اصلاح معاشرہ اور خواتین

نسیبہ سبحانی فلاحی

معاشرہ کی اصلاح میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی برابر کی شریک ہیں۔ یہ خیال سراسر غلط ہے کہ معاشرہ صرف مردوں کے گرد گھومتا ہے اور عورتیں اس سے آزاد ہیں۔

معاشرہ کے بناؤ بگاڑ کا تعلق جہاں مردوں سے ہے، وہیں عورتوں سے بھی ہے۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین نے بھی دعوتِ دین اور اسلام کی اشاعت میں سخت جدوجہد کی۔ دین کی راہ میں انھوں نے اپنے قریب ترین تعلقات پر چھری رکھ دی، مصبیتیں جھیلیں اور گھر بار تک چھوڑ دیے۔

دعوتِ دین کی راہ میں خواتین نے جو خدمات انجام دیں اگر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ایک طرف تو خواتین کو عزم و حوصلہ ملے گا دوسری طرف وہ اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دعوتِ دین کی جدوجہد کے لیے خود کو تیار کرسکیں گی۔

ہم جانتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف ایک عورت حضرت خدیجہؓ کو ہی نصیب ہوا۔ اور پھر انھوں نے اپنی تمام صلاحیتیں اور مال و اسباب اس راہ میں لگادیے۔ مکہ کے ابتدائی دور میں جو آزمائشوں اور مصائب سے بھرا تھا، جن باہمت نفوس نے اسلام قبول کیا، ان میں ایک خاتون حضرت سمیہؓ بھی تھیں۔ جو ابوحذیفہ بن مغیرہ کی باندی تھیں، انھیں اسلام قبول کرنے کے جرم میں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں، لیکن وہ ثابت قدم رہیںاور بالآخر ابوجہل نے انھیں جرمِ حق پرستی کی پاداش میں نیزہ مار کر شہید کردیا۔

یہ پہلی شہادت تھی جو نبی کریمﷺ کی دعوت پر لیبک کہنے کے نتیجے میں کسی خاتون کو نصیب ہوئی۔

رقیقہ بنت ابی صفی نے بھی مکہ کے نازک ترین دور میں دعوتِ حق پر لبیک کہا تھا۔ قریش نے رسول ﷺ کے قتل کا منصوبہ بنایا تو انہی نے آکر رسولؐ کو اس کی اطلاع دی تھی۔

ثابت قدمی اور استقلال کے میدان میں حضرت خنساءؓ بھی پیش پیش رہیں۔ یہ اس دور کی ایک زبردست شاعرہ تھیں۔ اور انہیں ’’ارثی العرب‘‘ (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو) کہا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت میں ان کے دو بھائی مارے گئے، جس پر انھوں نے بڑے دردناک مرثیے کہے تھے۔

لیکن یہی خاتون جب ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئیں تو انھوں نے اپنے چار بیٹوں کو ایک ساتھ جنگ قادسیہ میں بھیج دیا اور جب اس مجاہد خاتون نے اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو رونے پیٹنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز ہوگئیں اور ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا: ’’شکر ہے اللہ کاجس نے مجھے اپنے فرزندوں کی شہادت سے مشرف کیا۔‘‘

یہ ایک واقعہ ہے کہ جو مثالی مسلم معاشرہ اللہ کے رسول ﷺ نے قائم کیا تھا۔ اس میں مسلم مردوں کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین کا بھی کلیدی رول تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کا ذریعہ ان کی بہن فاطمہ بنت خطاب اور ان کی ثابت قدمی ہی تھی۔ امِ سلیم نے ابوطلحہ سے اسی شرط پر شادی کی تھی کہ وہ اسلام قبول کریں گے۔ حضرت عکرمہ بن ابوجہل اپنی بیوی امِ حکیم کے سمجھانے پر ہی مسلمان ہوئے تھے۔ قریش کی عورتوں کو اسلام کی دعوت امِ شریک نے دی تھی، اور وہ معروف داعی خاتون تھیں جنھوں نے قریش کے گھروں میں انقلاب برپا کردیا۔ حضرت عائشہ ؓ کا شمار ان رایوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نبی کریم ﷺ سے سیکڑوں احادیث روایت کی ہیں۔ آپؓ سے عورتوں کے علاوہ مرد بھی علم حاصل کرتے تھے۔ آپ کی روایت کردہ احادیث دو ہزار سے زائد ہیں۔

اگر آج بھی ہماری خواتین کے اندر وہی احساسِ ذمہ داری پیدا ہوجائے اور وہ اپنے فریضہ منصبی کو ادا کرنے لگ جائیں تو اس دور میں بھی وہ گھروں میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں اور ہم تصور کرسکتے ہیں کہ یہ انقلاب کتنا زبردست اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔

لیکن اس کے لیے سب سے پہلے خواتین کو خود دین کا علم حاصل کرنا ہوگا، اپنے اندر دین کا صحیح فہم پیدا کرنا ہوگا، اور دین پر ثابت قدم رہنا ہوگا۔ دعوت کا آغاز ہمیں اپنے گھر سے کرنا ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔‘‘

تو سب سے پہلے ہم کو اپنے شوہروں اور بچوں پر توجہ دینی ہوگی۔ شوہر اگر اصلاح و تبلیغ میں سرگرم ہے تو عورت کا فرض ہے کہ اس کے کاموں میں ہر ممکن تعاون کرے اور اگر شوہر دین اور اپنی دینی ذمہ داریوں سے غافل ہو تو صبر و ضبط اور حکمت سے اسے سدھارنے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے۔

اسی طرح ایک ماں کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ بچوں میں اسلام کی محبت پیدا کرے۔ ان کی اچھی تربیت کرے، ان کے اندر کفروشرک اور بدعات و خرافات سے نفرت پیدا کرے۔ انھیں اسلامی اخلاق کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے۔ انہیں نماز کا پابند، روزے کا خوگر اور اسلامی اصولوں کا عادی بنائے۔

آج ہر طرف بے دینی اور بے کرداری کا ماحول ہے، سدھار سے زیادہ بگاڑ کے مواقع اور ذرائع موجود ہیں۔ غیر اسلامی افکار کی یلغار ذہنوں میں ہلچل مچائے ہوئے ہے۔ اوراخلاق و کردار کو چنوتی دے رہی ہے۔

ایسے میں اگر ہماری مائیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور انہیں ادا کرنے کی فکر کریں تو ہمارے گھر دینی تعلیم کا مرکز بن سکتے ہیں اور ہماری نسلیں فساد اور بگاڑ سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔

شوہر اور بچوں کے علاوہ بھائی بہن اور خاندان کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کے درمیان بھی ہم کو دعوت و تبلیغ اور اصلاح و تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ اس لیے کہ وہ قربت کی وجہ سے اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ پہلے انہیں دین کی روشنی پہنچائی جائے۔ رسول کی سنت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146