معاشرے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ہمارا سب سے اہم مسئلہ اصلاحِ معاشرہ ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو طرح طرح کی برائیوں کی زد میں ہے۔ لوگوں کی اخلاقی زندگی تباہ ہو چکی ہے اور انسانی رشتوں کی ساری شکلیں زہر آلود ہیں۔ یہ صورت حال صرف حساس لوگوں کے لیے اذیت اور کرب کا باعث نہیں ہے بلکہ معاشرے کے عام افراد کے لیے بھی ناقابلِ برداشت بن گئی ہے۔ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے کہ اگر اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی مؤثر کوششیں بہت جلد نہ شروع کی گئیں تو معاشرہ اخلاق اور قانون کی ہر پابندی سے آزاد ہو کر ایک ایسے فساد اور انتشار کا شکار ہو جائے گا جس کا تدارک ممکن نہ ہوگا۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ صورت حال صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام دنیا ایک اخلاقی بحران سے گزر رہی ہے اور اس کا تجزیہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب اسے عالم گیر مسائل کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک یہ مسئلہ اخلاقی نہیں بلکہ معاشی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ وہ جو معاش کے تمام ذرائع پر قابض ہے اور زندگی کی ساری آسائشیں اور سہولتیں اس کے لیے وقف ہیں جب کہ دوسرا حصہ اس سے محروم ہے اور افلاس اور فاقہ کشی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ یہ دونوں گروہ تنازہ للبقا کے عمل میں مبتلا ہیں اور نتیجے کے طور پر اخلاق ایک غیر متعلق سوال بن کر رہ گیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دولت کی منصفانہ تقسیم کی جائے اور دونوں گروہوں کے تضاد‘ تخالف اور مسابقت کی لا متناہی دوڑ کو ختم کیا جائے۔ اس گروہ کے نزدیک انفرادی اخلاق کے کوئی معنی نہیں اور معاشرتی فساد کا حل انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔
اس کے مقابلے پر ایک دوسرا گروہ ہے جو انفرادی اخلاق کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بڑی اجتماعی تبدیلیاں بھی افراد کے ذریعے ہی ظہور میں آتی ہیں۔ دولت کی منصفانہ تقسیم‘ عدل عمرانی کا تصور اور اجتماعی انقلاب کا عمل بھی ایسے افراد کی موجودگی کا محتاج ہے جو ان اصولوں پر یقین رکھتے ہوں اور معاشرے کو اُن کی بنیاد پر تبدیل کرنا چاہتے ہوں۔ اب اگر یہ لوگ خود اخلاقی اعتبار سے درست نہ ہوں تو وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ ہر انقلاب ایک انقلابی جماعت کا مرہونِ منت ہوتا ہے اور اس انقلابی جماعت کے افراد کا اخلاقی ہونا انقلاب کی لازمی شرط ہے۔
اب اس صورت حال میں ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہم مسئلے کا تجزیہ کن اصطلاحوں میں کرتے ہیں اور اس کے حل کے لیے کیا تجویز پیش کرتے ہیں۔سچائی سے بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ ہمارے یہاں مسئلے کے تجزیے اور وضاحت کے لیے اتنا غور نہیں کیا گیا جتنا ضروری ہے۔
عام طور پر ہم اخلاقی نقطۂ نظر کی حمایت کرتے ہیں اور معاشی نقطہ نظر کو غیر اسلامی سمجھ کر اسے چنداں اہمیت نہیں دیتے یا مناسب غوروفکر کے بغیر رد کر دیتے ہیں اور اس کے نتیجے کے طور پر جو رویہ پیدا ہوتا ہے اس کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ ہمیں اخلاقی اصولوں پر زور دیتے رہنا چاہیے اور ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ ہم لوگوں کو بتا دیں کہ اخلاقی اعتبار سے کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی بری۔ چنانچہ دن رات تبلیغ و اشاعت کے تمام مراکز کو اخلاق کا درس دینے میں لگے رہتے ہیں اور بے بسی سے یہ مشاہدہ کرنے کے باوجود کہ اس سے لوگوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا یہ خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی دن کچھ نہ کچھ اثر ضرور پڑے گا۔ اس سلسلے میں ہمارا استدلال جن منزلوں سے گزرتا ہے وہ یہ ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام نے ہمیں اخلاق کی تعلیم دی ہے۔ ہم مسلمان ہیں تو ہمیںاس کی تعلیم پر عمل کرنا چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ اسلام کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہم اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر عمل نہ کریں تو معاشرے کی اصلاح کس طرح کی جائے اس پر ہم کوئی غور نہیں کرتے حالانکہ اصل مسئلہ یہی ہے۔ اخلاقی تعلیم پر اگر عمل کیا جائے تو اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے،لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے، اس لیے حقیقی سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال میں کیا کیا جائے؟
یہاں پہنچ کر ہمیں انفرادی اور اخلاقی نقطہ نظر کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمارے نزدیک انسان صرف ماحول کو درست کرنے سے ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ داخلی تبدیلیاںپورے ماحول کو بدلنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کو اندر اور باہر دونوں طرف سے بدلا جائے۔ اس میںداخلی تبدیلیاں بھی کی جائیں اور اس کے ماحول کو بھی درست کیا جائے۔ داخلی تبدیلی کے معنی افراد میں تبدیلی کے ہیں اور ماحول میں تبدیلی سماج میں تبدیلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مختصر لفظوں میں ہمیں انفرادی اخلاق کی ضرورت بھی ہے اور اجتماعی قانون کی بھی۔ اس لیے اسلام صرف انفرادی یا صرف اجتماعی تصورات پیش کرنے کے بجائے ایسے تصورات پیش کرتا ہے جو انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کی زندگیوں کو بھی تبدیل کیا اور اس کے بعد ایک ریاست کی بنیاد بھی رکھی جس کی اساس اسلامی قوانین پر تھی۔ یہ قوانین ا ور اخلاقی زندگی مل کر ہی انسانی فوز و فلاح کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہےکہ آج کل اسلامی نظام کے نفاذ کا بہت چرچا ہے اس کے لیے کوششیں بھی ہورہی ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں میں یہ خوف بھی موجود ہے کہ معاشرے کی موجودہ حالت میں یہ نظام مؤثر ثابت ہوگا یا نہیں۔ ہمارے نزدیک ضروری ہے کہ نظام کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔ نظام ہمیشہ قوانین سے تعلق رکھتا ہے اور خارج سے عائد کیا جاتا ہے، اس لیے اسلامی نظام کے معنی صرف یہ ہیں کہ قوانین کو اسلام کے تابع کر دیا جائے‘ لیکن قانون کا دائرۂ اثر ہمیشہ محدود ہوتا ہے وہ کبھی پوری زندگی کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ مثال کے طور پر یہ قانون تو بنایا جاسکتا ہے کہ رشوت نہ لی جائے یا سودی کاروبار نہ کیا جائے، لیکن یہ قانون نہیں بنایا جا سکتا کہ ہر شخص اپنے پڑوسی سے محبت کرے اور اس کے حقوق ادا کرے۔ اسلام کی بنیاد ایمان‘ تقویٰ اور اللہ کے خوف اور محبت پر ہے اور یہ داخلی متعلقات ہیں جو افراد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اجتماعی قوانین کے تحت نہیں لایا جاسکتا‘ اس لیے اسلامی نظام کے تصور میں وہی خرابی موجود ہے جو اشتراکیت پر مبنی نظام میںتھی۔ نظام ہمارے ماحول کو بدل سکتا ہے مگر خود ہمیں اندر سے نہیں بدل سکتا، اس لیے ہمیں ماننا چاہتے کہ ہمارے نظام میںکوئی بھی تبدیلی صرف اس وقت کارگر ثابت ہوگی جب ہم خود بھی اندر سے تبدیل ہوں۔ رشوت لینے کا قانون صرف اس وقت مؤثر ہوگا جب ہمارے ماحول سے رشوت کے محرکات ختم کر دیے جائیں اور ساتھ ہی ہم باطنی طور پر اخلاقی معنوں میں رشوت کو برا سمجھنے لگیں۔
اس مختصر سی بحث کے بعد ہم اپنے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ اصلاحِ معاشرہ کس طرح ممکن ہے؟ معاشی تجزیے کی مدد سے ہم دیکھ چکے ہیں معاشرے میں معاشی ناہمواری موجود ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو معاش کے تمام وسائل پر قابض ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس خالی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں طبقات میں تضاد اور کشمکش پیدا ہوئی ہے اور ساتھ ہی افراد میں معاشی مسابقت کی دوڑ شروع ہو ئی ہے جو مذہب اور اخلاق سب کو روندتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے۔
ہمارے یہاں سرمایہ دارانہ نظام کی آمد سےپہلے جو معاشرہ قائم تھا اس میں حیاتِ اخروی کو حیاتِ دینوی پر ترجیح حاصل تھی۔ آخرت کے مذہبی عقیدے سے جو اخلاقیات پیدا ہوئی تھی اس میں اکلِ حلال‘ قناعت اور توکل‘ حرص و ہوس سے اجتناب بنیادی قدریں تھیں۔ اس کے علاوہ معاشرے میں عزت و ذلت کے پیمانے بھی مختلف تھے۔ شرافت، دیانت، علم، حسنِ اخلاق اور مروت کو اہمیت دی جاتی تھی اور دنیا پرستی کو رذائلِ اخلاق میں شمار کیا جاتا تھا۔ ان سب چیزوں سے مل کر لوگوں کا ایک طرزِ عمل بنتا تھا جو معاشرے میں زرپرستی کے رجحان کی روک تھام کرتا تھا۔ لوگوں کے پیشے موروثی ہوتے تھے اور ان کے پیچھے صدیوں کی روایات قائم تھیں کہ کس پیش کے آدمی کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ عوام کی اکثریت چھوٹی چھوٹی دیہی آبادیوں میں رہتی تھی جہاں لوگوں کا ایک دوسرے سے تعلق قریبی اور شخصی ہوتا تھا۔ یہ تعلق ہر فرد کے رویے اور طرزِ عمل پر کچھ ایسی پابندیاں عائد کرتا تھا جن کو توڑنا کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اب تک جو بحث کی ہے اس کا ہماری پوری بات سے یہ تعلق ہے کہ اسلامی نظام اور اسلامی اخلاقیات کو جو چیلنج درپیش ہے اس کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف تو ہمیں ایسے قوانین مطلوب ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے افراد کی ہوس زر اندوزی کو خارجی طور پر روک سکیں دوسری طرف ہمیں ایسی اخلاقی اقدار کی تبلیغ و اشاعت کرنی ہے جو اس کی مجموعی ذہنیت کو اندر سے بدل سکے۔
قوانین خارجی پابندیاں عائد کریں گے‘ اخلاقیات داخلی تنظیم کرے گی لیکن یہ عمل ایک خطرے سے خالی نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وضاحت کے ساتھ اس کی نشاندہی کروں، ہمارے پرانے معاشرے میں بڑی خوبیاں تھیں، لیکن اس میں ایک بہت بڑی خامی بھی تھی۔ اس کی قوتِ عمل مسلسل ضائع ہو رہی تھی اور اس کا نتیجہ اس مسلسل انحطاط کی شکل میں ظاہر ہو رہا تھا جو عہد جدید کے آغاز سے پہلے ہمارے معاشرے کو موت کی طرف لے جارہا تھا۔ بادشاہت اور جاگیرداری کا فرسودہ نظام اپنی افادیت کھو چکا تھا اور اس کے سیاسی‘ معاشی‘ تہذیبی اور تعلیمی اداروں میں اتنی جان باقی نہیں رہی تھی کہ وہ ایک صحت مند اور توانا زندگی کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس میں کچھ دخل اس دنیاوی احساس کا بھی تھا جو زوال پذیر اخلاقی اقدار میں پناہ لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اقبال نے بجا طور پر تقدیر پرستی‘ توکل اور قناعت اور عزلت گزینی اور خانقاہ نشینی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو رویے ان اقدار میں ظاہر ہو رہے تھے وہ انحطاط کے پیدا کردہ تھے جب کہ ایک بہتر زمانے میں یہی قدریں قوتِ حیات سے معمور تھیں۔ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کہیں اسلامی نظام اور اسلامی اخلاقیات کی آڑ میں ایسے رویے فروغ نہ پا جائیں جن میں زندگی کے چیلنج کا سامنا کرنے کی سکت نہ ہو۔ ہمیں ایک مذہبی مگر فعال اور توانا دنیاوی احساس کی ضرورت ہے۔ اقبال نے انحطاط کی بہت کچھ ذمہ داری تصوف پرڈالی ہے‘ مگر یہ صوفی بزرگ ہی تھے جو زوالِ بغداد کی خاکستر سے ایک جہانِ تازہ پیدا کرنے کی دُھن میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ کے ان نیک بندوںنے دور افتادہ علاقوں میں پھیل کر اپنی قوت اور توانائی سے اسلام کی نئی شمعیں روشن کیں۔ اخلاقی اقدار زندگی کے توانا ہاتھوں میں قوت کا اظہار بن جاتی ہیں، لیکن زوال اور انحطاط کی حالت میں ان کی ظاہری اور باطنی معنویت کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ ہمیں ایک ایسی اخلاقیات کی ضرورت ہے جو شرافت، دیانت، استغنا‘ خود آگاہی اور خود گزراں کی قدروں سے مالا مال ہو، مگر قوم کی قوتِ عمل کو گھٹانے کے بجائے ترقی دے، صرف اسی صورت میں ہم زندگی کے نئے چیلنج کا مقابلہ کرسکیں گے۔ ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ہوسِ زر انسان کو باطنی طور پر کمزور کرتی ہے اور حرص و آز کی قوتیں انسانوں کو مضبوط بنانے کے بجائے اندر سے توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اس لیے اسلامی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ زندگی کی قوت کو مضمحل کیے بغیر انسان ان کمزوریوں پر قابو پائے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو موجودہ فساد سے نکالنے کے لیے دو سطح پر جہاد کرنا پڑے گا۔ ایک داخلی جہاد جو اس کمزوری کے خلاف ہوگا جو حرص و ہوس کی شکل میں ہمیں اندر سے توڑ رہی ہے اور ایک خارجی جہاد جو ان قوتوں کے خلاف ہوگا جو ہمارے معاشرے میں اسلام کی روح سے براہِ راست متصادم ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہیں۔ ہمیں معاشرے میں انسانی رشتوں کو اُن کی صحیح شکل میں بحال کرنا ہوگا، عزت اور ذلت کے لیے معیار مقرر کرنے ہوں گے،سماجی امتیاز اور معاشرتی افتخار کے لیے پیمانے تخلیق کرنے ہوں گے اور سب سے زیادہ ایسے ادارے پیدا کرنے ہوں گے جن میں قوم کی تخلیقی روح بے ساختگی اور توانائی سے اپنا مثبت اظہار کرسکے۔ اشتراکیت نے سرمایہ داروں کے خلاف جو بغاوت کی وہ اس وجہ سے ناکام رہی کہ اس کے پیچھے انسانوں کی داخلی زندگی کو منظم اور مرتب کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں تھا‘ اس نے خارجی حالات کو درست کرنے کے بعد یہ توقع قائم کی کہ انسان خود بہ خود اندر سے بدل جائے گا، لیکن یہ توقع صرف اس وجہ سے پوری نہ ہوسکی کہ انسان اندر سے بدلے بغیر صرف خارجی تبدیلی سے درست نہیں ہوسکتا ہے۔ اشتراکیت چاہتی تو مذاہب کی تاریخ سے یہ سب سیکھ سکتی تھی، مگر اس کی مذہب دشمنی نے اسے اس سے محروم رکھا۔ اب ہمیں سرمایہ داروں کے خارجی نظام کو اسلامی قوانین کے ذریعے شکست دینی ہے اور اس کی حریصانہ ذہنیت کو اسلامی اخلاقیات کے ذریعے تبدیل کرنا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اصلاحِ معاشرہ کا کام ہمیں دو سطحوں پر کرنا ہوگا۔ ایک کی ذمہ داری حکومت، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر قانونی ایجنسیوں پر ہوگی اور دوسرے کی ذمہ داری علما، صوفیا، اربابِ علم و ادب اور دانشوروں پر ہوگی، اوّل الذکر قوتیں اسلامی نظام کا جسم تیار کریں گی جب کہ موخر الذکر قوتیں اس کی روح کو قائم اور برقرار رکھیں گی۔(’جسارت‘ سے ماخوذ)
ویڈیو:خواتین کی دعوتی ذمہ داریاں۔ محمد رضی الاسلام ندوی
یہ بھی پڑھیں!
https://hijabislami.in/5929/