتے ہوں کہ انہیں گناہ سے باز رکھ سکیں مگر ایسا نہ کریں تو جلد خدا ان سب کو مبتلائے عذاب کرے گا۔
دین اسلام نے قرآن پاک و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے معاشرتی خدمت و اصلاح کی ذمہ داری مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین پر بھی عائد کی ہے اور معاشرتی اصلاح کے لیے ذرائع بھی واضح طور پر بیان کیے ہیں۔ بچوں کی تربیت یتیموں، بیواؤں کے ساتھ ہمدردی ان کے مال کا تحفظ، مسکینوں، محتاجوں کی مدد کرنا، زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کر کے غرباء کو اس میں حصہ دار بنانا، سماجی خدمت اور تربیت اصلاح کے وہ ذرائع ہیں جو یقینا خواتین بہتر طور پر انجام دے سکتی ہیں۔ اصلاح کے لیے یہی لازمی حصوصیات و شرائط ہیں جو ایک مصلح میں ہونی چاہئیں۔ یہ کام صبر و تحمل مانگتا ہے جو مردوں کے مقابلہ میں خواتین میں پایا جاتا ہے۔lll