اصیل مرغ

محمود عالم

مرزا بفاتی اور شیخ گھسیٹا شہر کے بڑے رئیسوں میں سے تھے۔ خاندانی دولت اور ریاست ہرجائی محبوبہ کی طرح کب کی داغِ مفارقت دے گئی تھی، لیکن دونوں کی وضع داری اور نوابی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ طوائف کے مجرے سے لے کر شطرنج کی بساط تک ہر میدان میں دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے تھے۔ رہائش میں نفاست اور چال ڈھال میں نوابی نزاکت ورثے میں ملی تھی۔ دنیا ایٹمی دور سے اب خلائی دور میں داخل ہورہی تھی لیکن یہ دونوں ابھی تک انیسویں صدی کے واجد علی شاہی عہد میں سانس لے رہے تھے۔ انہیں اپنا ماضی بے حد عزیز تھا اور حال کی چکا چوند کردینے والی تہذیب سے آنکھیں چار کرنے کے لیے سیاہ رنگ والی عینک کی ضرورت تھی۔
مرز ا بفاتی اور شیخ گھسیٹا دونوں قریب قریب مجرد تھے۔ بیگمات تو دونوں کے پاس تھیں لیکن وہ اولاد سے محروم تھیں۔ دونوں کو گھر کی مرغی دال برابرلگتی تھی۔ اور باہر حلوائی کی دوکان پر سجی گرما گرم جلیبیاں انہیں بے حد پسند تھیں۔ شور ہنگامے اور لڑائی جھگڑے سے انہیں کوفت ہوتی تھی۔ آبا و اجداد میں سے کسی نے غلطی سے تلوار خرید لی تھی جو پشت در پشت سے وراثت میں منتقل ہوتی چلی آرہی تھی ورنہ دونوں مرنجا مرنج اور صلحِ کل تھے۔ دنیا کی رزم گاہ میں زور آزمائی کرنا اپنی خاندانی شرافت اور نجابت کے خلاف سمجھتے تھے اور آباو اجداد کی معرکہ آرائی کے قصے کی یاد تازہ کرنے کے لیے دونوں بٹیر بازی اور مرغ بازی کی پالیاں سجاتے تھے۔
اصیل مرغوں کی ایک فوج تھی جسے مرزا بفاتی نے اپنے مرغ خانے میں جمع کررکھا تھا۔ شیخ گھسیٹا بھی کسی سے کم نہ تھے، پورے شہر میں مرغ بازی میں ان کا شہرہ تھا۔ انہیں مرغ بازی میں اس قدر مہارت تھی کہ مرغ کی آواز سن کر بتادیتے تھے کہ یہ بازی جیتے گا یا ہار جائے گا۔ مرزا بفاتی کے پاس دو ڈھائی سو مرغ تھے جن کی دیکھ بھال اور ناز برداری پر دس بارہ نوکر مامور تھے۔
شیخ گھسیٹا کے پاس سب اصیل مرغ تھے۔ اصیل مرغوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ لڑتے لڑتے مرجاتے ہیں لیکن لڑائی سے منہ نہیں موڑتے۔
شیخ گھسیٹا کا دعویٰ تھا کہ یہ سارے مرغ خالص عربی النسل ہیں جو بہادری میں شیر سے بڑھ کر ہیں۔ مرزا بفاتی کے مرغوں کی نسلیں اگرچہ عربی تھیں لیکن یہ ایران ہوتے ہوئے آئی تھیں۔ ایران کی آب و ہوا نے ان پر خاص اثر ڈالا تھا۔ پالی میں حریف پر جھپٹ جھپٹ کر حملہ کرنے کا ایک خاص انداز تھا۔ ’’یا حسین!‘‘ کا نعرہ لگا کر جب وہ اپنا مرغ پالی میں چھوڑتے تو وہ اپنے حریف پر زبردست چوٹ کرتا، چونچ اور پنجوں سے ایسے حملہ کرتا کہ جیسے حریف کو مار ہی ڈالے گا۔
شیخ گھسیٹا کو اپنے مرغ پر بڑا ناز تھا۔ اکثر وہ ایک خاندانی روایت سنایا کرتے تھے کہ ’ان کے پردادا کا مرغ اتفاق سے اپنے حریف سے ہار گیا۔ وہ دل شکستہ ہوکر عراق چلے گئے۔ نجف اشرف میں مہینوں عبادت و ریاضت میں مصروف رہے اور دن رات صرف یہی دعا کرتے رہے کہ الٰہی اپنے ائمہ معصومین کا صدقہ مجھے ایسا مرغ دلوائیے کہ جو لڑائی میں کبھی نہ ہارے۔ آخر ایک رات خواب میں بشارت ہوئی ’صحرا میں جاؤ‘ صبح نیند سے بیدار ہوتے ہی انھوں نے اپنے ساتھ ایک مرغی لی اور بیابان کی طرف گئے۔ اچانک ایک پہاڑی کی طرف سے ککڑوں کوں کی خوش الحانی سنائی دی۔ انھوں نے اپنی مرغی چھوڑ دی جس کی آواز سن کر مرغ نکل کر سامنے آیا۔ وہ اسے کسی تدبیر سے اپنے ساتھ لے آئے۔ اس کی نسل ایسی تھی کہ پھر کبھی انہیں شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی۔ پردادا کے زمانے کے اس مرغ کی شادی اگرچہ اینگلو انڈین مرغیوں سے ہوئی تھی لیکن باپ دادا کا اثر بہت کچھ باقی تھا۔
صبح سے دونوں اپنے مرغ کو تیار کرنے میں مشغول تھے۔ نوکروں نے نیم گرم پانی میں تولیہ بھگو کر مرغ کی چونچ اور پاؤں کو اچھی طرح صاف کردیا تھا۔ اب مرزا بفاتی خود اپنے ہاتھ میں کشمش اور بادام کے دانے لیے مرغ کو ناشتہ کرا رہے تھے۔ ہاتھ میں رکھ کر کھلانے کی وجہ یہ تھی کہ پلیٹ میں کھانے سے مرغ کی چونچ گھس سکتی تھی اور اس کی دھار اور نوکیلے پن کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ مرزا کشمش اور بادام کے دانے کھلاتے جاتے اور کلغی اور پروں پر دست شفقت پھیرتے جاتے۔
ادھر شیخ گھسیٹا بھی اپنے مرغ کے لاڈ پیار میں مشغول تھے۔ انھوں نے کشمش اور بادام میں دوچار سلاجیت کے دانے بھی ملا دیے تھے جو انھوں نے سمرقند و بخارا سے منگائے تھے جو سوویت یونین کا ایک حصہ بن گئے تھے۔
تماشائیوں کی ایک بھیڑ جمع ہوگئی تھی جس میں دونوں گھروں کے نوکر چاکر اور چند خوشامدی بھانڈ اور شاعر قسم کے لوگ زیادہ تھے۔ مرغوں کی لڑائی کا تماشہ دیکھنے والوں کی بھیڑ اور زیادہ ہوتی اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے ٹسٹ میچ کا تماشا ٹیلی ویژن پر نہ دکھایا جاتا۔ نئی نسل کو اب اس پرانے ذوق سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی اور یہی وجہ تھی کہ مرزا بفاتی اور شیخ گھسیٹا نئی نسل کے لوگوں سے سخت نالاں تھے۔
بھلا یہ بھی کوئی کھیل ہوا گیند کو لکڑی سے اچھال دیا۔ اگر خدانخواستہ گیند بلے سے ٹکرانے کی بجائے ناک کان سے ٹکرا جائے تو؟؟ دونوں کو اس کھیل سے بڑی وحشت ہوتی تھی۔ پاس پڑوس میں ٹیلی ویژن پر نوکر چاکر تماشا دیکھ لیتے لیکن یہ شرفاء اسے دیکھنا گناہ سمجھتے تھے۔
جب بھیڑاکٹھی ہوگئی تو دونوں آمنے سامنے آگئے اور اپنے اپنے مرغ کو ایک بار گلے سے لگایا۔ چونچ اور پنجوں کو چوما اور پیار کیا۔ پھر ’یا علی‘ کا نعرہ بلند کرکے پالی میں چھوڑ دیا۔
’’ہاں بیٹا! شاباش، کاٹ زور سے۔‘‘
دونوں اپنے اپنے مرغ کو للکارنے لگے۔
’’ہاں بیٹا! شاباش، اور زور سے کاٹ، پھر وہیں پر۔‘‘
’’ایک بار اور شاباش۔‘‘
مرغوں کی چونچیں چاقو سے چھیل کر تیز اور نوکیلی بنادی گئی تھیں۔ ان کے پاؤں میں کانٹے باندھ دیے گئے تھے۔
دونوں اپنے مالکوں کی للکار پر بڑھ چڑھ کر حملہ کرتے اور حریف کو مار گرانے کی کوشش کرتے۔ پالی میں ایک دوسرے پر جھپٹنے اور لڑنے کا یہ منظر اس قدر دل کش اور اشتعال انگیز تھا کہ تماشا دیکھنے والے جوش میں آجاتے۔ شرطیں اور بازیاں لگاتے۔
پندرہ منٹ تک دونوں ایک دوسرے پر جھپٹتے رہے ۔ لڑتے لڑتے دونوں نڈھال ہوگئے۔ کئی جگہ سے ان کے پر اجڑ گئے تھے اور خراشیں بھی آگئی تھیں لیکن دونوں اصیل تھے۔ اصیل مرغ جو لڑتے لڑتے مرجاتے ہیں۔ لیکن میدان چھوڑ کر نہیں بھاگتے، نہ صلح کرتے ہیں اور نہ لڑنے سے باز آتے ہیں۔ اپنے مالک کے اشتعال دلانے پر ایسی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے ان کی اس فتح پر امن عالم کا انحصار ہو۔ مرزا بفاتی اور شیخ گھسیٹا خود تھک چکے تھے۔ مرغ کو جوش دلانے کے لیے انہیں بھی چلانا پڑتا تھا۔
ادھر مسلسل لڑنے کی وجہ سے دونوں مرغ تھک کر نڈھال ہوچکے تھے۔ جنگ فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوچکی تھی۔ قریب تھا کہ دونوں میں سے ایک ’’جامِ شہادت‘‘ نوش کرلے اور جنگ کا خاتمہ ہوجائے۔ لڑائی کو طول دینے کے لیے ضروری تھا کہ کچھ دیر کے لیے جنگ روک دی جائے۔ شیخ گھسیٹا نے مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’پانی‘‘
’’ہاں پانی‘‘
مرزا بفاتی بھی سمجھوتے پر آمادہ ہوگئے اور دونوں نے اپنے اپنے مرغ پالی سے اٹھالیے۔
مرغ کی لڑائی کا مزہ تو اس میں ہے کہ وہ کئی کئی دن تک چلے اور اسے جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جنگ روک دی جائے۔
دونوں نے اپنے اپنے مرغ کے زخموں سروں پر پانی کی پھواریں دیں۔ زخموں کو صاف کیا۔ انہیں منہ سے چوما اور اس طرح پیار کیا کہ مرغ پھر تازہ دم دکھائی دینے لگے۔ اپنی سرخ کلغیوں کو پھلا کر ککڑوں کوں کی خوش الحانی کے ساتھ ایک ٹانگ پر کھڑے ہوگئے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم لڑتے رہیں گے۔ ہم اصیل ہیں، ہم نجف اشرف کے ہیں، ہم عربی النسل ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں