اعتماد جسے ہم بھروسہ بھی کہتے ہیں، زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ہمارے پاس یہ نہ ہوتو زندگی قدم قدم پر ڈگمگانے لگتی ہے۔ اس کی تین سمتیں ہیں جو زندگی کو بنیاد اور مضبوطی فراہم کرتی ہیں۔ ایک کا تعلق عقیدے سے ہے، دوسرے کا تعلق اپنی ذات سے ہے اور تیسرے کا تعلق سماج یا معاشرے سے ہے۔ اسلام کی دعوت پیش کرنے والے فراد کے لیے یہ تینوں ہی جہات غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔
(1) اللہ پر اعتماد
اللہ پر اعتماد کو ‘ توکل کہا جاتا ہے اور عقیدئہ توحید کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔قران مجید میں فرمایا گیا ہے:
’’اللہ کے سوا کوئی بندگی کے قابل نہیں تو آپ اسی کو اپنا وکیل بنا لیجئے۔‘‘ ( المزمل :9)
’’جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لئے اللہ کافی ہے ۔‘‘(الطلاق: 3)
’’اہل ایمان کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔‘‘
( آل عمران: 160)
’’تم اللہ پر بھروسہ کرو، جو زندہ جاوید اور فنا نا آشنا ہے۔‘‘ ( الفرقان: 58)
اللہ تعالیٰ پر یہ اعتماد جسے قرآن ’توکل‘ کہتا ہے، اہلِ ایمان کی بنیادی صفت ہے جو انہیں ہر حال میں فعال اور ہر صورت میں پُرامید رکھتی ہے۔ اس خوبی کے ذریعے اہلِ ایمان رات کے اندھیرے میں صبحِ نور کو دیکھ پاتے ہیں اور کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتے۔ اپنی جدوجہد کو اللہ کی طاقت اور اس پر بھروسے کی بنیاد پرجاری رکھتے ہیں اور اسی سے کامیابی کی امید رکھتے اور اسی سے دعا مانگتے ہیں۔
یہاں اس بات کو ملحوظ رکھا جائے کہ توکل کا مطلب ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا اور اختیاری اسباب و وسائل کو استعمال میں نہ لانا نہیں ہے، بلکہ تمام ممکنہ ظاہری اسباب و تدابیر کو اختیار کرکے نتائج اللہ کے سپرد کرنا اور بے فکر ہوجانا توکل ہے۔ دل کا اعتماد اللہ کی ذات پرہو اور یہ یقین ہو کہ قدرت خداوندی ان اسباب کی پابند نہیں ہے۔ اللہ چاہے تو ان اسباب کے بغیر بھی سب کچھ کرسکتا ہے اور ظاہری اسباب کی حیثیت بس صرف اتنی ہی ہے کہ وہ اللہ کے مقرر کردہ ذرائع اور راستے میں جن سے ہم تک اشیاہ کی رسائی ہوتی ہے-
اس کائنات میں کارفرمائی اسباب و وسائل کی نہیں بلکہ صرف ذات خداوندی اور حکم ربانی کی ہے۔ یہی توکل کی حقیقت ہے۔
درحقیقت اللہ کی ذات و صفات پر کامل ایمان قدرت کے مکافات عمل کے منصفانہ قانون پر یقین اور رجائیت پسندی اور نا امیدی سے دوری توکل کے اہم عناصر ہیں۔
(2)اپنی ذات پر اعتماد
اس کی دوسری جہت اپنی ذات پر اعتماد ہے اور یہ خود اعتمادی کامیابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کو ان تمام خوبیوں اور وسائل سے آراستہ کرنا جو کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ اس میں اپنا شخصی ارتقاء بھی ہے اور میسر وسائل اور ذرائع کا بہترین استعمال بھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 23 سال کی چھوٹی سی مدت میں جزیرۃ العرب میں جو عملی و فکری اور اصلاحی انقلاب برپا فرمایا اس کی کامیابی میں خود اعتمادی کا بے پناہ دخل تھا۔آپؐ نے ایک مرتبہ اپنے چچا ابوطالب سے صاف کہہ دیا تھا کہ ’’اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی لاکر رکھ دیں تو میں اس دعوت سے باز نہیں آنے والا۔‘‘ اس خود اعتمادی نے آپؐ کو وقت اور حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت دی۔
باد مخالف، ‘ طوفان مصائب، حوادث زمانہ، مشکلات و خطرات سےمقابلہ اور قربانیاں پیش کرنے کا حوصلہ خود اعتمادی کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔ ہر دور میں اہل ایمان کی کامیابیوں اور بلندیوں و عظمتوں میں توکل اور خود اعتمادی کا اہم رول رہا ہے۔
(3)اپنے رفقا پر اعتماد
جب ہم دعوت و تحریک کا مشن لے کر چلتے ہیں تو ساتھ آنے والے لوگوں کی ایک جماعت بنتی ہے۔ اس جماعت کے افراد کے اندر تو عمل اور خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ باہم دگر اعتماد کی فضا پیدا کرنا اور اعتماد کا پایا جانا نہایت ضروری ہے۔ اگر جماعت کے افراد آپس میں اعتماد کی قوت سے محروم ہیں تو اجتماعی جدوجہد آگے نہیں بڑھ سکتی۔
آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ؐکے معتمد تھے۔ ‘ ان کے دلوں میں رسول اللہﷺ پر مکمل اعتماد و اعتقاد تھا اور وہ ایک دوسرے پر بھی مکمل اعتماد اور بھروسہ رکھتے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان میں خود اعتمادی کا جوہر پیدا فرمایا تھا اور پھر ان کے والہانہ انداز اور سرفروشانہ جذبوں نے آپ صلی اللہ وسلم کی نگاہ میں ان کو بے حد قابل اعتماد بنا دیا تھا اور ان ہی کے ذریعے آپؐ نے پورے جزیرۃ العرب کی کایا پلٹ دی تھی۔
توکل، خود اعتمادی اور رفقاء کا آپس میں پورا بھروسہ یعنی کامل اعتماد رسول اللہ ﷺکی زبان میں ان کا خزانہ تھا، یہی خزانہ ہر مومن کے پاس ہونا چاہیے۔