افسانہ نگار کو یہ افسانہ بہت سال پہلے لکھ لینا چاہیے تھا۔بہت دیر کردی اس نے۔ اب تو فضا میں آکسیجن کی جگہ صرف بارود کی بو ہے اور مشرق کی پوری نسلِ انسانی کو اسی بارود کی بو میں سانس کھینچنا ہے۔ ہوا کا رخ یہ بتاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں فضا میں آکسیجن کی جگہ صرف بارود لے لے گا۔ قلم میں بھی روشنائی کی جگہ اب بارود ہے۔ الفاظ بھی بارود میں ڈھل رہے ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایک طالع آزما صدام حسین نے کویت کو تاراج نہیں کیا تھا۔ یہ ان لمحوں کی کہانی ہے جب امریکہ نے کویت سے عراقی افواج کو نکالنے کے بہانے ابھی دو درجن سے زائد ممالک کے اشتراک کے ساتھ بغداد پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ یہ کتھا اس وقت کی ہے جب ابھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر سینہ اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کے انہدام نے دنیا کی کیمسٹری نہیں بدلی تھی۔ ابھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے سے اٹھنے والے دیو ہیکل جنگی جہازوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائی تھی۔ یہ اس ساعتِ بے اماں سے بھی پہلے کی بات ہے جب نام نہاد اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں اڑا کر امریکہ اورانگلستان نے ہنستے بستے عراق کو ابھی کھنڈرات میں نہیں بدلا تھا۔ یہ اس عہد کی روداد ہے جب ابھی شام، ایران اور پاکستان کی دیواروں پر جنگی پرندوں کا خوف نہیں منڈلایا تھا۔ اس وقت راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب اہلِ مغرب بارود تیار کررہے تھے اور مشرق کی دنیا پرفیوم کی خوشبو میں مدہوش اپنے آپ سے بیگانہ تعیش کی پگڈنڈی پر سرپٹ بھاگی جارہی تھی۔ اسے یہ ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ پلٹ کر دیکھتی کہ مغرب پسِ پردہ کیا کررہا ہے۔
افسانہ نگار تلاش روزگار میں کویت کی سلیٹی سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔
وہ گھر سے ملازمت کی تلاش میں صبح دم نکلتا اور رات گئے واپس آتا۔ بلند و بالا عمارات کے سامنے اپنے آپ کو بونا محسوس کرتا، انہی بلند وبالا عمارات میں اسے اپنے حصے کا رزق تلاش کرنا تھا۔ وہ جب بڑی بڑی مارکیٹوں میں لمحے بھر کو رکتا تو اس کے دماغ کے خلیوں میں سوالات چیونٹیوں کی طرح ایک قطار باندھ کر چلنے لگتے۔ پہلے روز اس نے ایک صاحب سے پوچھا تھا ’’یہ سوق کے کیا معنی ہیں؟‘‘ مارکیٹ کو عربی میں سوق کہتے ہیں۔ جس سوق سے بھی اس کا گزر ہوتا وہ حیرت اور استعجاب سے ایک ایک چیز کو غور سے دیکھتا۔ انسانی تعیش اور آرام کا وہ کون سا سامان تھا جو یہاں میسر نہیں تھا۔ مغرب نے سارا سامان عربوں پر انڈیل دیا تھا۔ اور ہر چیز کے عوض وہ اپنی معیشت کی بنیاد میں ایسی کنکریٹ ڈال رہے تھے جو، ان کی آنے والی نسلوں کو بھی سنوار دے۔ کویت کا ہر شہری الف لیلوی دنیا میں رہتا تھا۔ وہاں کے عام شہری نے بھی اپنے گھر کو محل میں بدل لیا تھا۔ اونٹ قصہ پارینہ ہوکر ’’ثمونے‘‘ میں صرف قیمے کے کام آتا تھا۔ تعیش ہی حاصلِ زیست تھا۔
ہفتہ وار تعطیل کے روز کویت کے ساحل خوبصورت اجسام کی مدہوش کردینے والی نسوانی خوشبو سے مہکتے تھے۔ عرب امراء دادِ عیش کے دل دادہ ساحل کنارے ائیر کنڈیشن خیموں میں نو خیز کلیوں کے جسم کے زاویوں میں کھو کر دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوجاتے۔ جسم کی خوشبو انہیں اس حد تک مدہوش کردیتی کہ وہ بھول ہی جاتے کہ کسی روز کوئی اورنامانوس خوشبو بھی ان کا مقدر ہوسکتی ہے۔ وہ تیل بیچتے اور آرام خریدتے تھے۔ زمین پر ہی انھوں نے جنت بسالی اور شداد کی جنت کا انجام بھول گئے۔
افسانہ نگار سارا دن سڑکوں کی خاک چھانتا اور رزق تلاش کرتا تھا۔ وہ رزق کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے جب شاہراہوں سے گزرتا تو اس کے اندر کا موجود کیمرہ سارے عکس محفوظ کرتا چلا جاتا۔ وہ سوچتا یہ عکس کیوں محفوظ ہورہے ہیں؟ یہ سڑک کے کنارے جو بڑے بڑے نارنجی رنگ کے ڈرم رکھے ہیں ان میں تو کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہے۔ یہ عرب امراء کے محلات میں کام پر متعین خادمائیں کہیں بھولے سے تو ان میں روٹی، چاول اور سالن نہیں ڈال جاتیں۔
ایک دن اس نے جرأت کرکے ایک خادمہ سے پوچھ ہی لیا: ’’یہ اتنا بہت سا سالن، روٹی اور چاول کا دیگچہ اس ڈرم میں الٹتے ہوئے تمہیں خوف نہیں آتا؟‘‘
’’یہ کام تو میں روز کرتی ہوں۔‘‘
اس خادمہ کے ایک فقرے نے افسانہ نگار کو لرزا دیا ۔ وہ سوچ کی وادی میں جا اترا۔ کیا واقعی انسان گناہ کا عادی ہوجائے تو اس کی حسیات مرجاتی ہیں۔ قرآن کا کہا سچ ہے کہ ہم دلوں پر مہر لگادیتے ہیں۔ آج اس نے یہ مہر اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ وہ اپنے اندر بھی جھانک رہا تھا۔ کیا قطرہ قطرہ سیاہی دل کو اپنی لپیٹ میں تو نہیں لے چکی؟
اس نے جھر جھری لی…
اسے اپنی دھرتی یاد آئی۔ اس کے سامنے اس کی دادی کا چہرہ ابھرا۔ اسے اس کی دادی نے روٹی کا ٹکڑا کھانے کے دوران ہاتھ سے گرجانے پر دوبارہ جھاڑ کر اور پھر چوم کر کھانا سکھایا تھا۔ دستر خوان پر روٹی کے باقی ماندہ ٹکڑے اور ریزے چیونٹیوں کے بل پر ڈالنے سکھائے تھے کہ یہ ان کا رزق تھا۔ بچی کھچی ہڈیاں ایک کونے میں ڈالنی سکھائی گئی تھیں جو گھر کی بلیوں کا حق تھا۔
’’یہ کام تو میں روز کرتی ہوں۔‘‘
خادمہ تو ایک علامت ہے۔ یہاں رزق کی بے حرمتی روز کا معمول ہے۔ ہائے یہ چاول کے دیگچے، یہ روٹیاں اور یہ گوشت کا عمدہ سالن…… ہائے ہائے …… اسے کیوں مٹی میں رول دیا۔ کہیں ترتیبِ وقت میں ایسا وقت نہ آجائے کہ ساری قوم روٹی کے ایک لقمے کو ترستی قطار باندھے اپنی باری کا انتظار کررہی ہو۔ افسانہ نگار سوچتا اور کڑھتا رہا۔ وہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
اس وقت مغرب بارود تیار کررہا تھا …
اور عرب تیل بیچ کر پرفیوم خرید رہے تھے۔
خوشبو دونوں کی مدہوش کردینے والی تھی۔ مغرب بارود کی خوشبو اور مشرق پرفیوم کی خوشبو میں مدہوش تھا۔ اہل مشرق اپنی خواب گاہیں مہکا کر سدھ بدھ کھوبیٹھتے اور پرفیوم کی مہین دیوار کے اس پار کا منظر ان کی نظروں سے اوجھل تھا۔ ان کو یہ فرصت ہی نہیں تھی کہ وہ خبر رکھتے کہ وقت کو کروٹ لینے میں کتنی دیر ہے۔
راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
آنے والا کل کس نے دیکھا ہے…؟
افسانہ نگار بے روزگاری کے ہاتھوس تنگ آچکا تھا۔
اس نے بجلی کی ایک دکان پر اپنے آپ کو مصروف کرلیا۔ اسے وطن واپسی کے لیے زادِ راہ کی ضرورت تھی۔ اسے معمولی تنخواہ پر ملازمت مل گئی اور وہ اس پر ربِّ کریم کا شکر گزار تھا۔ اس دکان پر ملازمین کی تعداد چار تھی۔ وہ اوزار تھامے سارا دن گاہک کا انتظار کرتے۔ جیسے ہی کوئی شکایت موصول ہوتی وہ اپنے اوزارلیے کام پر نکل جاتے۔ ان کو گھر گھر جانے اور کام کرنے سے وہاں کے لوگوں کی بودوباش، طرزِ رہائش اور انداز و اطوار کا بھی تجربہ ہوتا۔ افسانہ نگار کو جب حساب کرکے مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ دی گئی تو وہ ربِّ کریم کے سامنے سربہ سجود ہوگیا۔ گانٹھ لگے سلیپر ایک طرف رکھ کر اس نے نئے سلیپر خریدے۔ کپڑوں کا ایک جوڑا، قلم کاغذ اور دوسرا ضرورت کا سامان اپنے کمرے میں لا رکھا۔ اسے اس کے ساتھیوں نے محنت جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ایک شاندار مستقبل سامنے کھڑا ہے۔ حالانکہ وہ کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔ وہ دوسروں کے کہنے پر کیسے مان لیتا۔ اس کے اندر ایک ہی خواہش بار بار سر ابھارتی کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائے۔
’’کیا اپنی دھرتی پر یہ آسائشات میسر آجائیں گی…؟‘‘ وہ سوچتا۔
ایئر کنڈیشن کار، بجلی کی ایسی سہولت کہ موسم گرما میں ایئر کنڈیشنر دن رات چلتا رہے۔ اشیائے خوردونوش کی ایسی فراوانی کہ مہمان کی آمد بھی گراں نہ گزرے۔ لیکن مجھے تو یہ سب نہیں چاہیے، میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں؟ مجھے تو دو وقت کی روٹی چاہیے اور وہ میری دھرتی پر بہت ہے۔ اس بنجر صحرا میں تو سایہ دار درخت دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ اس ریگزار میں تو تنہائی نے ڈیڑہ ڈال رکھا ہے۔ یہاں دادی اماں اور نانی اماں کی بوڑھے برگد جیسی ٹھنڈی چھاؤں نہیں ہے۔ میرے گاؤں میں تو پیپل، برگد، نیم اور شیشم کے ٹھنڈی چھاؤں والے درخت تھے۔ اور یہاں بس کہیں دور صحرا میں جنگلی کیکر کی جھاڑیاں نظر آجاتی ہیں۔
’’مجھے سنجیدگی سے لوٹنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔‘‘
افسانہ نگار وطن واپسی کے لیے پائی پائی جوڑتا رہا۔
اور ہزاروں میل کی مسافت پر مغرب بارود جوڑتا رہا۔
اہل مشرق سامانِ تعیش جوڑتے رہے۔
ایک روز جب افسانہ نگار کی جیب میں وطن کو لوٹنے کا کرایہ تھا۔ اس نے واپسی کی راہ لی۔ ابھی جہاز نے زمین کو چوما ہی تھا کہ اسے پشت پر کسی اور جہاز کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ وہ سمجھا جہاز نے رن وے پر اپنا رخ تبدیل کیا ہے۔ لیکن وہاں تو کئی سال سرک چکے تھے اور وہ اپنے وطن کے ایئر پورٹ پر کھڑا تھا۔
افسانہ نگار نے سوچا یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ میں ایک ہی جست میں یہاں کیسے پہنچ گیا ہوں؟ اس نے ایک شخص سے مادری زبان میں پوچھا ’’بھائی یہ اپنے ہی وطن کا ائیر پورٹہے نا؟‘‘
آہو …… جی!
لیکن آج اتنا زیادہ رش کیوں ہے…؟ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔
وہ جی عراق پر امریکی حملے کے بعد لوگ اپنے گھر آرہے ہیں نا…
افسانہ نگار نے اپنے آپ سے سوال کیا … تم یہاں کیا کررہے ہو…؟
مجھے کیا معلوم میں کیا کررہا ہوں۔
تم تو پہلے سے موجود ہو پھر پریشان کیوں ہو…؟ کہیں اندر بہت اندر سے آواز آئی۔
یہاں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔ جانے کس دیس کو سدھار گئے۔ سارے اہل دانش، سائنس داں، سیاست داں، علماء اسکالرز، حکمراں اور سرفروش!
سب نے بہت دیر کردی۔ اور ادھر عراق کے قصبے ناصریہ میں یہ عراقی افواج کتنی دیر امریکی سیلاب بلا کا مقابلہ کریں گی…؟ افسانہ نگار ابھی کابل و قندھار اور قندوس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی سماعت سے ٹی وی کے عملے کی آواز ٹکرائی۔
کویت سے آئی فلائٹ سے اترے مسافروں کو گھیر کر ان سے سوال کیے جارہے تھے۔ جو وہاں کی سرزمین ہی چھوڑ آئے تھے … وہ کیا خبر دیتے۔ وہ تو ایک ہی داستان سنا رہے تھے کہ جب ہمارا جہاز فضا میں بلند ہوا تو ایک ہی خوف تھا ہمیں، کہیں کوئی امریکی میزائل ہمارے جہاز کو نہ آلے۔ ان کو کیا خبر قندوس، قندھار، مزار شریف، کابل اور قلعہ جنگی جیسے ہولناک ترین واقعات کے بعد اب ناصریہ، بغداد، موصل اور کربلا پر کیا گزرنے والی ہے…؟
وہ تو شانت تھے کہ انھوں نے جان کی امان پائی۔ اور افسانہ نگار نے باہر نکل کر ائیر پورٹ کی تیز روشنیوں کے درمیان سے آسمان کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اس کی نگاہ ناکام پلٹ آئی۔ اچانک اسے ایک خیال آیا۔ اس نے اپنی جیب میں رکھے قلم کو غور سے دیکھا۔ شاید اس میں اب روشنائی کی جگہ بارود ہو…؟
اس نے قلم جیب سے نکال کر دیکھا۔
بارود تو اپنی جگہ قلم میں تو روشنائی بھی نہیں تھی۔
اس نے قلم جیب میں واپس رکھا۔ ایک ٹھنڈی سانس لی۔
اس کا جسم تڑخا…
اس نے فضا میں گہری سانس لی
بغداد میں امریکی ٹینک داخل ہوئے …
اس نے قلم جیب سے نکال کر دیکھا۔
بارود تو اپنی جگہ، قلم میں روشنائی بھی نہیں تھی۔
اس نے قلم جیب میں واپس رکھا، ایک ٹھنڈی سانس لی۔
اور اپنے آپ سے مخاطب ہوا۔ اور کہا
افسانہ نگار تم نے بہت دیر کردی……!