۱۹۰۶ء میں برطانوی ماہرِ حیاتیات ایف جی ہاپکنز کی تحقیق کی روشنی میں غذائیات کی سائنس بالکل ہی تبدیل ہوکر رہ گئی۔ اپنی چھ سالہ گہری تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ نامیاتی اور غیر نامیاتی غذائی اجزاء کے علاوہ کچھ ایسے کیمیائی مادے بھی قدرتی غذاؤں میں موجود ہوتے ہیں جو انسانوں اور حیوانوں میں معمول کے کیمیائی و حیاتیاتی افعال کے لیے ضروری ہیں اور وہ جسم کی تعمیر کرنے والے خلیوں کی تشکیل اور نشوو نما کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک میگنیشیم ہے جس کی مقدار گو انسانی جسم میں زیادہ نہیں ہوتی مگر یہ ایسا قدرتی تحفہ ہے جو اچھی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ بلحاظ عمر اور جنس انسانی جسم میں میگنیشیم کی روزانہ ضرورت نیچے دیے گئے خاکے سے معلوم کی جاسکتی ہے۔
جنس مقدار
مرد ۵۰۰ ملی گرام
عورت ۵۰۰ ملی گرام
بچے ۲۰۰ ملی گرام
شیر خوار بچے ۱۵۰ ملی گرام
یہ مقدار کم و بیش ہر فرد اپنی روز مرہ کی خوراک سے حاصل کرتا ہے۔
ایک بالغ مرد میں اس معدن کی مقدار چھ سو ملی گرام تک ہوسکتی ہے جو زیادہ تر ہڈیوں میں تیزابی نمک اور کاربن نمک کے امتزاج میں پائی جاتی ہے۔ ہڈیوں کی راکھ میں ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں پائے جانے والے مجموعی میگنیشیم کا پانچواں حصہ نرم بافتوں کے خلیوں کے اندر ہوتا ہے جہاں یہ پروٹین تک محدود رہتا ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں اس معدن کی کمی ہوجائے توہڈیوں میں موجود ذخیرے سے معدن وہاں منتقل ہوجاتا ہے۔
میگنیشیم ایک ہلکا، نقرئی رنگ کا اثر پذیر، لچکدار معدنی عنصر ہے۔ یہ جلنے پر تیز شعلہ اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ اسے ہلکے وزن والے بھرت بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حیاتیاتی کیمیا دان اسے ٹھنڈا، کھاری، مفرح اور خواب آور معدن کہتے ہیں۔ موسم گرما میں اس کا استعمال مزاج کو پرسکون رکھتا ہے۔ پیشاب آور ادویات اور الکحل کا استعمال اسے غیر مؤثر بناتا ہے۔
اس معدنی جزو کا بھر پور انجذاب چھوٹی آنت کے آخری حصہ میں ہوتا ہے لیکن اگر میگنیشیم اور کیلشیم باہم مل جائیں تو اس کے جذب ہونے کا عمل سست پڑسکتا ہے۔ نزد ورقی غدہ (پیراتھائی رائیڈ) سے خارج ہونے والا ایک ہارمون، پیراتھارمون خون کے سیال میں کیلشیم کی سطح مناسب رکھتا ہے مگر وہ میگنیشیم پر منفی اثر کرتا ہے۔ نرم بافتوں کے برعکس ہڈیوں میں اس معدن کی مقدار دوگنا ہوتی ہے۔ لیکن وہ نرم بافتوں کی میگنیشیم میں براہِ راست تبدیل نہیں ہوسکتی۔ چونکہ غذاؤں سے حاصل ہونے والی میگنیشیم کا زیادہ تر حصہ جذب نہیں ہوتا، اس لیے فاضل مقدار خارج ہوجاتی ہے۔ اگر جسم میں معدن کی مقدار اس کی اصولی مقدار سے کم ہو تو اس کے اخراج میں بھی کمی ہوجاتی ہے۔ خون میں میگنیشیم کا جز ہر ایک سو ملی لیٹر میں تقریباً دو سے تین ملی گرام ہوتا ہے۔
معدن کے فوائد
میگنیشیم کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ اعصاب کو پرسکون رکھنے میں مدد دیتا ہے اور پٹھوں کی تمام سرگرمیوں کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ درست انداز میں اپنا کام کریں۔ چکنائی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کو جزوبدن بنانے والے خامروں (انزائم) کے تمام نظام اس کی موجودگی سے متحرک ہوتے ہیں۔ یہ القلی تیزابی نمک (الکلائن فاسفیٹ) کو فعال بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ خامرہ جسم انسانی میں کیلشیم اور فاسفورس کے ذریعے کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ اس معدن کے ذریعے حیاتین بی اور سی بھی اپنا کام بخوبی کرتے ہیں۔ یہ کیلشیم، سوڈیم اور پوٹاشیم جیسے معدنی اجزاء کے ساتھ مل کر جسمانی رطوبتوں اور ان کے عمل تحلیل کے توازن برقرار رکھتا ہے۔ یہ لیسی تھین مادے کی پیداوار میں بھی حصہ لیتا ہے جو کولسٹرول کی زیادتی اور اس کے نتیجے میں شریانوں کے سکڑجانے کے عمل کو روکتا ہے۔
میگنیشیم دل کی شریانوں کے نظام کو صحت مند بناتا ہے چنانچہ دل کے دورے سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ انسان میں پژمردگی (ڈپریشن) سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتا ہے۔ اس کی موجودگی گردوں اور پتے میں کیلشیم کے غیر ضروری اور مضر اجتماع کو روکتی اور انسانی معدے کو بدہضمی سے بچاتی ہے۔
یہ کہاں ملتا ہے؟
پودے زمین میں ملنے والے معدنی اجزا جذب کرلیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پھل، سبزیاں، اناج، پھلیاں، مغز اور بیج معدنی اجزاء اور حیاتین کے حصول میں انتہائی اعلیٰ ذرائع ہیں۔ زمین کے معدنی اجزاء غیر نامیاتی یا بے جان ہوتے ہیں، تاہم پودوں میں بہت سے معدن نامیاتی سالمے رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی بدن میں معدنی اجزاء کا انجذاب بہتر انداز میں ہوتا ہے۔ سبز پتوں والی ترکاریاں میگنیشیم سمیت بہت سے معدنی اجزاء کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس معدن کے دیگر مفید ذرائع میں مغز، سویابین، الفالفا، سیب، انجیر، لیموں، آڑو، بادام، سالم اناج سمیت چاول، سورج مکھی کے بیج اور تل شامل ہیں۔ اناج اور سبزیوں میں پائے جانے والی میگنیشیم کی مقدار روزانہ انسانی ضرورت سے وہ تہائی زیادہ ہوتی ہے۔
میگنیشم کے ذرائع (فی سو گرام)
(۱) اناج: جوار: ۱۷۱ گرام، چاول: (ابلے ہوئے) ۱۴۷ گرام، خشک مکئی :۱۳۹ ملی گرام، باجرہ: ۱۳۷ ملی گرام، آٹا : ۱۳۲ ملی گرام۔
(۲) دالیں اور پھلیاں: سویابین (سیاہ): ۲۳۸ ملی گرام، گوار: ۲۲۵ ملی گرام، لوبیا: ۱۸۴ ملی گرام۔ سویابین (سفید): ۱۷۵ ملی گرام، سفید چنے: (۱۶۹ ملی گرام۔ کالے چنے: ۱۵۴ ملی گرام۔ بھنے ہوئے مٹر: ۱۲۲ ملی گرام، سرخ لوبیا: ۹۰ ملی گرام، مسور: ۷۴ ملی گرام۔
(۳) سبزیاں: پان: ۴۴۷ ملی گرام، مولی: ۱۹۶ ملی گرام، کنول کے ڈنٹھل: ۱۶۸ ملی گرام، چولائی کا ساگ: ۱۲۲ ملی گرام، پیاز کے ڈنٹھل :۱۰۴ ملی گرام، پالک: ۶۴ ملی گرام، اجمود کے پتے: ۵۲ ملی گرام، سبز پھلیاں: ۴۷ ملی گرام، سہانجنا کے پتے: ۴۲ ملی گرام، کریلے: ۳۶ ملی گرام، اروی کے پتے: ۳۲ ملی گرام، کنول : ۳۰ ملی گرام، آلو: ۲۰ ملی گرام۔
(۴) مغز: بادام: ۳۷۳ ملی گرام، کاجو: ۳۴۹ ملی گرام، اخروٹ : ۳۲ ملی گرام۔
(۵) پھل : آم پکے ہوئے: ۲۷۰ ملی گرام، آلو بخارا: ۱۴۷ ملی گرام، شریفہ: ۸۴ ملی گرام، انگور: ۸۲ ملی گرام، انار :۴۴ ملی گرام، کیلا پکا ہوا: ۴۱ ملی گرام، جامن: ۳۹ ملی گرام، انناس : ۳۲ ملی گرام، خربوزہ: ۳۱ ملی گرام۔ چیری سرخ: ۲۷ ملی گرام، امرود: ۲۴ ملی گرام، آڑو: ۲۱ ملی گرام۔
کمی کی علامات
میگنیشیم کی کمی انسانی جسم میں عموماً غذاؤں کے سبب پیدا نہیں ہوتی، غذائی کمی صرف ان مریضوں میں پیدا ہوتی ہے جو بیماری کے سبب غذا سے میگنیشیم جذب نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی ان کے جسموں میں موجود یہ معدن زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگتا ہے۔ درج ذیل وہ بیماریاں ہیں، جن سے میگنیشیم کی کمی آتی ہے:
طویل عرصے تک شراب نوشی، ذیابیطس، گردے کے امراض، نزد ورقی غدود کی کارکردگی میں خلل اور ڈپریشن کے بعد پیدا ہونے والا دباؤ۔ زیادہ عرصہ تک میگنیشیم کی کمی برقرار رہے تو جسم میں کیلشیم اور پوٹاشیم کی کمی ہوجاتی ہے اور پھر ان معدنی اجزاء کی کمی سے پیدا ہونے والے امراض بھی مریض کو آدبوچتے ہیں۔ ان میں یہ نمایاں ہیں: گردوں کا ناکارہ ہونا یا پتھری پیدا ہونا، پٹھوں کی اینٹھن، شریانوں کا سخت ہوجانا، دل کے دورے، مرگی کے دورے، اعصابی خلل، شدید افسردگی اور خلجان پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ پروٹین کو جزو بدن بنانے والے عمل میں بے قاعدگی، قبل از وقت جھائیاں اوربلند فشار خون۔
شراب نوشی کے عادی افراد کے خوناب (Plasama) میں میگنیشیم کی کم مقدار سے پیشاب کی مقدار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایسے افراد کو اضافی مقدار میں اس معدن کی ضرورت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ہذیان کے دوروں میں بھی اضافی خوراک ناگزیر ہوجاتی ہے۔
گردے کی پتھری
میگنیشیم کا باقاعدہ استعمال گردے کی پتھریوں کو تحلیل کرکے پیشاب میں کیلشیم کا اخراج بڑھاتا اور اس کے دوبارہ اجتماع کو روکتا ہے۔
یہ معدن حیاتین بی کے ساتھ لیا جائے تو گردے کی پتھریوں کا مؤثر علاج ہے مگر ضروری ہے کہ علاج کسی ماہر ڈاکٹر کی نگرانی میں کروایا جائے۔ ضرورت پڑنے پر میگنیشیم کو دوا کے طور پر روزانہ ۷۰۰ ملی گرام تک لیا جاسکتا ہے۔ اضافی خوراک کے لیے میگنیشیم کلورائڈ بہترین شکل ہے تاہم اسے دیگر اقسام میں بھی لیا جاسکتا ہے۔ میگنیشیم نمک کا استعمال پیشاب آور بھی ہے اور مسہل بھی۔ پتلے پاخانے آنے کا مطلب ہے کہ چھوٹی آنت میں اس معدن کے جذب ہونے کا عمل سست پڑچکا ہے اور انتڑیوں میں پانی اترآیا ہے۔
دل کے امراض
دل کے دورے سے انتقال کرجانے والے افراد میں یہ معدن کم پایا گیا ہے۔ اس کی کمی دل کی شریانوں میں تشنج پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں دل کو خون اور آکسیجن کی رسد رک جاتی ہے۔ میگنیشیم کے ذریعے دل کے امراض کے خلاف کسی حد تک مزاحمت مہیا ہوتی ہے۔
احتیاط کیجیے
یہ یاد رکھئے کہ لمبے عرصے تک میگنیشیم کی زیادہ مقدار لینے کے دوران اگر کیلشیم اور فاسفورس کی خوراک بھی زیادہ لی جائے تو جسم میں زہریلے اثرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس کی اضافی خوراک کھانوں کے بعد بھی نہیں لینی چاہیے کیونکہ یہ معدن معدے کی تیزابیت ختم کردیتا ہے، جس کے ذریعے غذا کو ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔