اے جہاں آرا! دلھن کب آئے گی؟‘‘ مہر جہاں نے فکرمند ہو کر بہن سے پوچھا۔ ’’مہمان آچکے، بارات آئے ہوئے بھی آدھا گھنٹہ ہوچکا۔ آخر کون سی تیاری کروا رہے ہیں بیوٹی پارلر والے جو مکمل ہو کر نہیں دیتی؟‘‘
’’مہرآپا! میں خود پریشان ہوں۔ لوگوں کے جوابات، سوالات ہی ختم نہیں ہو رہے۔ ختم بھی کیسے ہوں، دلھن آئے تو بات بنے… سلامت اور جاوید دونوں سے پوچھ چکی، کہتے ہیں منیر میاں کو بھیجا ہے، شاید ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ دلھن آگئی، دلھن آگئی…
اچانک شور اٹھا۔ جہاں آرا اور مہر جہاں دونوں نے مسکرا کر سکھ کا سانس لیا۔ لمبا سا گھونگھٹ ڈالے دلھن سرخ قالین سے گزرتی اسٹیج تک پہنچی۔ سہیلیاں اور بہنیں گھیرے ہوئے تھیں۔ بھابھیوں نے سنبھال کر سیڑھی کے 3 زینے طے کرائے اور صوفے پر بیٹھا دیا۔ سرخ لباس اور اس پر خوبصورت کام کی چمک اور خوبصورتی دور سے نظر آ رہی تھی۔ چھوٹی بھابھی نے گھونگھٹ ہلکا سا ہٹا کر چہرہ اوپر اٹھایا۔ بڑی بھابھی نے اسٹیج سے اتر کر دادی اور ساس کو ڈھونڈنے کے لیے ہال کے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اسٹیج کے بائیں طرف بیٹھی دادی اور اْن کی بہن آہستہ آہستہ اٹھنے اور دلھن کے پاس آنے کے لیے پر تول ہی رہی تھیں۔ بڑھاپا آتے ہی جسمانی اعضا حرکت میں آنے کے لیے خاصا وقت لینے لگتے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر سہارا بھی درکار ہوتا ہے۔ اسٹیج پرجانے کے لیے راستے میں کتنے ہی اونچ نیچ آتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ گر کر ہاتھ پائوں تڑوا بیٹھیں۔
لیکن اٹھنے سے پہلے ہی بڑی بھابھی اْن کے پاس پہنچ گئیں۔ ’’دادی جی! بڑا غضب ہوگیا۔‘‘ انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا’’کیا ہوا بیٹا؟ ’’اماں جان کہاں ہیں؟؟ انھیں معلوم ہوگا تو سارا غصہ مجھ پر ہی اتاریں گی۔‘‘
’’کیا ہوا بیٹا؟ کچھ پتا تو چلے؟‘‘
بھابھی کے دھیمے لہجے کے باوجود اردگرد میزوں پر بیٹھی خواتین کے کان کھڑے ہوگئے۔’’دادی جی! بیوٹی پارلر میں ہم لوگ زیور لے کر گئے تھے۔ میں نے تھیلا چادر کے نیچے رکھا لیکن میک اپ کے بعد جب زیور پہنانے کے لیے چادر اٹھائی تو وہ غائب تھا۔‘‘دادی جی منہ کھولے بہو کو دیکھ رہی تھیں، بات ابھی تک ان کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ لیکن اردگرد بیٹھی عورتوں کی سمجھ میں آ گئی۔ کچھ کی نظریں دلھن کی طرف اٹھیں، کچھ دلھن کی ساس کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ کچھ جلد باز خبر کا سرا تھام کر لوگوں کو تھمانے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
اے بہو! کیا بک رہی ہو، دلھن تو آ چکی۔
دادی کا خیال تھا کہ جب دلھن آ چکی ہے توزیور تو لازماً اس نے پہنے ہی ہوں گے۔ یہ بہو پتا نہیں کیا دیوانگی میں بک رہی ہے۔
’’دادی! بینا کو ہم نے بیوٹی پارلر والوں سے نقلی زیور لے کر پہنائے ہیں۔
کیا ؟؟؟ کیا کہہ رہی ہو ؟؟
ہاں دادی، کیا کرتے؟ دلھن کو لے کر تو آنا تھا نا!
’’تو لاکھوں کے زیور، وہ چوڑیاں، وہ نورتن کا سیٹ۔‘‘ دادی تو جیسے بے ہوشی میں بول رہی تھی۔ ’’ہائے اکبر نے کتنے جتن کرکے زیور کا پیسا پیسا اکٹھا کیا تھا۔‘‘ ان کا بس نہیں چل رہاتھا کہ وہیں بین ڈال دیتیں۔
دادی! اب یہ سوچیے کہ امی جان کو یہ کیسے بتایا جائے۔ پھر بینا کی ساس؟…
دادی کو افسوس کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی شروع ہوگئی۔ اب معاملہ بڑا نازک آن پڑا تھا۔ زیور تو گئے سو گئے، نیا رشتہ کمزور نہ پڑے۔ ’’ہائے بہو تو نے دھیان کیوں نہ دیا؟ ضرور خود بھی لیپا پوتی کرانے بیٹھ گئی ہو گی۔‘‘ دادی نے بہو کو گھور کر کہا۔ ’’قصور تیرا ہے۔ زیور اپنے پاس، قبضے میں رکھنے تھے یا چادر کے نیچے ڈال کر اطمینان سے بیٹھ جانا تھا جیسے لاکر میں رکھ دیے۔‘‘
’’اماں!اب کیا کروں، جو ہونا تھا سو ہو گیا،ابھی تو معاملے کو سنبھالیں۔ بعد میں شاکر سے کہہ کر بینا کو اور زیور بنا دوں گی۔‘‘
’’ہونہہ… اور بنوادوں گی۔‘‘ دادی نے بہو کا ہاتھ غصے سے جھٹکا اور اٹھنے کی کو شش کرنے لگیں۔
’’چلیے میں آپ کو لے جاتی ہوں امی جان کے پاس۔‘‘ بہو نے دوبارہ دادی کا ہاتھ تھاما۔ اب کے دادی نے پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ اسٹیج کی طرف چل دیں۔ خبررساں خواتین پہلے ہی بینا کی ساس تک یہ خبر پہنچا چکی تھیں۔ وہ اسٹیج پر بینا کے برابر بیٹھی اس کے زیورات غور سے دیکھ رہی تھیں۔
بینا کا حال سب سے خراب تھا۔ میک اپ کے باوجود چہرہ سفید تھا۔ کاٹو تو لہو نہیں۔اسٹیج سے نیچے کھڑی تمام خواتین کی نظریں بینا کی ساس پر تھیں… ساس کو بغیر زیور سونے کے بہو قبول ہے یا… ’’بہن! بری کا زیور بڑا بھاری تھا۔ 6 چوڑیاں، پھر چھپکے اور گلے کا ہار بہت وزنی تھا۔ 3 لاکھ کا تو ہوگا۔ پھر منگنی کی انگوٹھی اور ٹیکا… لڑکے والوں کا دیا زیور ہی 4 لاکھ روپے سے کم نہ ہوگا۔‘‘ چھوٹی بھابھی کی چچی نے اپنی بھابھی کے کان میں کھسر پھسر کی۔
ارے بری ہی نہیں میکے کا زیور بھی بڑا بھاری تھا۔ ان کی چھوٹی بہو کے میاں سلیم نے بہن کو پورا 4 تولے کا سیٹ دیا تھا… ہائے ہائے یہ کیا ہوگیا۔
رفتہ رفتہ کھسر پھسر بڑھ کر اچھے خاصے واویلے میں تبدیل ہو گئی۔ دادی اسٹیج پر ساس کے برابر بیٹھ گئیں اور بولیں ’’بہن! اگر آپ کو معلوم ہو ہی گیا ہے تو اس حادثے کے بعد ہم آپ سے بڑے شرمندہ ہیں۔ آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جتنے وزن کے زیور تھے، ہم بعد میں بنوا کر اسے چڑھائیں گے۔
بینا کی ساس جو ابھی تک بینا کو انتہائی غور سے دیکھ رہی تھیں، دادی کی بات پر چونک سی گئیں۔
اسی وقت اسٹیج کے بائیں جانب باتیں کرنے والی دو خواتین کی آوازیں آئیں جو سناٹے میں ہر ایک کو سنائی دیں۔ وہ کہہ رہی تھیں ’’بنو! معاملہ سادہ نہیں، ہمیں تو کوئی چکر لگتا ہے…پارلر والے اگر ایسی حرکت کرنے لگیں توکون ان کے ہاں جائے گا۔
ارے نہیں خالہ بی، دھوکے بازی کرنے والے تو فوراً وہ جگہ اور علاقہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کہیں اور اپنا پارلر کھول کر شروع ہو جائیں گے۔
’’بی بنو! پارلر کے شوق نے ہی سارا ستیا ناس مارا ہے۔ نہ معلوم کیوں لوگوں کو کھال کھینچوااور بال نیچوا کر ہنس بننے کا شوق ہوگیا۔ دیکھو تو دلھن کا میک اپ ہزاروں روپے میں کیا گیا ہے۔ لیکن بینا سادگی میں کیسی پیاری لگتی تھی، اب بھلا لگ رہا ہے کہ یہ وہی بچی ہے۔‘‘
خالہ بی! آپ تو بس… اب لوگوں کی لاپروائی کا الزام بھی پارلر کے سر کردیں۔
یہ الزام نہیں حقیقت ہے۔ کیا پیسا پانی میں پھینکنا ضروری ہے؟ عقل مند ہو تو اس واقعہ سے عبرت پکڑو… اگلے ماہ فروا کی شادی ہے۔
اسٹیج پر بیٹھی خواتین اور نیچے کھڑی ہوئی سب معاملے کی نزاکت اور لوگوں کے تبصروں سے گھبرائی ہوئی تھیںلیکن کان اور آنکھیں دونوں ہی بینا کی ساس کی طرف متوجہ تھے۔ وہ بینا کی دادی کا ہاتھ تھام کر کہہ رہی تھیں:
خالہ جان، جو حادثہ ہوا، اب ہوگیا، لکیر پیٹنے سے اپنی ہی لاٹھی ٹوٹنے کا خدشہ ہے۔ اللہ کا شکر مالک نے عزت اور جان محفوظ رکھی۔ زیور اور سونا سب میرے بیٹے اور بہو پر صدقہ گیا۔ اللہ اور دے گا۔ آپ فکر نہ کریں، مجھے تو اپنی بہو کے لیے حسنِ سیرت اور حیا کے تحفے ہی کافی ہیں۔
یہ سن کر تمام فکرمند خواتین نے سکھ کا سانس لیا۔ شادی کا پنڈال جسے سانپ سونگھ گیا تھا، دوبارہ خواتین کی باتوں، ہنسی کی کَل کَل اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے گونجنے لگے۔
——