آج کی رات فلیٹ کا پھاٹک کھلا رہ گیا، چوکیدار نے اپنی جسمانی تھکان دور کرنے کے لیے بستر پر کمر ٹکائی اور گہری نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ نہ معلوم کس وقت اس کی آنکھ کھلی تو فلیٹ کے اندرونی حصہ میں کئی آوارہ گایوں نے قبضہ جمالیا تھا۔ رات میں بادل کی گرج، چمک اور تیز بارش سے پناہ لینے کی خاطرگایوں نے فلیٹ کے اس حصہ کا انتخاب کیا تھا۔ آفات و مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنا بلاشبہ انسانوں کی طرح جانوروں کا بھی بنیادی حق ہے۔ چوکیدار نے ان گایوں کو فلیٹ سے بھگانے کی بڑی کوشش کی ، ہر قسم کا حربہ استعمال کیا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان مویشیوں نے یہاں سے نہ جانے کا پختہ ارادہ کررکھا تھا کہ اگر انھوں نے فلیٹ کا قبضہ چھوڑدیا تو پھر ان کو جائے قرار کہیں نہ ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ فلیٹ ہی میں رات گزارنے کے ارادے پر باقی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فلیٹ کا صاف ستھرا پارکنگ اور عام راستہ بول و براز سے بھر گیا۔ یہ کوئی تعجب انگیز اور نئی بات نہیں۔ یہ مویشی جہاں رات گزارتے ہیں وہیں اپنی ضروریات سے بھی فارغ ہوجاتے ہیں، اس کام میں ان کو نہ تو کوئی عار ہوتا ہے اور نہ شرم۔
صبح سویرے جب پھاٹک سے لوگ گزرنے لگے تو بول و براز کا یہ منظر قابل دید تھا۔ کوئی چوکیدار کو لعن طعن کرتا اور اسی کو قصور وار قرار دیتا۔ اسی طرح کوئی ان گایوں کو برا بھلا کہتا، ہر ایک آدمی دو چار باتیں کہہ کر آگے بڑھ جاتا لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ حلال خور کی جیب میں چند سکے ڈال دے تاکہ فلیٹ کے اس حصہ کی صفائی ہوسکے۔ لیکن آج معلوم ہوتا ہے کہ حلال خور نے فلیٹ میں آکر صفائی نہ کرنے کی قسم کھائی ہے کہ اگر اس نے یہ نیک کام کرلیا تو اس کی قسم کا کفارہ کون دے گا۔ غریب بڑی مشکل سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ صبح سے شام تک کام میں لگا رہتا ہے تب کہیں جاکر روکھی سوکھی روٹی نصیب ہوتی ہے۔ اوپر کی آمدنی صفر کے برابر ہے۔ ایک روز کسی فلیٹ کے مالک نے اسے از راہ ہمدردی اخبارات کا کافی وزنی ایک پلندہ دے دیا۔ بے چارہ خوش خوش پھاٹک کے باہر میری دوکان کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’بابوجی آج اخبار کی ردّی بیچ کر بچوں کے لیے کیلے لے جاؤں گا۔‘‘وہ زبانی اپنی مسکینی ظاہر کررہا تھا اور میں اندر ہی اندر اس کی جیب کی موٹائی پر غور کررہا تھا۔ اس کے طرز گفتگو سے میں اس پر ترس کھانے کے بجائے غصہ سے آگ بگولہ ہورہا تھا لیکن اس کی ایک ادا ایسی تھی جو دل کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی کہ وہ اپنی ضروریات زندگی کی بہتر تکمیل کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا رہا تھا۔ شاید گداگری کا پیشہ اپنانے کے لیے اس کا بیدار ضمیر آمادہ نہیں تھا، اس ذلت آمیز کام کے لیے اس کی غیرت آمادہ نہ تھی۔ اسے اپنے ہاتھ کی کمائی میں عزت اور سکون محسوس ہوتا تھا۔ طبقات کے لحاظ سے کاموں کی تقسیم انسانوں کی ہے ورنہ جس گندے کام کو حلال خور اپنے دونوں ہاتھوں سے کرتا ہے وہی دونوں ہاتھ دوسرے انسان بھی رکھتے ہیں مگر اس کام میں مقام اور ماحول کا اثر ہوتا ہے۔
میرے دوست افتخار احمد خاں اسم بامسمی ہیں۔ وہ کسی کام میں ہاتھ بٹانے یا خود سے انجام دینے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں، خاص طور سے وہ کام جو کسی کے قابو میں نہ آتا ہو۔ اگر ایسا کام افتخار احمد خاں انجام دے لیں تو واقعی فخر محسوس کرتے ہیں۔ چھوٹے بڑے کسی بھی کام میں ان کو عار نہیں ہوتا۔ آج حسب معمول وہ میری دوکان پر تشریف لائے ۔چائے پانی کے بعد آنے جانے والوں کو دیکھا کہ گائے کے بول و براز سے احتراز کرتے ہوئے اپنا دامن بچا کر چلے جاتے ہیں۔ افتخار احمد خاں سے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔ کہنے لگے اس کی صفائی کا کوئی بندوبست نہیں تو لاؤ کاغذ کے موٹے ٹکڑے، میں ابھی صاف کیے دیتا ہوں۔ پھر کیا تھا میں نے ان کے مطلوبہ سامان کا جلدی سے انتظام کیا اور پلک جھپکتے ہی اس جگہ سے گوبر صاف۔ میں نے پانی فراہم کیا تو اس جگہ سے گوبر کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا۔ اب ہرگزرنے والا یہ سوال کرتا کہ صفائی کا کام کیسے بحسن و خوبی انجام پاگیا۔ نام بتائے بغیر اس نیک صفت دوست کا تذکرہ کرتا تو ہر ایک تعجب کرتا اور ان کے حق میں دین و دنیا کی تمام بھلائیوں کی دعائیں دیتا۔ بعد میں افتخار احمد خاں نے مجھ سے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ یہ ان کے لیے معمولی کام ہے اور پھر ایسا کام جس میں خدمت خلق کا پہلو حاوی ہو تو وہ کام انہی ہاتھوں سے انجام دئے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔ کہنے لگے اس کام میں میری محنت اور ہمت سے کتنے لوگوں کو راحت ملی اسی وجہ سے ہر کوئی میرے حق میں دعائے خیر کرنے پر مجبور ہے۔ مجھے بھی ان کے اس طرز عمل سے بڑی مسرت ہوئی اور صحیح بات تو یہ ہے کہ افتخار احمد خاں کی قدرومنزلت اس روز سے میرے دل میں بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس روز ان کے سچے اور پکے مومن ہونے کا یقین بڑھ گیا کہ فرمان رسول پر سچا عامل وہی تھے یعنی تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا ایمان کی علامت ہے۔