راشدہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ شادی کو تین سال کا عرصہ ہوگیا تھا اور وہ دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ لیکن بیٹے کی آرزو نے گھر کا سکون تباہ کررکھا تھا۔ اختر کو بیٹے کی خواہش تھی، لیکن وہ اس خواہش میں دو بیٹیوں کا باپ بن چکا تھا۔ اور بیٹا نہ ہونے کا ذمہ دار راشدہ کو ٹھہراتا تھا اور اسی وجہ سے گھر میں ناچاقی پیدا ہوچکی تھی۔
’’میں کل شام کو دیر سے آؤں گا، میرے کو لیگ کے گھر بیٹا ہوا ہے اور وہ آفس میں چھوٹی سی پارٹی دے رہا ہے۔‘‘ اختر نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ راشدہ نے میز پر برتن اٹھاتے ہوئے کہا: ’’ایک میں بدنصیب ہوں کہ جو بیٹے کی خواہش میں تڑپ رہا ہوں لیکن…‘‘ اختر کچھ کہتے کہتے خاموش ہوگیا۔
گھر میں اکثر اس موضوع پر بات ہوتی تھی۔ اختر کا اپنی بیٹیوں کی طرف کوئی خاص رجحان نہ تھا۔ کیونکہ وہ انہیں محض بوجھ تصور کرتا تھا۔ اسے اپنی جائیداد اور نسل کی بقاء کے لیے وارث چاہیے تھا اور وہ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہ تھا کہ یہ تو سب اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔ راشدہ باورچی خانے کے کاموں میں مصروف تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
’’ارے خالہ تم… اندر آؤ… کہاں تھیں اتنے دن…؟‘‘ راشدہ نے ایک سانس میں اتنے سوال کردئیے۔
’’ارے بیٹا میں تیرے سب سے بڑے مسئلہ کا حل لے کر آئی ہوں۔‘‘ خالہ زبیدہ نے راشدہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھرتے ہوئے کہا۔
’’اب تیرے گھر ایک نہیں سات بیٹے ہوں گے۔ بس تو چادر لے اور میرے ساتھ ’’باباجی کے پاس چل۔ ‘‘ خالہ زبیدہ بڑے یقین کے ساتھ بولی۔
’’خالہ میں چلی جاؤں گی بابا جی کے پاس۔۔۔ لیکن اختر سے اجازت لے کر۔۔۔‘‘ راشدہ نے کہا۔
’’نہیں…نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں، تم اپنے خاوند کو تب ہی بتاناجب اللہ تم کو خوشی دکھادے۔ اچھا چل اب جلدی کر۔‘‘ خالہ نے پھر کہا۔
راشدہ نے صبح صبح ہی اختر کی کڑوی باتیں سنی تھیں سو بغیر سوچے سمجھے تیار ہوگئی۔
خالہ زبیدہ محلے کی ایک عورت تھی جو بیک وقت بہت سے کام کرتی تھی۔ نہ صرف وہ رشتے کرواتی بلکہ تعویذ بھی کرواتی اور ایسے کئی دیگر کاموں میں مصروف عمل تھی۔ راشدہ خالہ کے ساتھ ’’باباجی‘‘ کی رہائش گاہ پر گئی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی سماعت سے یہ آواز ٹکرائی:
’’ہاں میں جانتا ہوں… تجھے وارث چاہیے… ملے گا یہاں سب کچھ ملے گا… اللہ تیری گود ہری کرے گا۔‘‘ یہ بابا جی بول رہے تھے۔
راشدہ بابا کی باتیں سن کر حیران ہوگئی کہ بن کہے بابا جی کو میرے سارے حالات سے واقفیت ہے؟
’’باباجی مجھے اس کے لیے کیا کرنا ہوگا؟‘‘ راشدہ نے پوچھا
’’بیٹا تیری خواہش بڑی ہے اس لیے تجھے قیمت بھی بڑی دینی پڑے گی۔‘‘ بابا نے کہا۔
’’میں ہر طرح کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ راشدہ بغیر سوچے سمجھے بولی۔
’’ہاں بابا جی آپ جو کہیں گے یہ بیٹی وہ کرے گی۔‘‘ خالہ نے راشدہ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’تو سن مجھے تیس ہزار روپئے اور سات تولہ سونا چاہیے، جو کہ میرے پاس تیری امانت ہوگا۔ جب میرا چلہ پورا ہوجائے گا اور تو امید سے ہوجائے گی تو میں تیری امانت واپس کردوں گا۔ اور میں تمہیں تعویذ بھی دوں گا جو تجھے اپنے خاوند کو پلانے ہیں‘‘ بابا نے بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
راشدہ تمام رات اسی پریشانی میں رہی کہ اسے یہ باتیں اپنے خاوند کو بتا دینی چاہئیں یا نہیں؟ لیکن آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اختر کونہیں بتانا چاہیے۔ اگلے روز تیس ہزار نقد اور پانچ تولے سونا اپنی شادی کے زیور سے لے کر بابا جی کے پاس پہنچ گئی۔ بابا جی نے زیور اور نقد رقم رکھ کر راشدہ کو تعویذ دیے اور کہا کہ تم اپنے خاوند کو ڈیڑھ ماہ پلاتی رہو۔ اور ڈیڑھ ماہ بعد میرے پاس آنا۔ انشاء اللہ، اللہ تمہاری مراد پوری کردے گا اور اپنا زیور اور نقد رقم لے جانا۔ راشدہ نے اختر کو تعویذ پلانا شروع کردیے۔ اختر تمام واقعہ سے ناواقف تھا۔ کچھ عرصہ بعد راشدہ کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے۔ اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ دوبارہ باباجی کے پاس اپنا زیور اور رقم لینے گئی۔ بابا جی نے جب یہ سنا تو کہا:
’’بیٹا! میں تیرا زیور اور رقم تجھے ابھی واپس نہیں کرسکتا۔بلکہ مجھے اب اور رقم کی ضرورت ہے تاکہ میں تجھے اور تعویذ دوں جن کا استعمال تو خود کرنا اور ان تعویذوں کو خود پینا۔ اس سے یقینی بیٹا پیدا ہوگا۔‘‘
بابا جی نے دوبار دس دس ہزار کا مطالبہ کیا اور راشدہ نے اختر کی جمع پونجی اٹھا کر باباجی کے حوالے کردی۔ کچھ عرصے بعد جب اختر کو رقم کی ضرورت پڑی تو گھر میں طوفان برپا ہوگیا۔ لڑائی جھگڑے تک نوبت پہنچی تو راشدہ کو بتانا پڑا کہ اس نے شادی کا سارا زیور اور رقم بابا جی کو دی ہے جس کے بدلے اس نے اسے تعویذ دیے ہیں اور اب اسے امید ہے کہ اس کے گھر بیٹا ہی ہوگا۔ یہ سن کر اختر کا پارا چڑھ گیا۔ اس بار راشدہ بھی اپنی بات پر ڈٹ گئی۔ جھگڑا اس قدر بڑھا کہ اختر نے راشدہ کو گھر سے نکال دیا۔ اختر کو ویسے بھی بیٹیوں کا وجود کھلتا تھا سو راشدہ کو بیٹیوں سمیت اپنے میکے جانا پڑا۔
راشدہ کو پختہ یقین تھا کہ اس کے ہاں بیٹا ہی ہوگا اور بیٹے کی پیدائش پر اختر اسے واپس لے جائے گا اور پھر کچھ ہی دن میں اسے باباجی سے زیور اور رقم بھی تو واپس ملنے والی ہے۔ اس لیے ناراضگی رفع ہوجائے گی۔ چنانچہ جب بابا جی سے رقم اور زیور واپس لینے کے لیے راشدہ اس جگہ پہنچی تو پتہ چلا کہ باباجی اور بھی بہت سی سادہ لوح عورتوں سے زیور او رپیسہ لے کر فرار ہوچکا ہے اور خالہ کا بھی کچھ پتہ نہیں۔
اختر نے ساری صورتحال کے پیش نظر راشدہ کو طلاق دے دی اور دونوں بیٹیوں سمیت اسے گھر سے نکال دیا۔ نو ماہ بعد راشدہ کے ہاں پھر بیٹی کا ہی جنم ہوا۔ آج راشدہ تینوں بیٹیوں اور اپنا پیٹ پالنے کے لیے ایک فیکٹری میں ملازمت کرتی ہے اور اپنا ہنستا بستا گھر اجاڑچکی ہے۔
آخر میں،میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ میاں بیوی کے درمیان اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے جس کی دونوں فریقوں کو پاسداری کرنی چاہیے اور اس بات پر بھی کامل یقین رکھنا چاہیے کہ جو کچھ ہمیں اللہ کے در سے نہیں مل سکتا، کوئی انسان ہمیں کچھ نہیں دے سکتا۔ لہٰذا خود کو ایسے چارہ گر سے بچائیں جو آپ کو ذلت و رسوائی دے اوراپنا یقین کامل اللہ کی ذات پر رکھیں۔