افسانچے

ڈاکٹر اشفاق احمد، ناگپور

اصل جہیز
وہ تمام مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد دامنِ اسلام میں داخل ہوا تھا اور دین فطرت کے عین مطابق اپنی ازسر نو زندگی کا آغاز کرچکا تھا۔
ایک دن پاس پڑوس کے چند لوگوں نے اس سے کہا اب تمہیں شادی کرلینی چاہیے۔ ہم نے ایک لڑکی دیکھی ہے، وہ لوگ تعلیم یافتہ اور خاندانی مسلمان ہیں۔
دوسرے دن… وہ اُن لوگوں کے ساتھ ایک عالیشان مکان میں داخل ہوا۔ اُس نے چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں، اُسے ہر طرف مغربی تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیں۔
بغل کے روم سے ڈانس میوزک کی آواز آرہی تھی۔ والدہ نے اپنی لڑکی کو آواز دی… تھوڑی دیر بعد میوزک بند ہوگیا اور لڑکی مختصر کپڑوں میں ملبوس روم سے باہر نکل آئی۔
’’ہیلو ڈیڈ… مجھے کیا بلایا؟‘‘
اس سے قبل کہ والد بیٹی کو بلانے کی وجہ بتاتے نومسلم لڑکا یہ کہہ کر کھڑا ہوگیا۔
’’مجھے معاف کیجیے میں دو سال قبل جس معاشرے سے لوٹ آیا ہوں دوبارہ اسی معاشرہ میں نہیں جانا چاہتا۔‘‘یہ سن کر لڑکی کی والدہ کے چہرے پر پسینے کی بوندیں ابل پڑیں اور چہرے پر غازہ کی پرت کو دھونے لگیں۔
اصل جہیز
شادی کے دوسرے دن صائمہ خالہ کے گھر محلہ کی عورتوں کا تانتا لگ گیا تھا۔ کل صائمہ خالہ کے بڑے لڑکے کی شادی ہوئی تھی۔
صائمہ خالہ گھر آنے والی خواتین کی خاطرداری میں مصروف تھیں۔
اتنے میں کسی خاتون نے کہا:
’’صائمہ خالہ خاطر تواضع تو شام میں بھی ہوتی رہے گی ابھی تو ہم بڑی بہو کا جہیز دیکھنے آئے ہیں۔‘‘
خالہ نے کہا:
’’ٹھیک ہے، اللہ کا کرم ہے کہ مجھے جہیز میں سب کچھ مل گیا ہے۔ دلہن کے کمرے میں آؤ میں تمہیں جہیز دکھاتی ہوں۔‘‘
پھر انھوں نے دلہن کا گھونگھٹ اٹھایا اور کہا: ’’دیکھو…… یہ ہے میرا اصل جہیز!‘‘
بہت دیر کردی
جب بھی اسے کوئی نماز پڑھنے کی تلقین کرتا تو وہ یہی کہتا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے دو۔ پھر داڑھی رکھ کر ایک مسجد کا کونا سنبھال لوں گا۔ ملازمت سے سبکدوش ہوا تو اس نے بچوں کے لیے ایک عالیشان مکان بنانے کااردہ کیا تقریباً ایک سال کا عرصہ اپنی مرضی کے بام و در بنانے میں گزرگیا۔
آج مکان کا افتتاح تھا۔ برقی قمقموں سے عالیشان عمارت جگمگارہی تھی۔ اس کے قدم سجدہ شکر کے لیے مسجد کی جانب چل پڑے۔ اس نے اب طے کرلیا تھا کہ وہ کل سے اپنا زیادہ تر وقت مسجد میں گزارے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گا۔
ابھی وہ مسجد کی سیڑھیاں چڑھ ہی رہا تھا کہ اس کی حرکت قلب بند ہوگئی اور مسجد کے باہر ہی اس کی روح پرواز کرگئی!!
غریب آدمی
وہ امیر شہر تھا اُس نے اپنی پوری زندگی دولت بٹورنے میں لگادی ۔ شہر میں اس کی کئی فلک بوس عمارتیں تھیں۔ لاکھوں روپیہ بینک بیلنس تھا۔ وہ کہتا تھا دنیا میں دولت ہی سب کچھ ہے، لیکن جب اُسے جان لیوا مرض لاحق ہوا اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو وہ دولت مند شخص بہت مجبور اور بے بس پلنگ پر پڑا اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
بیٹا اس دنیا میں آرام و آسائش کے ساتھ جینے کے لیے میں نے بہت دولت بٹوری لیکن آج مجھے زندہ رکھنے کے لیے یہ دولت بھی کام نہ آئی اور جہاں مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ہے وہا ں کے لیے میں نے کچھ نہ کیا۔
بیٹا! آج میرے سامنے دولت کا انبار ہے، اس کے باوجود میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں کتنا بے بس اور غریب ہوگیا ہوں کہ جارہا ہوں تو میرا سیدھا ہاتھ خالی ہے۔‘‘
خدارا میری غربت پر رحم فرما!!
لمحۂ فکریہ
وہ نو مسلم رشتہ ازدواج میں بندھ چکا تھا میں جب مبارک باد دینے اس کے گھر پہنچا تو دیکھا اس کی بیوی جسے دینِ فطرت وراثت میں ملا تھا اپنے نومسلم شوہر سے قرآن پڑھنا سیکھ رہی تھی!!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں