اس کی آوازاجمل کے کانوں میں جرسِ کارواں کی طرح گونجنے لگی۔
بیگم :اجی ۔۔اُ ٹھیے کب تک سوتے رہیں گے! اب تو آنکھیں کھولیے سورج ،آنکھ دکھانے لگا ہے۔اُٹھیے ۔۔ جلدی اُٹھیے، نہا دھوکر جلدی سے تیا ر ہوجائیے۔
اجمل :(اپنے چہرے پر سوالیہ نشان بناتے ہوئے) جلدی اُٹھو ! اس کا کیا مطلب ہے۔آج اتوار کا دن ہے، آج کے دن تو ملک الموت بھی آرام فرماتے ہیںاور تم کہہ رہی ہو ،جلدی اُٹھو ! ابھی تو صرف نو بجے ہیں۔ایک گھنٹہ تو اور سولینے دو…
بیگم : بے شک آج اتوار کا دن ہے لیکن آج ایک خوشی کی بات بھی ہے۔
اجمل : (حیرت سے) خوشی کی بات ! کون سی خوشی کی بات؟آج اتوار کا دن ہے، آفس کی چھٹّی ہے،اس سے بڑھ کر بھی کوئی خوشی کی بات ہو سکتی ہے!
بیگم : جی ہاں !زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ آج آپ کی لاڈلی بہن کو لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں۔میں نے انھیں گیارہ بجے تک آنے کو کہا ہے۔
اجمل : (چونک کر بستر سے اُٹھ جاتا ہے) یہ کیا کہہ رہی ہو! سمرن کو لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں! یہ کب ہوا …؟ کیسے ہوا…؟ کس طرح ہوا…؟ سمرن آخر اس رشتے کے لیے مان کیسے گئی !کیا لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے؟کیا دیکھنے میں شاہ رخ یا سلمان جیسا لگتا ہے یا پھراس کی تنحواہ سمرن کی تنخواہ سے زیادہ ہے؟
بیگم : (مسکراتے ہوئے)نہ تو لڑکا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے ،نہ تو وہ شاہ رخ یا سلمان جیسا ہے اور نہ ہی اس کی تنخواہ سمرن کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔
اجمل : (منہ بنا تے ہوئے)بیگم پھر تو تم مجھے سو لینے دو !کیوں اپنا اور بیچارے لڑکے والوں کا وقت ضائع کرنے پر تُلی ہوئی ہو۔تم جانتی ہو کہ شادی کے لیے سمرن کی کیا شرائط ہیں۔پہلی بات وہ نہیں چاہتی کہ شادی کے بعد اس کی آزادی ختم ہوجائے،دوسری اس کی تنخواہ میں کوئی حصہ دار بنے،تیسری شادی کے بعد بھی ملازمت کی آزادی ہو اور اگر یہ تینوں باتیں نہ ہوں تو کم از کم لڑکا اچھی صورت، اچھی تعلیم یا اچھی تنخواہ کامالک توہو۔
بیگم : (غصّے سے )میں یہ نہیں جانتی کہ سمرن کی کیا شرطیں ہیں اور آپ کی کیا مرضی ہے۔میں صرف یہ جانتی ہوں کہ سمرن کی عمر ڈھلتی جارہی ہے۔اورآپ نے جو باتیں لڑکے کے متعلق کی ہیں وہ ان میں سے کسی بات پر بھی پورا نہیں اترتالیکن یہ بات ضرور ہے کہ لڑکا اعلیٰ خاندان کا شریف اور نیک ہے ،صر ف ذرا سی عمر زیادہ ہے۔
اجمل : (ماتھے پر بل لاتے ہوئے ،سخت لہجے میں)عمر زیادہ ہے !کیامطلب !کیا لڑکا بوڑھا ہے؟یہ شادی کھبی نہیں ہو سکتی سمرن میری اکلوتی اور سگی بہن ہے۔کسی عمر دراز شخص سے میں اُس کی شادی نہیں کرسکتا۔
بیگم : (اجمل کو سمجھاتے ہوئے)دیکھیے لڑکاکوئی عمر دراز نہیں ہے ، سمرن سے صرف چار سال بڑا ہے اور آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ سمرن میری بھی بہن ہے ،بھلا میں اس کا برا کیوں چاہنے لگی ؟کیا آپ بھول گئے ،جب سمرن نے اپنی تعلیم مکمل کی تھی تو ایک اچھا رشتہ آیا تھا۔لڑکا خوبصورت اور اچھی تنخواہ پانے والا تھا لیکن آپ نے اُس وقت مجھ سے جھگڑا کیا تھا اور کہا تھاکہ میری بہن کی ابھی عمر ہی کیا ہے بس بیس سال!میں اتنی جلدی اس کی شادی نہیں کرائوں گاوہ مزید آگے پڑھے گی، اُس کی خواہش کے مطابق M.B.B.S کرے گی اور بھائی کی اسی ضد اور پیا ر نے آج یہ دن دکھا ئے ہیں۔
اجمل:(سخت لہجے میں)تو کیا اپنی چھوٹی اور لاڈلی بہن کی خواہش پوری کرنا کوئی جرم ہے ،برائی ہے؟
بیگم:(دھیمے لہجے میں )میں نے کب کہا کہ آپ نے کوئی جرم یا برائی کی ہے۔میں صرف یہی چاہتی تھی کہ صحیح وقت اور صحیح عمرمیں وہ اپنی سسرال پہنچ جائے۔ رہی خواہش پوری کرنے والی بات تووہ اپنے شوہر کے گھر پر بھی اُن کی اجازت سے اپنی خواہش پوری کرسکتی تھی لیکن افسوس بھائی کے پیار اور لاڈ کا یہ نتیجہ ہو ا کہ سمرن کی عمر ہاتھ سے نکل گئی!
اجمل :(جھلاتے ہوئے)عمر ہاتھ سے نکل گئی کا کیا مطلب؟تم کہنا چاہتی ہو کہ میری بہن بوڑھی ہو چکی ہے!۳۶ سال میں بھی کوئی بو ڑھا ہوتا ہے بھلا!
بیگم :نہیں بالکل نہیں ۳۶ سال میں مرد بوڑھا نہیں ہوتا لیکن عورت بوڑھی ہوجاتی ہے۔اگر آپ عورت ہوتے تو ان باتوںکوسمجھ سکتے۔ آج کا زمانہ تو سائنس کا زمانہ ہے اور سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ لڑکی کی شادی دیر سے ہونے پر کئی پیچیدہ مسائل اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیںجو صحت پر مضر اثرات ڈالتی ہیں۔ہم تو مسلمان ہیں اور شادی کے متعلق ہماریاسلامی تعلیمات بھی یہی کہتی ہیں کہ جیسے ہی لڑکی سنِ بلوغت کو پہنچ جائے اور اچھا رشتہ مل جائے تو اُس کی شادی کردینی چاہئے۔اگر آپ نہیںچاہتے ہو تو میں لڑکی والوں کو منع کر دیتی ہوں۔
اجمل:(کچھ لمحہ سوچنے کو بعد)بیگم تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔اکثر والدین یا سرپرست لاڈ پیار کی وجہ سے بچوں کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔میں نے ہمیشہ سمرن کی خوشی چاہی لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کرتا گیاکہ اس کی عمر ڈھلتی جارہی ہے۔خیر دیر آید درست آید۔کیا سمرن اس رشتے کے لیے راضی ہے؟
بیگم :(خوش ہوکر)سمرن ہی کہ کہنے پر میں نے لڑکے والوں کو بلایا ہے ۔آپ کو نہیں معلوم کہ وہ پچھلے کئی مہینوں سے اپنی ذات سے متعلق ہونے والے سوالوں سے بہت پریشان ہے،کہتی ہے کہ جب بھی وہ لوگوں کے در میان ہوتی ہے، اکثر لوگ اس سے شادی اور بچوںکے متعلق سوال کرتے ہیں اور اُس کے غیر شادی شدہ کہنے پر اُس کی عمر تک پوچھنے لگتے ہیں۔ اس طرح کے سوالوں کے جواب دیتے دیتے وہ تھک چکی ہے اور احساسِکمتری کا شکار ہوگئی ہے۔اسی کے اصرار پر میں نے لڑکے والوں کو بلایا ہے۔
اجمل: (مسرت کے ساتھ) بیگم مجھے تم پر ناز ہے کہ تم نے کیا خوب اپنے بڑی بھابی ہونے کے رشتے کو نبھایاہے ، تم اس کی ماں کی جگہ ہو،اورواقعی تم نے یہ حق ادا کردیا ہے۔ایک میں ہوں جو اپنی پیاری بہن کے پیاردلار میں اُس کی ضرورت کو بھی نہ سمجھ سکا۔(یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں بھر آتی ہیں اور وہ اپنے آنسو ئوں کو پوچھتے ہوئے مسرت کے ساتھ غسل خانیکی طرف بڑھتا ہے اور بیگم صاحبہ مہمانوں کی ضیافت کی تیاری کے لیے باورچی خا نے کی طرف بڑھ جاتی ہیں۔)lll