’’پہچان‘‘
’’مسز شرما تم نے آج کا اخبار پڑھا۔ اپنے پاس جو گوتم صاحب رہتے ہیں ان کو پریسیڈنٹ ایوارڈ ملا ہے۔
’’کون گوتم صاحب؟‘‘ مسز شرما نے جواب میں کہا۔
’’ارے وہی جو سینٹرل اسکول میں ماسٹر ہیں۔ بڑے شریف اور محنتی انسان ہیں۔‘‘
لیکن مسز شرما کو یاد ہی نہیں آرہا تھا کہ کون گوتم صاحب…آخر مسز گپتا نے کہا۔
’’ارے تم جانتی نہیں کیا؟ جن کا بیٹا کئی بار لڑکیوں کو چھیڑنے کے الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔‘‘
مسز شرما فوراً بول اٹھیں ’’اچھا اچھا اب پہچان گئی ببلو کے پاپا گوتم صاحب۔‘‘
اور میں حیران تھی کہ پریسیڈنٹ ایوارڈ یافتہ انسان کی کوئی پہچان نہیں۔ اور ایک آوارہ بیٹے کے باپ کی حیثیت سے ان کو سب پہچانتے ہیں۔‘‘
’’اجازت‘‘
راکیش اپنی بیوی کے ساتھ چھٹیوں میں گاؤں آیا تو ساس نے بہو سے سوالوں کی بوچھار کردی۔
’’بہو تمہاری شادی ہوئے آٹھ سال ہوگئے۔ کوئی اولاد نہیں۔ ڈاکٹر کو دکھایا کیا؟ کوئی پوجا پاٹھ یگ وغیرہ کروں کیا۔‘‘
بہو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’ماں جی میں ماں نہیں بن سکتی۔ ہم نے شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے صلاح لے لی ہے۔‘‘
بہو کا جواب سن کر ساس فوراً کہنے لگی۔
’’بہو! پھر تو ہم اپنے بیٹے راکیش کی دوسری شادی کردیتے ہیں۔ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے؟‘‘
یہ سن کر بہو غصہ میں بول اٹھی۔
’’ماں میں سچ بات کہنا نہیں چاہتی تھی۔ اب کہے بنا رہ نہیں سکتی ہوں۔ کمی مجھ میں نہیں، کمی آپ کے بیٹے میں ہے۔ وہ کبھی باپ نہیں بن سکتے۔ کیا آپ مجھے دوسری شادی کی اجازت دیں گی۔ ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔‘‘ll