’’افواہ‘‘ پھیلانا ایک دینی اور اخلاقی جرم ہے، کبھی کبھی تو اس کی وجہ سے بسے بسائے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔ اگر تفصیل میں جایا جائے تو شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن ہمارا معاشرہ ان افواہوں کی زد میں آکر ملی و ملکی نقصانات سے دو چار نہ ہوتا ہو۔ ظاہر ہے معاشرہ جن حالات سے دوچار ہو، اس کے اثرات لازما پڑیں گے۔ کاش افواہیں پھیلانے والے اور افواہوں پر کان دھرنے والے یہ احساس کرسکیں کہ اس سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ کاش ہمیں معلوم ہو کہ ہم مسلمان ہیں، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام اور تعلیمات پر چلنا ہی ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے۔ قرآن مجید ہمارا رہ نما ہے کہ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے: ’’سنی سنائی باتوں (افواہوں) پریقین کرلینے سے پہلے تحقیق کرلیا کرو۔‘‘ یعنی ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟ ویسے بھی بغیر تحقیق کسی بات کو ’’تسلیم کرلینا صاحب عقل‘‘ ہونے کی علامت نہیں، بلکہ یہ بات اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کا باعث بن جاتی ہے۔ سورۃ الحجرات میں ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو، تمہارے پاس اگر کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں تمہارے کسی فعل کی وجہ سے کسی قوم کو ضرر پہنچ جائے اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔‘‘
جہاں سنی سنائی بات پر کوئی رائے بنانے یا ردعمل ظاہر کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کی بات کہی گئی ہے وہیں اس بات کو بلا تحقیق آگے بیان کرنے یا اسے پھیلانے سے بھی روکا گیا ہے، اور یہ شرعاً ناجائز عمل ہے۔
رحمت عالمﷺ کا ارشاد ہے: ’’کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے ہی کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق دوسرے سے بیان کر دے۔
معلوم ہوا کہ بغیر تحقیق کسی بات یا خبر کو مان لینا خلاف اسلام ہے۔ جس کا نتیجہ ندامت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں، اس سے آدمی کا جھوٹا ہونا ظاہر ہوتا ہے۔
افواہ کا مطلب ہے بغیر سوچے سمجھے، جو منہ میں آئے کہہ ڈالو‘‘ بظآہر افواہیں پھیلانا لوگوں کے لیے ایک مذاق ہے۔ لوگ اسے محض تفریح طبع سمجھتے ہیں۔ کاش ہم اس مذاق کے انجام پر نظر ڈالیں کہ جو کھیل ہم محض کھیل تماشے اور دل کو بہلانے کے لیے کھیلتے ہیں، وہ افراد کے لیے، خاندانوں کے لیے، سماج کے لیے اور ملک و ملت کے لیے بعض اوقات کتنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھاچڑھا کر بیان کرنا یقینا ایک گھناؤنا جرم ہے، تب ہی تو قران مجید نے اس پر ہمیں ’’متنبہ‘‘ کیا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا۔ ہر وہ عمل جو احکام الٰہی اور تعلیمات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو، باعث گناہ ہے۔ چناں چہ سنی سنائی باتوں پر جب مسلمانوں نے توجہ دینی شروع کی۔ ان کے دلوں سے محبت اور خیر خواہی کا جذبہ کم ہوتے ہوئے اس ’’سطح‘‘ پر رہ گیا ہے کہ کسی کی مصیبت کے متعلق سن کر یا دیکھ کر افسوس کر کے چل دیے، حالاں کہ مسلمان مسلمان کے لیے خیر خواہی کا ذریعہ ہے۔
افواہیں جب پھیلتی ہیں تو ان کے اثرات دلوں پر ایک ایسا داغ ڈالتے ہیں کہ یہ داغ، منافرت اور بغض و عناد کا نہ مٹنے والا نشان بن جاتا ہے اور یہی سامان پورے ملک اور سماج کو بھی داغ دار کر دیتا ہے۔ جھوٹی باتیں (افواہیں) ہر ’’سطح‘‘ پر خطرناک ہی ہیں۔ افواہیں ملک میں امن و امان کے لیے بسا اوقات اس حد تک خطرناک ہوتی ہیں کہ بے شمار انسانی جانیں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ چناں چہ مسلمان جب بھی اسلامی حکم پر عمل کرنے سے بیگانہ ہوا تو اس سے ایمان کی طاقت چھین لی گئی اور اس کی جگہ بے یقینی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آج محض افواہ کی بنیاد پر دوسرے گروہ کے خلاف محض افواہ یا غلط فہمی کی بنیاد پر بھڑک اٹھتا اور آمادہ جنگ ہو جاتا ہے۔ اس بات نے مسلم معاشرے میں ’’گروہ بندی‘‘ کی بنیادیں ڈال دیں، حالاں کہ مسلمان ایک ایسی جماعت کا نام ہے جو عقیدتاً ایک نظریے کے حامی ہیں۔ گروہ بندی اور فرقہ واریت کے جراثیم مسلمانوں کی یک جہتی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔lll