کہنے والے کہتے ہیں کہ اصلاح رسوم کی تحریک ممکن العمل نہیں۔ یہ نہ پہلے چلی ہے نہ اب چل سکے گی۔ اپنے اس یقین کے جواز میں وہ یہ کہتے ہیں کہ رسومات کی ادائیگی پیسہ کا کھیل ہے۔ پیسہ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ اس کو روکنے کی کوشش کی جائے تو اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس چشمہ میں کچھ ایسا ہے کہ بند کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور کناروں کو بھی توڑ جاتا ہے۔ اس نے چھلکنا اور بہنا سیکھا ہے۔لہٰذا کہنے والوں کی اس بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ جب پیسہ ہوگا وہ خرچ بھی ضرور ہوگا۔ ہم یہ بھی مانے لیتے ہیں کہ پیسہ کو چونکہ ہر حال میں خرچ ہونا ہی ہے لہٰذا اگر رسومات میں خرچ نہ ہوا تو کہیں اور ہوگا۔ اگر وہاں بھی خرچ نہ ہوا تو پھر کہیں اور ہوگا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کوئی کسی کا ہاتھ روکنے والا کون؟ وہ سیاہ کرتا ہو یا سفید؟ اپنے خزانے کو آگ دکھادے یا نوٹوں کو لوبان کی دھونی دے، مگر پھر بھی کہنے کی ایک بات ہے کہ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں ضرور کیجیے مگر خدا کے لیے اپنے دوسرے بدنصیب اور نادار بھائیوں پر رحم فرمائیے۔ مانا کہ آپ کو اپنی امیری کے اظہار کا بس یہی ایک طریقہ معلوم ہے مگر اتنا تو سوچئے کہ آپ اس طرح بڑھ چڑھ کر رسومات ادا کرکے دوسروں کے لیے جو مثالیں قائم کررہے ہیں وہ آپ کے ان سفید پوش عزت دار بھائیوں کے لیے کیسی صبر آزما مشکلات کا باعث ہیں جو اپنی عزت و آبرو سنبھالے گھروں میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ ذرا گھروں کے اندر آئیے، ان لڑکیوں کی آنکھوں میں جھانکئے جو ہاتھ پیلے ہونے کی آس لیے آسمان کی جانب تک رہی ہیں۔ ذرا ماؤں کے ابلتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں ا ور باپوں کے سینوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھئے۔ رسومات کے ماروں میں کنواری لڑکیاں بھی ہیں اور ایسے نوجوان بھی جو رسومات اور ان سے پیدا ہونے والے خاندانی نزاعات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا ہماری یہ مایا کے ساتھ آنکھ مچولی اور سونے چاندی کا کھیل کسی بھی طرح جائز ہے۔ کیا ہم اپنی حرکات سے ان بیچاروں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کررہے ہیں؟ انھیں زبردست پریشانی اور مشکلات میں مبتلا نہیں کررہے ہیں؟ یہاں تو ناک ہے، عزت ہے، آبرو ہے، وضعداری ہے، خاندان ہے، طعنے تشنے ہیں عورتوں کی لمبی لمبی زبانیں ہیں، ہنسی ہے، مذاق ہے جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے سماج میں آج دو طبقے ہوچکے ہیں- امیر اور غریب- یہ طبقے روز بروز ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے درمیان رسومات کی اونچی اونچی دیواریں ہیں۔جو برابر اونچی ہوتی جارہی ہیں اور درمیانی فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ دل ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں مگر اس کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا۔ تباہی، مکمل بربادی! خرابی اگر زیادہ دیر تک قائم رہی تو پھر اس کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ اس ردّ عمل کو جتنی جلد سمجھ لیجیے اتنا ہی سماج کے حق میں بہتر ہے، ورنہ آپ کے ہاں بھی مستقلاً امیر و غریب کی کشمکش شروع ہوجائے گی جو ہماری پوری سماجی زندگی کو نیست و نابود اور اقتصادی و معاشی ڈھانچہ کو زمیں بوس کردے گی۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم انسانی کوششوں کی حد تک غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جہا ںہم ایک طرف متحد اور ایک دوسرے سے قریب ہوسکیں گے اسی کے ساتھ بہت سی اخلاقی خرابیوں اور بے راہ روی سے بھی بچ جائیں گے، جن سے بچنے کی ہمارا دین ہمیں تلقین کرتا ہے اور جو انسانی زندگی میں فساد کا موجب ہوتی ہیں۔ رسومات کو ختم کرکے ہم اس جانب ایک اہم قدم اٹھاسکتے ہیں۔ ہم اپنے لیے تو بہت کچھ کرتے ہیں اور ہمارے دن ورات خود غرضیوں اور ذاتی مفادات میں گزرتے ہی ہیں ۔ کاش! ہم اپنے دوسرے بھائیوں کی خاطر اتنا ہی ایثار کرنا سیکھ جائیں کہ اپنی خواہشات کی پوٹلی باندھ کر دریا برد کردیں اور اپنی ناکوں کو ذرا ذرا سا تراش لیں اور اپنے چونچلوں کو فی الحال کسی دوسرے زمانے کے لیے ملتوی کردیں۔ بحمداللہ مسلمانوں میں خدا ترس انسانوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہم نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر احکام خداوندی بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں مگر حیرت ہوتی ہے جب برات اور ولیمہ کی دعوتوں کے بعد روٹی کے ٹکڑوں کے اونچے اونچے ڈھیر کوڑے دانوں میں اور چھوٹے سالن کی دیگیں نالیوں میں بہہ کر تعفن پیدا کرتی ہیں جب کہ ہمارے قریب ہی کے لوگ دانہ دانہ کوترس رہے ہیں اور ایسے بھی انسان نما حیوان نظر آتے ہیں جو ان کوڑے کے ڈھیروں سے کھانا کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ عقیقہ کی سنت اور ختنہ کے موقع کو ہم نے کس طرح شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بناڈالا۔ برتھ ڈے پارٹیوںاور ’’اینی ورسری‘‘ کو کس طرح ہم نے عظیم الشان تقریبات میں بدل دیا۔ شادیوں میں دیے اور لیے جانے والے جہیز نے کس طرح نام و نمود اور عزت و شہرت کی شکل اختیار کرلی جبکہ اسی سماج میں لاکھوں نوجوان لڑکیاں گھر کی چہار دیواری میں صرف اس لیے بلک رہی ہیں کہ وہ غریب ماں باپ کی بیٹی ہیں۔
اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اللہ و رسول کا نام لینے والے اور دین داری کی شناخت رکھنے والے لوگ بھی شہرت و ناموری اور سماجی مجبوری کا شکار ہوکر وہی کچھ کرتے ہیں، جو عام بے دین معاشرہ کرتا ہے۔ دینی جماعتوں کے افراد اور ان کے قائدین کا خطاب تو ان رسومات کے خلاف ہوتا ہے مگر عمل انہی رسوم کی غلامی کا ثبوت ہوتا ہے۔
غرض یہ کہ
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
یہ کانفرنسوں، خطابات اور ڈرائنگ روم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ غوروفکر اور عملی جدوجہد کا طلب گار ہے۔ وہ لوگ جواللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے دین کو اپنے لیے طریقۂ زندگی تصور کرتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ ہر عمل کی ادائیگی اور ہر رسم نبھاتے وقت یہ دیکھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا طرزِ عمل اس سلسلہ میں کیا رہا ہے۔ اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کو دیکھ کر اس کو اپنے لیے نشان راہ بنائیں تو ان جاہلانہ اور فضول رسوم کا خاتمہ ہوجائے گا جس نے آج ہمارے پورے سماج کو اپنی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ:
’’جب اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مومن مردو عورت کے لیے کوئی اختیار (باقی) نہیں رہتا۔‘‘
اللہ کے رسول کا عمل ہی ہمارے لیے فیصلہ کن ہے۔ اسے اختیار کرلینے کے بعد ہمیں اس بات کی ہرگز فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ان کا ردعمل کیا ہوگا اورسماج میں کیسے رہا جائے گا۔ یہی طرز فکر وعمل مسلمانوں کو ان جاہلانہ رسوم کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔اصلاح رسوم کیوں اور کیسے؟
سعدیہ اختر
کہنے والے کہتے ہیں کہ اصلاح رسوم کی تحریک ممکن العمل نہیں۔ یہ نہ پہلے چلی ہے نہ اب چل سکے گی۔ اپنے اس یقین کے جواز میں وہ یہ کہتے ہیں کہ رسومات کی ادائیگی پیسہ کا کھیل ہے۔ پیسہ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ایک بہتا ہوا چشمہ ہے۔ اس کو روکنے کی کوشش کی جائے تو اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس چشمہ میں کچھ ایسا ہے کہ بند کو بھی خاطر میں نہیں لاتا اور کناروں کو بھی توڑ جاتا ہے۔ اس نے چھلکنا اور بہنا سیکھا ہے۔لہٰذا کہنے والوں کی اس بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ جب پیسہ ہوگا وہ خرچ بھی ضرور ہوگا۔ ہم یہ بھی مانے لیتے ہیں کہ پیسہ کو چونکہ ہر حال میں خرچ ہونا ہی ہے لہٰذا اگر رسومات میں خرچ نہ ہوا تو کہیں اور ہوگا۔ اگر وہاں بھی خرچ نہ ہوا تو پھر کہیں اور ہوگا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کوئی کسی کا ہاتھ روکنے والا کون؟ وہ سیاہ کرتا ہو یا سفید؟ اپنے خزانے کو آگ دکھادے یا نوٹوں کو لوبان کی دھونی دے، مگر پھر بھی کہنے کی ایک بات ہے کہ آپ جو کچھ بھی کررہے ہیں ضرور کیجیے مگر خدا کے لیے اپنے دوسرے بدنصیب اور نادار بھائیوں پر رحم فرمائیے۔ مانا کہ آپ کو اپنی امیری کے اظہار کا بس یہی ایک طریقہ معلوم ہے مگر اتنا تو سوچئے کہ آپ اس طرح بڑھ چڑھ کر رسومات ادا کرکے دوسروں کے لیے جو مثالیں قائم کررہے ہیں وہ آپ کے ان سفید پوش عزت دار بھائیوں کے لیے کیسی صبر آزما مشکلات کا باعث ہیں جو اپنی عزت و آبرو سنبھالے گھروں میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔ ذرا گھروں کے اندر آئیے، ان لڑکیوں کی آنکھوں میں جھانکئے جو ہاتھ پیلے ہونے کی آس لیے آسمان کی جانب تک رہی ہیں۔ ذرا ماؤں کے ابلتے ہوئے آنسوؤں کی لڑیاں ا ور باپوں کے سینوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کو دیکھئے۔ رسومات کے ماروں میں کنواری لڑکیاں بھی ہیں اور ایسے نوجوان بھی جو رسومات اور ان سے پیدا ہونے والے خاندانی نزاعات کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا ہماری یہ مایا کے ساتھ آنکھ مچولی اور سونے چاندی کا کھیل کسی بھی طرح جائز ہے۔ کیا ہم اپنی حرکات سے ان بیچاروں کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کررہے ہیں؟ انھیں زبردست پریشانی اور مشکلات میں مبتلا نہیں کررہے ہیں؟ یہاں تو ناک ہے، عزت ہے، آبرو ہے، وضعداری ہے، خاندان ہے، طعنے تشنے ہیں عورتوں کی لمبی لمبی زبانیں ہیں، ہنسی ہے، مذاق ہے جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے سماج میں آج دو طبقے ہوچکے ہیں- امیر اور غریب- یہ طبقے روز بروز ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ان کے درمیان رسومات کی اونچی اونچی دیواریں ہیں۔جو برابر اونچی ہوتی جارہی ہیں اور درمیانی فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ دل ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں مگر اس کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا۔ تباہی، مکمل بربادی! خرابی اگر زیادہ دیر تک قائم رہی تو پھر اس کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ اس ردّ عمل کو جتنی جلد سمجھ لیجیے اتنا ہی سماج کے حق میں بہتر ہے، ورنہ آپ کے ہاں بھی مستقلاً امیر و غریب کی کشمکش شروع ہوجائے گی جو ہماری پوری سماجی زندگی کو نیست و نابود اور اقتصادی و معاشی ڈھانچہ کو زمیں بوس کردے گی۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم انسانی کوششوں کی حد تک غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح جہا ںہم ایک طرف متحد اور ایک دوسرے سے قریب ہوسکیں گے اسی کے ساتھ بہت سی اخلاقی خرابیوں اور بے راہ روی سے بھی بچ جائیں گے، جن سے بچنے کی ہمارا دین ہمیں تلقین کرتا ہے اور جو انسانی زندگی میں فساد کا موجب ہوتی ہیں۔ رسومات کو ختم کرکے ہم اس جانب ایک اہم قدم اٹھاسکتے ہیں۔ ہم اپنے لیے تو بہت کچھ کرتے ہیں اور ہمارے دن ورات خود غرضیوں اور ذاتی مفادات میں گزرتے ہی ہیں ۔ کاش! ہم اپنے دوسرے بھائیوں کی خاطر اتنا ہی ایثار کرنا سیکھ جائیں کہ اپنی خواہشات کی پوٹلی باندھ کر دریا برد کردیں اور اپنی ناکوں کو ذرا ذرا سا تراش لیں اور اپنے چونچلوں کو فی الحال کسی دوسرے زمانے کے لیے ملتوی کردیں۔ بحمداللہ مسلمانوں میں خدا ترس انسانوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہم نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر احکام خداوندی بڑے ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں مگر حیرت ہوتی ہے جب برات اور ولیمہ کی دعوتوں کے بعد روٹی کے ٹکڑوں کے اونچے اونچے ڈھیر کوڑے دانوں میں اور چھوٹے سالن کی دیگیں نالیوں میں بہہ کر تعفن پیدا کرتی ہیں جب کہ ہمارے قریب ہی کے لوگ دانہ دانہ کوترس رہے ہیں اور ایسے بھی انسان نما حیوان نظر آتے ہیں جو ان کوڑے کے ڈھیروں سے کھانا کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ عقیقہ کی سنت اور ختنہ کے موقع کو ہم نے کس طرح شان و شوکت کے اظہار کا ذریعہ بناڈالا۔ برتھ ڈے پارٹیوںاور ’’اینی ورسری‘‘ کو کس طرح ہم نے عظیم الشان تقریبات میں بدل دیا۔ شادیوں میں دیے اور لیے جانے والے جہیز نے کس طرح نام و نمود اور عزت و شہرت کی شکل اختیار کرلی جبکہ اسی سماج میں لاکھوں نوجوان لڑکیاں گھر کی چہار دیواری میں صرف اس لیے بلک رہی ہیں کہ وہ غریب ماں باپ کی بیٹی ہیں۔
اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اللہ و رسول کا نام لینے والے اور دین داری کی شناخت رکھنے والے لوگ بھی شہرت و ناموری اور سماجی مجبوری کا شکار ہوکر وہی کچھ کرتے ہیں، جو عام بے دین معاشرہ کرتا ہے۔ دینی جماعتوں کے افراد اور ان کے قائدین کا خطاب تو ان رسومات کے خلاف ہوتا ہے مگر عمل انہی رسوم کی غلامی کا ثبوت ہوتا ہے۔
غرض یہ کہ
تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں
یہ کانفرنسوں، خطابات اور ڈرائنگ روم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ غوروفکر اور عملی جدوجہد کا طلب گار ہے۔ وہ لوگ جواللہ اوراس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے دین کو اپنے لیے طریقۂ زندگی تصور کرتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ ہر عمل کی ادائیگی اور ہر رسم نبھاتے وقت یہ دیکھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا طرزِ عمل اس سلسلہ میں کیا رہا ہے۔ اگر ہم اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کو دیکھ کر اس کو اپنے لیے نشان راہ بنائیں تو ان جاہلانہ اور فضول رسوم کا خاتمہ ہوجائے گا جس نے آج ہمارے پورے سماج کو اپنی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ:
’’جب اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مومن مردو عورت کے لیے کوئی اختیار (باقی) نہیں رہتا۔‘‘
اللہ کے رسول کا عمل ہی ہمارے لیے فیصلہ کن ہے۔ اسے اختیار کرلینے کے بعد ہمیں اس بات کی ہرگز فکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ان کا ردعمل کیا ہوگا اورسماج میں کیسے رہا جائے گا۔ یہی طرز فکر وعمل مسلمانوں کو ان جاہلانہ رسوم کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔